• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن 2018کے صاف شفاف ہونے کا تو تاریخ ہی فیصلہ کرے گی لیکن اس عمل کے دوران بہت سے مغالطے اور مفروضے غلط ثابت ہو گئے ہیں۔ ہم ملک میں جس سیاسی خلا کا بار بار ذکر کرتے رہے ہیں وہ پر نہیں ہوا۔ بظاہر انسداد بد عنوانی کا بیانیہ عوام کی قبولیت حاصل کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے اور ’ووٹ کو عزت دو‘ کا بیانیہ بھی بھرپور انداز میں بڑی سیاسی لہر کا رخ متعین نہیں کرسکا۔ الیکشن کے اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر الیکشن میں دھاندلی کے عنصر کو بھی شامل کر لیا جائے تو مقبولیت کے پیمانے پر کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکی۔ کافی کم تعداد میں ووٹروں کا الیکشن میں حصہ لینا اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ عوام میں کسی بھی سیاسی بیانیے کے لئے جوش و خروش بہت محدود تھا۔اس پس منظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی سیاسی دھڑے کو فیصلہ کن فتح نصیب نہیں ہوئی اور مستقبل قریب میں سیاسی کشمکش کم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گی۔

الیکشن سےپیشتر جب ہر پارٹی کے پرندے پاکستان تحریک انصاف کی شاخوں پر آشیانے بنانے کی تگ و دو کر رہے تھے تو یہ کہا جا رہا تھا کہ وفاداریاں تبدیل کرنے والے پی ٹی آئی کی جیت کا سبب بنیں گے۔ الیکشن کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ ندیم افضل چن سے لے کر سردار ذوالفقار کھوسہ تک اکثر الیکٹیبلز ہار گئے۔ پی ٹی آئی کی جیت کی بنیادی وجہ اس کی صوبہ خیبر پختونخوا، کراچی، اور شمالی پنجاب میں بھاری جیت تھی۔ اگرچہ جنوبی پنجاب میں بھی مسلم لیگ (ن) کوئی کمال نہیں دکھا سکی لیکن وہاں تو غیر متوقع طور پر پیپلز پارٹی بھی کافی سیٹیں لینے میں کامیاب ہو گئی۔ البتہ اس الیکشن سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ صرف اپنی شخصیت کے بل بوتے پر الیکشن جیتنا آسان کام نہیں ہے: چوہدری نثار علی خان کی تین سیٹوں سے شکست سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اکثر اوقات شخصیاتی طلسم محض فریب نظر ہوتا ہے۔


الیکشن سے پہلے یہ تاثر موجود تھا کہ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں اپنی کارکردگی کی بنا پر مقبول ہے جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی اپنی بہت بری گورننس کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔ الیکشن کے نتائج سے یہ عیاں ہو گیا کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں اپنی سیٹوں کی تعداد اور ووٹوں میں بھی اضافہ کیا۔ اس سے یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے بھی سندھ میں کوئی بہتر کارکردگی دکھائی ہو گی جس کی وجہ سے اسے اتنی پذیرائی ملی۔نہ صرف یہ بلکہ پیپلز پارٹی نے پنجاب میں بھی پہلے کی نسبت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا: الیکشن کے آخری دنوں میں بلاول بھٹو زرداری کے پنجاب میں کامیاب جلسوں سے یہ اشارہ ملا تھا کہ پنجاب کے عوام پیپلز پارٹی کے بارے میں نظر ثانی کرنے کے لئے تیار ہیں۔

ان الیکشنوں سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ عمومی طور پر عوام قوم پرستی اور لسانی سیاست کی حد بندیوں سے آزاد ہو چکے ہیں۔ خیبر پختونخوااور سندھ میں قوم پرستوں کی کمزور یوں سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اب پاکستان میں قوم پرست یا لسانی سیاست کی بنیادیں موجود نہیں ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ 1977 میں ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی نے مرکز پرست پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) میں شمولیت اختیار کر کے اپنی قوم پرست سیاست کے خاتمے کا اعلان کردیا تھا۔ پچھلے الیکشنوں میں بھی اے این پی قومی سوالوں پر الیکشن نہیں جیتی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کے علاوہ ملک کے باقی صوبوں کی معیشتیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں اور ان صوبوں کا متحدہ پاکستان میں باہمی مفاد ہے۔ اس الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی پنجاب سے باہر غیر حاضری کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس نے پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں میں اپنا سیاسی ڈھانچہ کھڑا کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ اور چونکہ اس کا سیاسی بیانیہ بھی بہت مضبوط نہیں تھا لہٰذا اسے مرکزی پنجاب سے باہر کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔


الیکشن 2018میں مذہبی جماعتوں کی کارکردگی بھی متضاد اشارے فراہم کر رہی ہے۔ ایک طرف تو مذہبی جماعتوں کا مشترکہ محاذ، ایم ایم اے، اپنی پرانی حیثیت باقی نہیں رکھ سکا تو دوسری طرف تحریک لبیک یا رسول اللہ نے ووٹوں کی بھاری تعداد اپنے نام کی ہے۔ روایتی مذہبی سیاسی پارٹیوں کی شکست اور تحریک لبیک کا ابھار سیاست میں نئے سوالات پیدا کر رہا ہے۔ ویسے تو پاکستان میں مذہبی جماعتیں اس لئے بھی اکثریت حاصل نہیں کر پاتیں کہ مرکزی دھارے (مین اسٹریم) کی پارٹیاں بھی سیکولر ہونے کی بجائے مذہبی نعروں کو اپنے سیاسی پروگراموں کا حصہ بنا لیتی ہیں۔ یہ صور ت حال ہندوستان سے مختلف ہے جہاں کانگریس کے علاوہ بہت سی دوسری پارٹیاں واضح طور پر سیکولر سیاست کا نعرہ لگاتی ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی سر عام مذہبی سیاست کا دم بھرتی ہے۔ پاکستان کے موجودہ الیکشنوں میں تمام بڑی سیاسی پارٹیاں مذہبی رہنماؤں سے اشیر باد حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہیں اور انتہائی رجعت پرست نعرے لگاتی رہیں۔

بنیادی بات یہ ہے کہ موجودہ الیکشن میں ہارنے اور جیتنے والی پارٹیوں کے بنیادی نظریات ایک دوسرے سے مماثل تھے۔ جہاں انسداد بد عنوانی کا نعرہ محض ایک اخلاقی دعویٰ تھا تو وہیں ’ووٹ کو عزت دو ‘ کا منتر بھی کافی مجرد تھاجس کا عوام کی بنیادی ضروریات سے کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا۔ اگر ان پارٹیوں پر غور کریں تو ان کا مخصوص قسم کا سرمایہ داری نظریہ بھی ایک جیسا ہے اور سماجی تعلقات کے بارے میں بھی ان کی آرا مشترک ہیں۔ ان سب پارٹیوں میں ایک دوسرے کے بھائی بند بیٹھے ہوئے ہیں اور حکومت میں اپنی اپنی باری لینے کا انتظار کر رہے ہیں۔پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ تقسیم دولت، روزگار کی فراہمی اور سماجی گھٹن کا ہے اور کوئی بھی پارٹی ان بنیادی مسائل کے لئے کوئی جامع نظریہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس الیکشن میں سب سے بڑی دلیل تھی کہ باقیوں کو تو آزما چکے اب پی ٹی آئی کو بھی موقع دو اور آزماؤ۔ اس بارے میں منیر نیازی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے:


آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے


ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین