’’ـــــبیٹا! چوری وہ جو پکڑی جائے‘‘، بزرگ چور نے لمبی سانس بھری اور چھت کو گھورتے ہوئے رُک رُک کے بولنے لگا۔ ـ’’جو پکڑی نہ جائے وہ چوری نہیں ہوتی ۔۔۔۔وہ بزرگوں کی دعائوں کا اثر ہو سکتا ہے ۔۔۔۔خوش قسمتی ہوسکتی ہے ۔۔۔۔وہ چانس ہو سکتا ہے۔۔۔ وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن وہ چوری نہیں ہوتی‘‘۔
شاگرد چوروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کرسر ہلایا تو اکثرکی بھنویں اس قدر اوپر اُٹھ گئیں گویاماتھوں کو فتح کرنے نکلی ہوں۔ کئی ایک تو گہری سوچ میں گُم بس سر دھنتے جا رہے تھے جیسے چوری کے پیشے کی اتنی بڑی سچائی کا انہیں ابھی ابھی ادراک ہوا ہو، اور وہ سوچ رہے ہوں کہ اتنی بنیادی بات انہیں اب تک کیوں سمجھ نہ آئی تھی۔ ـ’’استاد، استاد ہی ہوتا ہیـ‘‘ ، اُنکے سر کی جنبش تھمنے لگی۔
محفل میں کافی جان آگئی تھی۔ہر چور دل ہی دل میں بزرگ چور کو داد دے رہا تھا۔
ـ’’ائوے پیٹر!‘‘ بزرگ چور ایک چست پینٹ بشرٹ میں ملبوس درمیانے قد کے جوان سے مخاطب ہوا۔ ـ’’بتا ،تو آج تک کتنی دفعہ پکڑا گیا ہے؟ایک دفعہ بھی نہیں۔۔۔ایک دفعہ بھی نہیں ! تو ایک پرفیکٹ چور ہے، میری نظر میں۔ ۔۔ میری نظر میں پرفیکٹ چور وہ ہے جس نے ایک دفعہ بھی چوری نہیں کی۔ شاباش!‘‘
ُپیٹر کا سر فخر سے بلند ہو گیا اور اسکے چہرے پر فتح، عجز اور اعتماد کے ملے جُلے تاثرات کا میلہ لگ گیا۔
’’پُترو!چوری کے شعبے کوجو میں سمجھا ہوں اور جو تعریف چوری کی میں کرتا ہوں،چوری کرنے والابڑا چور نہیں ہوتا، بلکہ بڑا چور وہ ہو تاہے جو کبھی چوری نہ کرے، اسی لئے کہتا ہوں کہ بزرگوں کی جتنی دعائیں لے سکو، لیا کروـ‘‘ ۔ بزرگ چور نے اب اپنا سگار سلگا لیا تھا اور سارا کمرہ سگار کی خوشبو سے مہک اُٹھا تھا۔ ـ’’انسان اپنی زندگی میں کتنے غلط کام کرتا ہے۔ بچپن میں چپکے سے امی ابو کا ریزگار اُچکنے سے لیکر جوانی کی ان گنت لغزشوںتک اور ادھیڑ عمری کی ’’پیشہ ورانہ مجبوریوں‘‘ سے لیکر بڑھاپے کی ’بے ضررنادانیوں‘ تک۔۔۔ایک اوسط درجے کا انسان کیا کچھ نہیں کرتا لیکن کوئی اُسے چور نہیں کہتا۔ چور وہ جو پکڑا جائے ۔ اسی لئے کہتا ہوں کہ چوری کے شعبے میں نام کمانا ہے تو چوری سے بچو!‘‘
کچھ لمحے تک محفل بے جان رہی ،پھر یکا یک ستائش کے ڈونگرے برسنے لگے، سارے شاگرد گویا اس بزرگ چور کے گرویدہ ہوئے جا رہے تھے۔ واہ!،کیا کہنے! ، بہت خوب!، ہر کوئی بزرگ چور کی داد و تحسین میں لگ گیا۔
یاد رہے کہ یہ کوئی معمولی چوروں کی محفل نہیں تھی۔ حاضرین میں سب منجھے ہوئے چور تھے۔ کئی ایک تو بڑے نامی گرامی تھے۔ اور کئی ایسے کہ انکا نام لیکر شریف زادے اپنے بچوں کو ڈراتے تھے، ’’بیٹا! سو جا ۔۔۔ ورنہ ۔۔۔ٹوں۔ ۔۔ ٹوں۔۔۔ ٹوں۔۔ ۔ آ جائے گا۔وہ سب عشروں سے چوری کے شعبے سے منسلک تھے لیکن وہ سب بزرگ چور کے ممنون تھے کیونکہ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر وہ اپنی مشکل اس بزرگ چور کے پاس لیکر گئے تھے جو ان چوروں کو اپنے شاگردوں کی طرح عزیز رکھتا تھا اور انہیں دوا اور دعا دونوں سے نوازتا تھا۔
’’استادِ محترم! میری ساری چوریوں کا مال آپ پر قربان! یہ بھی فرما دیں کہ وہ کونسا طریقہ ہے کہ ہم کبھی پکڑے نہ جائیں؟‘‘ ، مخروطی داڑھی اور تازہ تازہ منڈوائے ہوئے سر پر ترچھا ہیٹ سجائے ادھیڑ عمر کا جوزف اپنے سوٹ کو ٹھیک کرتے ہوئے مخاطب ہوا۔
’’عزیزانِ من!یہ ایک اہم سوال ہے۔۔۔وہ کیا راز ہے جس سے کبھی پکڑے نہ جائو، ابھی بتائے دیتا ہوں۔کبھی چھوٹی چوری نہ کرنا ورنہ پکڑے جائو گےـ۔‘‘ بزرگ چور نے حاضرین کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھا، متوقع داد و تحسین کی کثرت کو عین درمیان میں قطع کرتے ہوئے دوبارہ گویا ہوا، ـ’’بڑی چوری کرو گے ۔۔۔ اول تو پکڑنے نہیں جائو گے اور۔۔۔ اور اگر پکڑے بھی گئے تو کوئی تمہیں چور نہیں کہے گا۔ سب تمہاری عزت کریں گے۔ سب لوگ تم سے ڈریں گے۔ اور قانون کے لمبے لمبے ہاتھ تم تک پہنچ ہی نہیں پائیں گے، راستے میں ہی کانپنا اور ہانپنا شروع کر دیںگے۔ ‘‘
بزرگ چور نے وہسکی کی ایک چسکی لی جیسے وہ اسمیں سے توانائی کشید کرنا چاہتا ہو۔ اسکے چہرے پر تھکن کے آثار واضح تھے۔ ’’ اب اتنی طاقت نہیں رہی، بولنا ایسے لگتا ہے جیسے جاگنگ کر رہا ہوں‘‘۔ سب چوروں کے چہروں پرتفکر نمایاںتھا۔ وہ واقعتاََبزرگ چور کے بارے میں بہت حساس تھے۔
’’چوری کبھی ڈر کے نہ کرنا ورنہ مارے جائو گے۔ سینہ زوری کے ساتھ کرو گے تو چوری چوری نہیں رہے گی، وہ بہادری بن جائے گی، وہ ایک نظیر ہو گی، وہ فن کہلائے گی، اس پر ناول لکھے جائیں گے اور فلمیں بنیں گی۔ ‘‘ بزرگ چور نے تھوڑاتوقف کیا جیسے اپنی توانائی بحال کرنا چاہتا ہو۔’’کبھی حصہ دینا نہ بھولنا، چوری کا مال تمہاری تجوری میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک کہ تمام پکڑنے والوں کو انکا حصہ نہ پہنچ جائے۔سینہ زوری اگر حصہ داری کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے تو چوروں کیلئے سب تالے کھلتے جاتے ہیں۔کبھی ایک دوسرے کو نیچا نہیں دکھانا، چور برادری کا بھرم رکھنا تم سب کی ذمہ داری ہے۔ اسی میں عزت ہے اور اسی میں تم سب کی بھلائی۔‘‘ بزرگ چور کی آنکھیں خلا میں معلق تھیں اور شرابی فلم کے نتھو لعل جی جیسی اپنی مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے وہ بولے چلا جا رہا تھا۔’’کبھی رحم نہ کھانا، خصوصاکمزور پر کبھی رحم نہ کرنا، اور طاقتور کے سامنے کبھی کھڑے نہ ہوناورنہ مارے جائو گے،چوری پھر مل جائے گی لیکن بوری میں پہنچ گئے تو سب ختم،خود جان سے جائو گے اور چور برادری کی ناک کٹوائو گے۔یاد رکھنا !چور برادری سب سے مقدم رہے۔۔۔ چور برادری پہلے اور خاندان، قبیلے، ملک اور قوم بعد میں۔چور برادری کے مفاد کی راہ میں کوئی رشتہ ناطہ، اصول قانون، جذبہ احساس ، حیلہ بہانہ نہیں۔چوربرادری ہے تو سب کچھ ہے ورنہ کچھ بھی نہیں۔
بزرگ چور کی آواز مدھم ہوتی گئی، جیسے کوئی موم بتی دھیرے دھیرے بجھ جائے۔ کچھ دیر خاموشی طاری رہی۔ اچانک بزرگ چور گرجدار آواز میں بولا۔
ـ’’قومی خزانہ لوٹو، سرکاری زمینیںہڑپ کرو، قیمتی پلاٹوں اور پلازوں پر قبضہ کرلو، اہم عہدے چُرا لو، سرکاری عمال کو ساتھ ملا لو۔۔۔ ٹھیکے ، پرمٹ، کوٹے۔۔۔اقدار،اختیار، اقتدار۔۔۔۔مصلحتیں، ڈیلیں، سمجھوتے۔۔۔۔ارباب، انتخاب، ارتکاب۔۔۔
سب کچھ چوری کر لو۔۔۔ سب کچھ کر گزرو۔۔۔۔ یہ دنیا تمہاری ہے، یہ ملک وقوم تمہارے ہیں۔ ۔۔۔ شان و شوکت،جاہ و جلال، عظمت و استقبال تمہارے منتظر ہیں۔‘‘
گرج چمک اچانک ماند پڑگئی،محفل پر مکمل سکوت طاری ہو گیا۔ بزرگ چور بہت تھک چکا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے چڑھتا دریایکا یک ٹھہر گیا ہو، جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)