• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ
(قسط نمبر24)
ہم نے حبرون ( الخلیل) بیت اللحم ( جائے ولادت حضرت عیسی علیہ السلام) مقام موسی علیہ السلام ، بحر مرداراو تاریخی شہرر اریحا کی سیرکی تھی ۔ واپسی پر جبل مکبر کاوزٹ بھی کیاتھا۔خاص طور پر جبل مکبر پر کئی کچھ یاد آگیا جس سے دل بڑا بوجھل ہوا ۔ خیال تھا کہ آج شہر یروشلم کی باقی زیارتیں کرلی جائیں گی۔ لیکن سخت تھکاوٹ کی وجہ سے طبیعت میں گرانی محسوس ہورہی تھی اتنے میں ٹیکسی آگئی مگر دل جانے پر آمادہ نہ ہوسکا اس لیے ساتھیوں سے کہہ دیا کہ آپ جائیں ۔میں ذرا آرام کرنا چاہتاہوں ۔ بارہ بجے تک تازہ دم ہوچکاتھا۔ خیال ہوا کہ اس فلسطینی محلہ جس کانام ’’المسعودی‘‘ ہے ،اسی کو دیکھ لیا جائے ۔میں ہوٹل سے باہر نکلا اور اس کی گلیوں میں پھرنا شروع کردیا۔ یہ خالص فلسطینی محلہ ہے ۔کوئی یہودی نظر نہیں آیا چونکہ یہ بیت المقدس سے بالکل متصل ہے ۔اس لیے اس میں کافی ہوٹل بھی ہیں ۔فلسطینی محلہ ہونے کی وجہ سے یہاں عام سی زندگی نظرآتی ہے ، یوں کہہ لیجئے بالکل سادہ اور عامیانہ ، اور اس قسم کا ماحول آج سے تیس پینتیس سال پہلے مدینہ منورہ کے نواحی محلوں کاتھا ۔اسی طرح کے مکانات دوکانیں ،ایسی ہی رونق اور فضا میں اسی طرح کی بو باس تھی ۔ یوںلگا کہ تیس پینتیس سال پہلے کا مدینہ طیبہ کا دور لوٹ آیا ہے ۔’’المسعودی‘‘ میں کی کئی دوکانوں پہ گیا۔اپنے فلسطینی بھائیوں سے ملا ۔انہیں اپنا تعارف کرایا حالات حاضرہ پر باتیں ہوئیں ۔ دودن پہلے مسجد اقصی میں جو حادثہ ہوا تھا۔اس کے متعلق سُن گن لینے کی کوشش کی ۔فائرنگ سے شہید ہونے والے نوجوانوں کے بارے میں ان کی معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں ۔ہر شخص نے مہمان نوازی کرنے کی کوشش کی کئی لوگوں نے دوپہر یارات کاکھانااکٹھے کھانے کی دعوت دی لیکن ہم نے اپنی مجبوری کے تحت شکریہ ادا کیا۔اسی دوران ہمارے رہنمائے سفر ڈاکٹر یاسین صاحب کافون آگیاکہ اگر طبیعت فریش ہوچکی ہو تو ہوٹل کی لابی میں آجائیں میں دیگر رفقاء سفر کو چھوڑ کرآپ کو لینے کیلئے آیا ہوں یہ ان کی محبت کا مظاہرہ تھا اللہ انہیں جزائے خیر دے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام ساتھی محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے بغیرسفربے مزہ ہے ۔ اور آج کا پروگرام بتایاکہ ظہر کی نمازمسجد عمرفاروقؓ میں اداکرنے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ اب تک ہمیں مسجدعمر کو صرف باہر ہی سے دیکھنے کا موقع ملا تھا نماز کے وقت تو مسجد لازماًکھلی ہوتی ہے ۔اور مسجد عمر کے بعد کوشش کریں گے کہ مسجداقصی جایا جائےیہ سن کرمیرے شوق زیارت نے انگڑائی لی اور میںہوٹل پہنچ گیا جہاں ڈاکٹر صاحب میرے منتظر تھے چنانچہ ہم اکٹھے باب دمشق کی جانب روانہ ہوئے ۔ جب پولیس اسٹیشن کے قریب پہنچے تو وہاں اسرائیلی سپاہی کھڑے تھے اور لوگوں کو مسجد اقصی کی جانب جانے سے روک رہے تھے۔ میں نے سوچااس طرح تو ہم بھی رہ جائیں گے میں نے ڈاکٹر صاحب کو دوسری جانب بھیجا کہ وہ بزرگ آدمی ہیں انہیں آسانی سے جانے دیا جائے گا ۔میں اس جانب سے کوشش کرتاہوں۔ میں آگے بڑھا اور اسرائیلی گارڈ کواپنا ارادہ بتایاکہ مجھے مسجد عمرکی زیارت کرنی ہے ۔اسے اپناپاسپورٹ دکھایا۔ وہ تھوڑی دیر سوچتارہا اور کچھ سوچنے کے بعد اس نے مجھے اجازت دے دی۔ ڈاکٹر صاحب کو بھی داخل ہونے دیا گیا یوں ہم اپنے رفقاء کی جانب چلے آئے جوغار سلیمانی کے باہرہمارا انتظار کررہے تھے ۔
