• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک سال کیلئے ”صُلحا“ کی نگراں حکومت کی سازشی تھیوری اگرچہ محو پرواز ہے لیکن عام انتخابات ہی آئین کا تقاضا ہے۔ یہ عوام کا حق ہے کہ ایک منتخب حکومت معرض وجود میں لائی جائے۔ اس حوالے سے ایک حل طلب اور باعث تشویش سوال موجود ضرور ہے کہ موجودہ حکومت نے عوام کو کیا دیا؟ یا آنے والی سیاسی حکومت کیا دے پائے گی؟ لیکن اس کی بھی کوئی ضمانت دستیاب نہیں کہ ”صُلحا“ کی حکومت کے آنے سے تمام مسائل ہوا میں تحلیل اور من و سلویٰ کی بارش شروع ہوجائے گی۔ پاکستان مختلف تجربات کی آماجگاہ رہاہے اور اس ملک کی جو حالت ہوئی ہے وہ بھی اس نوع کے تجربات کا ماحاصل ہے لہٰذا عام انتخابات کو بالائے طاق رکھ کر کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنے سے اب کیونکر کوئی انقلابی تبدیلی وقوع پذیر ہوسکے گی؟ اس کا جواب مصلحین کے ”مرکبین“ پر واجب ہے۔
یہ درست ہے کہ انتخابات کی صورت میں یہی چہرے دوبارہ رونق افروز ہوں گے لیکن یہ انتخابات ہی ہوسکتے ہیں جو ایسے چہروں کو بے نقاب کرسکیں گے۔ اگر ہمیں بھارت کی طرح بلا رکاوٹ جمہوری سفر جاری رکھنے کا موقع میسر ہوتا تو پاکستانی عوام بھی اپنی دنیا آپ آباد کرلیتے۔ کسی بھی سطح پر کامیابی کیلئے مستقل مزاجی اور تسلسل ضروری ہے۔ ناقص کارکردگی کے باوجود پیپلزپارٹی کی حکومت کا اپنی مدت پوری کرلینا جمہوریت کیلئے نیک شگون ہے۔ اس حکومت کو کیوں چلتے رہنے دیا گیا۔ بیرونی صورت حال، اسٹیبلشمنٹ کے رویوں میں لچک سمیت اس کی ایک سے زائد وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن اس میں سیاستدانوں بالخصوص نوازشریف کے مثبت کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ میاں صاحب یہ بیان دینے میں حق بجانب ہیں کہ ”ہم پر زرداری حکومت کی حمایت کا الزام لگانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم نے زرداری کی کرپٹ حکومت کو ختم کرنے کیلئے اس لئے غیرجمہوری طرزعمل اختیار نہیں کیا تاکہ آمریت کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوجائے“۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا فلسفہ بھی بالکل یہی تھا جو میاں صاحب کا ہے یعنی ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“۔ جمہوریت کا انتقام بذریعہ انتخاب ہوتا ہے جو عوام خائنوں سے لیتے ، آمروں سے لیتے ہیں، اب خائنوں سے انتقام بذریعہ انتخاب کا مرحلہ آنے والا ہے۔ دوسرے معنوں میں یہ عوامی خائنوں یا عوامی حقوق کے حوالے سے نااہلی برتنے والے نمائندوں کا احتساب ہے۔ میاں صاحب اور محترمہ شہید کے ان ”مقولوں“ سے جہاں یہی مفہوم واضح ہوتا ہے تو اس کے معنی جمہوریت کو رواں رکھ کر اقتدار کے شوقین جرنیلوں سے انتقام لینا بھی ہے۔ یہ انتقام بھی ذاتی، گروہی و طبقاتی زمرے میں نہیں آتا اور نہ ہی اس سے ادارہ متاثر ہوتا ہے بلکہ یہ برائے اصلاح اور قومی مفاد میں ہوتا ہے۔ اس کے تین اہم اجزا ہیں (1) عوامی و شفافیت سے مزین طرز حکمرانی (2) جمہوریت کا فروغ (3) قصور وار آمروں کو عدالتی کٹہرے میں لانا۔ اس انتقام کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ سیاسی حکومت عوامی خدمت، امن، ترقی، شفافیت اور غیرجانبدار خارجہ پالیسی سے ثابت کرے کہ جمہوریت، آمریت سے بہتر ہے۔ اس حوالے سے پیپلزپارٹی کی حکومت کلی طور پر ناکام ہے۔ البتہ جمہوریت کے فروغ کے حوالے سے یہ جزوی طور پر انتقام لینے میں کامیاب ہوئی ہے اور جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ حکومت کو چلتے رہنے دینے کی ایک سے زائد وجوہات ہیں لیکن اس میں صدر آصف زرداری کی خاموش ڈپلومیسی کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا لیکن ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“ کے تناظر میں عدلیہ و میڈیا ہی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں جو وہ ”فی الحال“ کامیابی سے ادا کررہے ہیں جب پاکستان میں جمہوریت شخصی، طبقاتی اور ادارہ جاتی رسوخ سے آزاد ابراہام لنکن کی تعریف ”عوام کی حکومت“ عوام کیلئے حکومت، عوام کے ذریعے حکومت“ کی عملی تعبیر بن جائے گی تو خائنوں سے ”انتقام“ کا مرحلہ بھی فیصلہ کن موڑ پر آپہنچے گا۔ اس لئے ہم جیسے طالب علم انتخابات کے تسلسل پر زور دے رہے ہیں اگرچہ ہم اس خوش فہمی میں قطعی نہیں ہیں کہ خیالات کو فوری تعبیر ملنے والی ہے اور یہ کہ انتخابات کسی اندرونی و بیرونی آمیزش سے کلی پاک و شفاف منعقد ہوسکیں گے لیکن امکان بہرصورت موجود ہے جسے صُلحا کی حکومت کی نذر نہیں ہونا چاہئے۔ ہم یہ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ جو الیکشن کمیشن چاہے گا ویسا ہی ہوجائے گا اورنہ ہی ہمارا ذہن پری پول یا پری پوسٹ دھاندلی کے خدشے سے مکمل آزاد ہے۔ بیرونی بالخصوص پڑوس کے اثرات انتخابات پر اثرانداز ہوسکتے ہیں جس کے نتیجے میں غیرمرئی عمل دخل کا بھی اندیشہ ہے تاہم عدلیہ کے قابل ستائش کردار کی وجہ سے ڈھارس بندھی ہے۔
بنابریں کسی مہم جوئی کی صورت میں ہم جمہوریت نواز عاملین کو اس قدر توانا بھی نہیں دیکھ رہے کہ جن کے ہوتے ہوئے کسی مہم جوئی کا سوچا ہی نہ جاسکے اور اگر ایسا ہو تو مزاحمت سے مثبت نتائج حاصل کئے جاسکیں… اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت کی پشت پر کھڑی ہونے والی عدلیہ تو موجود ہے لیکن اس عدلیہ کو ”ایسی صورت“ میں کمک پہنچانے والے عوامل، درکار شعور یا اخلاص پوری کرتے نظر نہیں آتے۔ اول سیاستدان جو اس حوالے سے ابن الوقت ماضی رکھتے ہیں پھر میڈیا عدلیہ کی پشت پر تو ہے لیکن جب صورت خدانخواستہ جمہویت بمقابلہ آمریت بنے گی تو صحافت کے بعض گدی نشینوں کے ہوتے ہوئے کوئی یقینی بات نہیں کہی جاسکتی۔ طلبہ و مزدور تنظیمیں تو آمروں اور سیاسی حکومتوں نے مل کر ختم کردی ہیں۔ مذہبی جماعتوں سے تو جمہوریت نوازی کی توقع ہی عبث ہے۔ عوامی سوچ بھی لسانی اور مسلکی و فرقہ وارانہ تفریق کے باعث ایک نہیں۔ اب جب حقیقت حال یہ ہو تو آمریت پرستوں کا مقابلہ شاید ہی کیا جاسکے۔ اس اگر مگر میں ایک خیال بہرصورت موجود ہے کہ موجودہ فوجی قیادت جمہوریت کا پہیہ جام کرنے کے حق میں نہیں۔ خدا کرے ایسا ہی ہو اور یہ ادراک کرلیا گیا ہو کہ ملک کا مستقبل جمہوریت سے ہی وابستہ ہے اور یہ کہ خود کو سیاسی امور سے جدا رکھ کر ملک کو فلاح کی جانب گامزن اور دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا جاسکتا ہے۔ اب اگر یہ سوچ روبہ عمل ہو اور انتخابات ہوتے ہیں تو وہ تمام نقائص جو جمہوری نظام کو درپیش ہیں رفتہ رفتہ دور ہوتے چلے جائیں گے۔تمام تر مواقع کے باوجود اگر کسی کو انتخابات سے بہتری کی کوئی امید نہیں تو صُلحا کی حکومت سے فلاح کی توقع کس بنیاد پر کی جاسکتی ہے! اگر ملک کے مستقبل کی خاطر صُلحا کی حکومت کا ”رسک“ لیاجاسکتا ہے تو ایک اور انتخاب کا رسک کیوں نہیں لیا جاسکتا ۔
تازہ ترین