• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صنوبر کے جنگلات کا ماتم

درخت اور جنگلات قدرت کا عطاکردہ وہ نایاب تحفے ہیں ،جن کو دیکھ کر طبیعت خوش گوار ، دل کو سکون اور راحت ملتی ہے ۔یہ دل کشی اور خوبصورتی کے ایسے منا ظر ہیں ،جن کاکوئی نعم البدل نہیں ۔پوری دنیا میںجنگلات کی شرح تقریباً 40 فی صد ہے ،جب کہ پاکستان میں 5 ہزار 7 سو اقسام کے پودے ،در خت اور جنگلات پائے جاتے ہیں ۔صر ف چترال ،کشمیر اور شمالی بلوچستان میں 203 اقسام کے پودے اور درخت ہیں ۔ماہرین ماحولیات کے مطابق ویسے تو پاکستان کے چاروں صوبوں میں جنگلات ہیں ،مگر صنوبر (جو نیپر ) کے جنگلات دنیا بھر میں سبزہ اور خوب صورتی کے اعتبار سےمشہور ہیں ۔صنوبر کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ دنیا کا سب سے زیادہ سست رفتاری سے بڑھنے والا درخت ہے ،جو 100 سال میں صرف ایک سے تین انچ تک بڑھتا ہے ۔اس کو کرۂ ارض کی حیاتیاتی تاریخ کے ارتقائی سفر کا ایک قدیم اور زندہ مسافرسمجھا جاتا ہے ۔اسی بناء پر اسے ’’زندہ رکاز(living fossils) بھی کہتے ہیں ۔ نبا تا ت کی تاریخ میں صنوبرکے درخت قدیم ترین ما حو لیا تی نظا م کا حصہ تصور کیے جاتے ہیں ۔پاکستان کے علاوہ یہ شمالی امریکا ،شمالی افر یقااور وسط ایشیاءمیں بھی پائے جاتے ہیں ۔دنیا میں اس کا سب سے بڑا جنگل تا جکستان میںہے ،جب کہ دوسرا بڑا جنگل پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ہے ،اگر چہ ان کی اقسام میں بڑا تنوع پایا جاتا ہے ،تا ہم پاکستان میں اس کی چھ اقسام ہیں ۔بلوچستان کے صنوبر ی جنگلات کی سب سے بہتر ین قسم’’ junipirus exelsa poly carpus ‘‘ہے ۔

یوں تو یہ بلوچستان کے اضلاع سبی ،کو ئٹہ ،لورالائی ،پشین اور قلات میں بھی پایا جاتا ہے لیکن اس کا سب سے وسیع اور گھنا سلسلہ ضلع زیارت میں ہے ۔یہ جنگلات شمال میں سطح سمندر سے 2449 میٹر کی بلندی پر واقع ہیں ۔صنوبر کے جنگلات کا شمار سب سے قدیم اور طویل عمر پانے والے درختوں میں ہوتا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق ان کی عمر 3 ہزار سال تک محیط ہوسکتی ہے ،علاوہ ازیں سطح سمندر سے 2 سے 3 ہزار میٹر بلندی پر شدید سرد موسم میں بھی افزیش ہوسکتی ہے ۔

زیارت میں یہ جنگلات تقریباً 51 ہزار 3 سوہیکڑ پر پھیلے ہوئے ہیں ۔وہاں موجود صنوبر کا بے مثال جنگل ہزاروں سال پرانا ہے ۔ ماہرین نباتات کے مطابق کچھ درخت تو پندرہ ہزار سال سے بھی زیادہ قدیم ہیں ۔موسم گر ما میں جب برف پگھلتی ہے تو صنوبر کے درختوں کا سایہ پانی کے بخارات میں تبدیل ہونے کی رفتار کو بڑھنے نہیں دیتا ۔اس طرح زیر زمین پانی کی بازیافت (ری چارج ) کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی ،زراعت اور دیگر استعمال کے لیے پانی ہر وقت دستیاب ہوتاہے ،اس طرح اس کی بڑی مقدار ضائع ہونےسے بچ جاتی ہے ۔اس کے جنگلات زمین کو ہوا کے کٹائو سے محفوظ رکھتے ہیں ،موسم گر ما اور سرما کی شدت کو کم کرتے ہیں ،نیز ہوا میں نمی کو بھی بر قرار رکھتے ہیں ۔صنوبر کے درخت سیلابی پانی کے بہائو کو کم کرتے ہیں ،جس سے قدرتی نظام کے تحت زیرزمین پانی کی ترسیل کو باضابطہ بنانے میں بھی مدد ملتی ہے ۔زیارت کے قدیم صنوبری جنگلات پاکستان میں منفرد نظام جنگلات کے حامل ہیں ۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے تحت ایک منصوبہ بنایا گیا تھا ،جس میں ان کی حفاظت اور ماحولیاتی سیاحت کے فروغ کو متعارف کروایا گیا تھا ۔ماحولیاتی ماہرین کو اُمید تھی کہ اس کے ذریعے نہ صرف زیارت عالمی اہمیت حاصل کرلے گا بلکہ صنوبرکے جنگلات کو دیکھنے کے لیے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد بھی یہاں کا رُخ کرے گی ۔ لیکن زیارت میں گیس کی عدم فراہمی پرماحول دشمن عناصر کے ہاتھوں اس قومی ورثہ کی بے دریغ کٹائی کی وجہ سے یہ منصوبہ کام یاب نہ ہوسکا ۔ماہرین کا کہناہےکہ جنگلات کے تحفظ کے قانون پر سختی سے عمل کرکے نئی نسل اور درختوں کے بیچ خوبصورت رشتہ برقرار رکھا جاسکتا ہے۔

زیارت میں موجود صنوبر کے جنگلات برف پوش پہاڑ سے بھرے ہوئے ہیں ۔یہ ایک انوکھی اہمیت کا حامل ہے لیکن مقامی لوگ اس بات سے بے خبر ہوکر ان جنگلات کو کاٹ رہے ہیں، انہیں علم ہی نہیں کہ و ہ دنیا کی سب سے قیمتی حیاتیاتی ورثے کو تباہ وبر باد کررہے ہیں ،حالاں کہ یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے ،اس کے باوجود ماحولیاتی ادارے اس کو روکنےکے لیے کوئی موثر اقدامات نہیں کر رہے ہیں ۔کسی زمانے میں زیارت ضلعے کا پہاڑ جنگلوں سے گھرا ہوتا تھا لیکن اب بنجر مٹی کا ڈھیر بن گیا ہے۔محکمۂ جنگلات سال میں تین بار درخت لگانے کی مہم چلاتا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس بر سوں سے صنوبر کے درخت لگانے کی مہم چل رہی ہے ،مگر وہاں ایک بھی نیا درخت نظر نہیں آتا ۔در حقیقت جنگلات کو بچانے کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں ہے ۔صنوبر کے ختم ہونے کی شرح بہت زیادہ ہے اور اس کے بڑھنے کی رفتار بہت سست ہے ، اسی لیے صنوبر کے جنگلات کے تحفظ کا کام مزید مشکل ہوگیا ہے ۔ علاوہ ازیں ان کے بیج کی نمو بھی بہت کم ہے ،یہ صرف 5 سے 10 فی صد ہی بچ پاتے ہیں ۔ 

ماہرین ماحولیات کے مطابق انہیں درکار زمین اور درجۂ حرارت فراہم کرنا بہت مشکل کام ہے ۔علاوہ ازیں بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت ،قحط سالی ،بارش اور ژالہ باری نے بھی جنگلات کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے ۔اس طرح آہستہ آہستہ جنگل کے بچنے کی اُمید ختم ہوتی جارہی ہے ،حالاں کہ درخت انسان کے سب سے بڑا دوست ہیں لیکن یہ شعور ابھی تک پاکستان میں نہیں ہے، اسی لیے یہاں کے لوگ انہیں بے دردی سے کاٹ ہی نہیں رہے بلکہ انہیں جلا بھی رہے ہیں ۔ اس وجہ سے انسانوں کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کو بھی بے حد نقصان ہورہا ہے ۔

ماہرین ماحولیات کے مطابق ایک درخت سالا نہ 6 ٹن کاربن ڈائی آکسائید جذب کرتا ہے، جب کہ 7 ٹن آکسیجن چھوڑتا ہے ۔ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق

پاکستان نے یہ عہد کیا تھا کہ 2015 ء تک جنگلات کا علاقہ اڑھائی فی صد سے بڑھ کر 6 فی صد ہو جائے گا ،مگراب تک اس حوالے سے کوئی خاص منصوبہ بندی سامنے نہیں آئے ہے ۔جب کہ یہ جنگلات سلیمانی مار خور ،اڑیال ،کالے ریچھ ،بھیڑیے،لومڑی ،گیدڑ ،چکور، ہجرت کرکے آنے والے پرندے ،13 سے زائد جنگلی حیات اور 36 اقسام کے نایاب پرندوں کا مسکن ہیں ۔اس کے علاوہ اس جنگل میں 54 سے زائد اقسام کے انمول پودے اور جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں ،جنہیں ادویہ کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے، اس کےساتھ ساتھ یہ جنگلات مقامی آبادیوں کے لیے تالابوں ،چشموں اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو محفوظ کرنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔ صنوبر کی لکڑیوں کا استعمال مکان بنانے میں بھی ہوتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ہماری زمین کے 30 فی صد حصے پر جنگلات ہیں ۔اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا میں 1.8 کروڑ رقبے پر موجود جنگلات کو کاٹ دیا جاتا ہے ۔دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں’’رین فاریسٹ ‘‘کہا جاتا ہے ،آئندہ 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے ۔جنگلات کی کٹائی گلوبل وارمنگ پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ،جس کے سبب زہریلی گیسیںفضا میں رہ جاتی ہیں ۔پاکستان میں جنگلات کے رقبے میں سالانہ کمی کی ایک اہم وجہ ترقیاتی منصوبوں کے تحت تعمیرات اور ملکی آبادی کے ایک بڑے حصے کا ایندھن کے لیے لکڑی پر انحصار کرنا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق ملک میں قدرتی جنگلات کے رقبے میں ہرسال ستائیس ہزار ہیکڑ کی کمی ہورہی ہے ،جو کہ ایک تشویش ناک امرہے ۔

اگر درختوں کی کٹائی روکنی ہے تو اس کے لیے آبادی کو ایندھن کے متبادل ذرایع لازمی فراہم کرنے ہوں گے ۔ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق سالانہ تیس لاکھ کیوبک میٹر لکڑی کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ پیداوار ایک کروڑ چالیس لاکھ کیوبک میٹر ہے ۔یعنی سالانہ دوکروڑ نوے لاکھ کی کمی کا سامنا ہے،اس کو پورا کرنے کے لیے لا تعداد درخت کاٹے جا رہے ہیں ۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق افسوس ناک صورت ِحال یہ ہے کہ منفی انسانی سر گر میاں اور غیر دانش مند انہ استعمال کے باعث ان جنگلات کو پہنچنے والے نقصانات شدید تر رہے ہیں ،جس کےباعث اس جنگلات کا حیاتیاتی نظام خطرات سے دوچار ہے ۔یہ درخت ہر جگہ جڑ بھی نہیں پکڑتا ،اس کی افزایش کے لیے خاص آب وہوااور ماحول کی ضرورت ہوتی ہے ۔

درختوں کی تباہی اور بر بادی کی تیزی سے بڑھتی اس رفتار کو جلد ازجلد روکنے کی اشد ضرورت ہے ۔ در ختوں اور جنگلات کے تحفظات کے لیے سخت قوانین مرتب کیے جائیں ۔ان کی کٹائی کانقصان ملک کی زراعت پر بھی ہوتا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال پوری دنیا میں 34 ملین ایکڑ جنگلات کاٹے جاتے ہیں۔پاکستان درختوں کی کٹائی کی شرح میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو سال 2020 ء تک پاکستان میں یہ ناپید ہو جائیں گے ۔ جنگلات موسمی تبدیلیوں کے مضر اثرات خاص طور پر سیلاب سے بچاؤ کا اہم ذریعہ ہیں ۔ پاکستان میں نا صرف جنگلات کے کٹاؤ کو روکنے بلکہ عوام کے تعاون سے وسیع پیمانے پر شجرکاری کی بھی اشد ضرورت ہے۔

تازہ ترین