غلام مسعود باوانی
غیرت و ناموس کے نام پر قتل کے واقعات ہمیشہ ہی خبروں کا حصّہ بنتے رہتے ہیں جب کہ سند ھ میں ’’آنریری کلنگ‘‘ عام سی بات ہے۔لوگوں کی اکثریت اسے وقتی اشتعال کا نتیجہ'' یا ''قتل برائے جذبات قرار دے کرنظرانداز کر دیتی ہے،لیکن یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ان سنگین جرائم کے پیچھے ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی ہوتی ہے جس میں نہ صرف مقتولہ کا شہوہر، باپ، بھائی سمیت دیگر رشتہ دار بلکہ سسرالی خواتین بھی ملوث ہوتی ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ملکی قوانین اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔خواتین کے قتل کو''فیمیسائڈ'' کا نام دیا جا سکتا ہے۔ بیشتر واقعات میں قتل کی جانے والی خاتون قبائلی معاشرے اور فرسودہ تہذیب کے قائم کردہ اصولوں اور پابندیوں پر پور ا نہیں اترتی۔ عورت کوعام طور سے کم زور تصور کیا جاتا ہے مگر جب یہی عورت انتقام پر اترتی ہےیا اپنی مرضی کے خلاف ہونے والے فیصلوں پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتی ہے تو خود پر ظلم کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیتی ہے۔
کاروکاری یا آنریری کلنگ کے برعکس ہمارے ملک میں کئی ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جن میں خاتون نے اپنےکسی عزیز کے ساتھ مل کر اپنے مجازی خدا یعنی شوہر کوقتل کروایا۔اسی نوعیت کا دل دلہلادینے والا واقعہ گزشتہ دنوں ڈسٹرکٹ سانگھڑ کے بڑے شہر ٹنڈوآدم میں پیش آیا۔ طور کالونی کا رہائشی 22 سالہ نوجوان اصغر ولد سرور آرائیں کوعلی الصباح نا معلوم افراد نے تیز دھار آلے سے انتہائی سفاکی سے گلا کاٹ کر قتل کردیا ۔مقتول اصغر کی ایک ماہ قبل ہی شادی ہوئی تھی اور حیدرآباد روڈ پراس کی ٹائر پنکچر کی دکان تھی جہاں وہ رات کے اوقات میں کام کیا کرتا تھا، اس کا تیرہ سالہ بھانجا بھی اس کے ساتھ ہی ہوتا تھا۔۔وقوعے روز وہ کام ختم کرکے دکان پر ہی سو گیاتھا کہ سفاک قاتل نے اسے تیز دھار آلے سے ذبح کردیا۔ اس کی چیخ و پکار سے اس کے بھانجے شاہد کی آنکھ کھل گئی، اس نے دیکھا کہ اس کے ماموں کی حالت بہت خخراب ہے، اس کے گلے کو تیز دھار آلے سے کٹا گیا تھا جس سے خون کا فوارہ بہہ رہا تھا۔وہ اسے انتہائی مشکل سے موٹر سائیکل پر بٹھا کر محمدی چوک پر واقع ایک نجی اسپتال لایا جہاں اسپتال انتظامیہ نےپولیس کیس کی وجہ سےاصغر کو طبی امداد دینے سے انکار کردیا ۔
مقتول کے بھانجے نے اسپتال انتظامیہ کی منت سماجت کی مگر اسپتال عملے نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ شاہد اسے لے کر دوسرے اسپتال پہنچا لیکن اصغر نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئےراستے میں ہی دم توڑدیا۔اس دوران اس کے ماں باپ یگر عزیز و اقارب اور علاقہ مکینوں کو شاہد کی موت کی خبر ملی تووہاں کہرام مچ گیا،وہ مذکورہ اسپتال پہنچے ۔مقتول کےلواحقین اور علاقہ مکینوں نے سرور آرائیںکی قیادت میں نعش کو سٹی تھانے کے سامنے رکھ کر احتجاجی دھرنا دیا اور ملزمان کی فوری گرفتار ی کا مطالبہ کیا۔واقعے کی اطلاع ملتے ہی اے ایس پی حسن جاوید بھٹی فوری طور سے تھانے پہنچے اورمشتعل افراد سے قتل سے متعلق معلومات حاصل کی اور اس سلسلے میں فوری طور سے کاررو ائی کرنے کی یقین دہانی کرائی،جس کے بعد مظاہرین وہاں سے منتشر ہوگئے۔
پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کرواقعہ کی تفتیش شروع کردی ۔نمائندہ جنگ کے رابطہ کرنے پر اے ایس پی حسن جاوید بھٹی نے بتایا کہ پولیس کی ٹیم ایس ایچ او سٹی ذوالفقار چاچڑ کی سربراہی میںتحقیقات کر رہی ہے۔ مقتول کے والدین سمیت دیگر عزیز و اقارب سے معلومات اکٹھاکی جارہی ہیں جب کہ لاش پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال روانہ کردی گئی ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں مقتول اصغرکے قتل میں اس کی بیوہ نورین اور اس کےآشنا عظیم آرائیںکے ملوث ہونے کا سراغ ملا جس کے بعدٹنڈوآدم سٹی تھانے کے ایس ایچ او ذوالفقار علی چاچڑ نے ٹنڈوآدم بائی پاس کے نزدیک کارروائی کر کے مقتول کے قتل میں استعمال ہونے والے خنجر سمیت قاتل کو گرفتار کرلیا جبکہ طور کالونی میں مقتول کے گھر پر چھاپہ مار کر اس کی بیوی نورین کو بھی حراست میں لیا گیا۔ملزمان کی رفتاری کے بعد ایس ایچ او سٹی ذوالفقار علی چاچڑ نے اخبار نویسوںکو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ملزم عظیم آرائیں اور مقتول کی بیوی نورین دونوں کراچی کے رہائشی ہیں اور نورین عظیم سے محبت کرتی تھی لیکن اس کی ایک ماہ قبل اس کی مرضی کے خلاف ا صغر علی آرائیں سے شادی ہوئی تھی جس سے وہ نا خوش تھی ۔اس نے عظیم آرائیں کو اپنے شوہر کوراستے سے ہٹانے کے لیے راضی کیا۔جس پر ملزم نے کراچی سے ٹنڈوآدم آکر اصغر آرائیں کو قتل کردیا۔ انہوں نے بتایا کہ موبائل کے سی ڈی آر سسٹم کی وجہ سے قاتلوں تک پہنچنے میں مدد ملی اورپولیس نے دونوں ملزمان کو گرفتار کر لیا ۔قاتلوں نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہے۔ اکبر ولد غلام سرور آرائیں کی مدعیت میں ان کے خلاف مقدمہ نمبر 171/2018زیر دفعہ 302-120B سٹی تھانے میںدرج کرلیا ہے ۔