• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’مسجد قرطبہ‘‘اسلامی فن تعمیر کا عظیم شاہکار

مسجد قرطبہ پورے قرطبہ شہر کی پہچان ہے۔ یہ 1984ء سے اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو کی عالمی ثقافتی میراث قرار دیے جانے والے مقامات کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ ورلڈ ہیریٹیج سینٹر کے مطابق، یہ مسجداپنے حجم اور اپنی اونچی چھتوں کی وجہ سے ایک انوکھے تعمیری کارنامے کی نمائندگی کرتی ہے۔

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ وہی جامع مسجد ہے، جس کی تعمیر عبد الرحمان اوّل الداخل نے 8ویں صدی کے اواخر (786ء) میں شروع کی۔ یہ مسجد وادی الکبیر میں دریا کے پل پر اُس جگہ تعمیر کی گئی، جہاں سینٹ ونسنٹ کا گرجا گھرموجود تھا۔ اس کاکچھ حصہ مسلمان پہلے ہی بطور مسجد استعمال کر رہے تھے، چنانچہ عبدالرحمان اوّل الداخل نے بہت بھاری قیمت ادا کر کے باقی گرجا بھی عیسائیوں سے خرید لیا اور پھر مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ یہ شاندار مسجد صرف دو سال کی قلیل مدت میں تیار ہوئی اور اِس کی تعمیر پر 80ہزار دینار خرچ ہوئے۔ اِس کے بعد 10ویں صدی تک ہر آنے والے مسلم حکمران نے مسجد کی تزئین و آرائش اور توسیع میں اپنا حصہ ڈالا۔

اس مسجد کی چوڑائی150میٹر اور لمبائی220میٹر کے قریب تھی،اِس مسجد میں 14سو سے زائد ستون تھے۔ شاہ فلسطین نے جہاز میں ساڑھے 4سو من قیمتی پتھر بھجوائے۔ مسجد کی چھت30فٹ کی بلندی پر تعمیر کی گئی تھی،جس سے ہوا اور روشنی کا بہتر نکاس ممکن ہوا۔ چھت کو سہارا دینے کے لیے کئی ستون تعمیر کیے گئے، اِن ستونوں کی کثرت سے مسجد میں خود بخود راستے بن گئے۔ ہر ستون پر دوہری نعلی محرابیں نصب کی گئیں، جو بعد میں اُندلس کے فنِ تعمیر کا حصہ قرار پائیں، ہر دوسری محراب کو پہلی محراب کے اوپر ایسے نصب کیا گیا کہ وہ چھت سے جا ملی، ان محرابوں پر کہیں کہیں قبےّ بنائے گئے تھے، جن میں سے چند ایک ابھی تک باقی ہیں ۔ چھت میں 280ستارے نصب کئے گئے،یہ ستارے اندرونی دالان میں نصب تھے اور خالص چاندی کے بنے ہوئے تھے۔ مسجد کے مرکزی ہال میں نصب بڑے فانوس میں بیک وقت ایک ہزار چراغ روشن ہو تے تھے۔ چراغوں کے لیے سال بھر میں ساڑھے 3من موم کے علاوہ 300من تیل جلایا جاتا تھا۔ مسجد میں روشنی کا انتظام اِس قدر بہتر تھا کہ رات کے وقت بھی دن کا گماں ہوتا تھا۔

مسجد قرطبہ میں نصب ستون زیادہ تر اشبیلیہ، اربونہ اور قرطاجنہ سے منگوائے گئے تھے لیکن تعداد کم ہونے کی وجہ سے امیر عبد الرحمان اوّل الداخل نے بعد میں اُندلسی سنگِ مر مر ترشوا کر ایسے ستون تیار کروائے،جنھیں سونے اور جواہرات سے مزین کیا گیا، اِن ستونوں نے مسجدکی تزئین و آرائش میں مزید اضافہ کردیا،یہ سارا کام نہایت نفاست اور ماہرانہ فنکاری کے ساتھ انجام دیا گیا۔

ابتداء میں مسجد میں9دروازے نصب کیے گئے تھے،بعد میں اِن کی تعداد21تک جا پہنچی، اِن میں سے 3دروازے شمال اور 9،9دروازے مشرق اور مغرب کی جانب تھے۔ مشرق اور مغرب کی جانب نصب دروازوں میں صرف ایک ،ایک دروازہ خواتین کے لیے مخصوص تھا۔ مسجد کے تمام درودیوار اور فرش کو خوبصورت پتھروں سے مزین کیا گیا تھاجبکہ چھت نقش ونگار اور مختلف چوبی پٹیوںسے آراستہ تھی، خاص دالان کے دروازہ پر سونے کا کام کیا گیا۔ اسی طر ح مسجد قرطبہ کی محراب کے لیے استعمال کیا جانے والاسنگ مر مر دودھ سے زیادہ سفید اور چمکیلا تھا، صناعوں نے اِسے ہفت پہلو کمرے کی شکل دے دی تھی ،جس کے اندر کی جانب سنگ تراشی کے ذریعے خوبصورت گل کاری کا کام کیا گیا ،اُس کے سامنے کی طرف قوس کی شکل میںجو آرچ بنائی گئی تھی، اُسے دونوں طرف سے دو ستونوں نے سہارا دے رکھا تھا۔

اِس محراب پرخوبصورت اور رنگین نقش ونگار بنائے گئے تھے، جس کے گرد کوفی رسم الخط میں قرآنی آیات لکھی گئیں، مسجد کا منبر خوشبو دار قیمتی لکڑی کے 36ہزار ٹکڑوں سے بنایا گیا تھا،جنھیںجوڑنے کے لیے سونے اور چاندی کی کیلیں استعمال ہوئیں جبکہ مسجد کی دیواروں اور چھت پر خوبصورت خطاطی سے مزین قرآن مجید کی آیات مبارکہ کندہ کی گئیں۔

1236ء میں اندلس میں مسلم حکومت کے خاتمے کے بعد، دوسری مساجد کی طرح مسجد قرطبہ بھی عیسائی راہبوں کے تسلط میں آگئی۔ 10سال بعد 1246ء میں اسے گرجا گھر میں بدل دیا گیا۔ 15ویں صدی میں مسجد کے وسط میں ایک کیتھولِک گرجا قائم کردیا گیا، جہاں عیسائیوں کو عبادت کی اجازت ہے، لیکن مسلمانوں کے لیے مسجد میں اذان دینے اورنماز کی ادائیگی پر آج بھی پابندی عائد ہے۔1931ء میں شاعر مشرق علامہ اقبال وہ پہلے فرد تھے، جنھوں نے آٹھ سو سال بعد قرطبہ کی جامع مسجد میں پابندی کے باوجود اذان دی، نماز ادا کی اور’مسجد قرطبہ‘ کے عنوان سے ایک خوبصورت نظم بھی لکھی، مگر اُن کے بعد مسجد میں پھر سے خاموشی کا راج ہے ۔ دسمبر 2006ء میں اسپین کے مسلمانوں نے پوپ بینڈکٹ سے اپیل کی کہ انہیں جامع مسجد قرطبہ میں عبادت کرنے کی اجازت دی جائے ،مگر اُن کی درخواست مسترد کردی گئی۔ صدیوں تک ریاست کی ملکیت میں رہنے کے بعد، اسپین کی حکومت نے 2014ءمیں بالآخر اسے 30یورومیں کلیسا کو فروخت کردیا اور ملکی قانون کے تحت اب اِس مسجد کو گرجے کی ملکیت قرار دیا جا چکا ہے اور یہ مسجد اب مکمل طور پر چرچ کی ملکیت ہے۔

ہر سال اسپین آنے والے سیاحوں میں سے تقریباً 14 لاکھ سیاح، مسجد قرطبہ کی خوبصورتی کا نظارہ کرنے آتے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین
تازہ ترین