مسجد عمر کاوزٹ اور سلطان صلاح الدین کی تصویر
سب رفقاء سمیت یروشلم کی تاریخی مگر تنگ گلیوں میں نکل کھڑے ہوئے ۔ گلیاں بے شک اونچی نیچی ہیں ، ٹیڑھی میڑھی ہیں لیکن صاف ستھری ہیں۔ سب گلیوں میں سفید چکنا پتھر لگا ہوا ہے جس پر بڑے احتیاط سے چلنا پڑتا ہے ورنہ پاؤں پھسلنے میں دیر نہیں لگتی ۔ یوں بھی یروشلم کی یہ گلیاں اترائی کی جانب جارہی ہیں جہاں بیس تیس گز نیچے مسجد اقصیٰ کے دروازے ہیں مسجد اقصی کو عبور کرو تو نیچے والا علاقہ پہاڑ کی بالکل اترائی میں ہے اس جانب کے دوکاندار عموماً فلسطینی ہیں، جو دوکانوں کے اندر بیٹھے گاہکوں کا انتظار کررہے ہیں باہر فٹ پاتھوں پر غریب فلسطینی عورتیں تھوڑی تھوڑی سی سبزیاں ،فروٹ یا عام استعمال کی چیزیں زمین پر بچھائے بیٹھی بیچ رہی ہیں ۔ اور ساتھ ساتھ بازار میں چلتے پھرتے یہودی فورسز کی طرف بھی نگاہ رکھے ہوئے ہیں پتہ نہیں کس وقت کوئی آفت ٹوٹ پڑے ، کوئی ہنگامہ ہوجائے ، کہیں فائرنگ شروع ہوجائے ۔ان فلسطینیوں کے چہروں پر بیچارگی آنکھوں میں فریاد مگر معمولات میں تسلسل وصلابت سے لگتا ہے کہ ان کیلئے کچھ بھی غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ اس طرح کے ہنگامے آئے دن کا معمول ہیں۔یہ تو حالت تھی فلسطینیوں کی جو اس زمین کے باسی ہیں ۔ جنہیں اپنے ہی وطن میں اجنبی بنادیاگیا ہے ۔ لیکن قابض یہودیوں کی حالت فلسطینیوں کی نسبت زیادہ قابل دید ہے وہ بھی ڈرے ڈرے سہمے سہمے رہتے ہیں ، ہرآن ان کی آنکھیں چہار جانب گھومتی رہتی ہیں ۔ وہ ہمیشہ گروہ درگروہ ہوکرچلتے ہیں اور ہروقت خوفزدہ ہوکر ادھر ادھر دیکھتے رہتے ہیں مبادا کوئی مظلوم فلسطینی ان پر حملہ نہ کردے یعنی قابض و مقبوض ظالم و مظلوم اور غاصب و مغصوب دونوں ہی خطرات سے دو چار رہتے ہیں ۔ اس پہلو سوچیں تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکرہے کہ اس نے ہمارا قبلہ و کعبہ پرامن بنادیا ہے {من دخلہ کان امنا} جو بیت اللہ میں داخل ہوگیا وہ امن میںداخل ہوگیا) جبکہ’’ بیت المقدس ‘‘کی ہزاروں سال کی ساری تاریخ قابضین اور مقبوضین کے مابین چپقلش سے عبارت ہے۔ کبھی بھی ایک خاص وقت سے زیادہ پرامن علاقہ نہیں رہا۔الحمد للہ الذی احلنا دار المقامۃ ۔۔لایمسنا فیھا نصب ولایمسنا فیھا لغوب۔ باب دمشق سے کچھ دور کافی کھلا علاقہ آگیا جہاں حضرت داؤد علیہ السلام سے متعلقہ کئی یادگاریں تھیں داہنی جانب داؤد محل بھی تھا جس کا تعارف ہم جلد کروائیں گے۔ اس وجہ سے یہاں یہودیوں کا مجمع لگا ہواتھا ۔ چونکہ ان کی دیوار گریہ (عبادتگاہ) بھی اسی علاقے میں ہے اس لیے چاروں طرف یہودی ہی یہودی نظر آرہے تھے ۔جو اپنی مخصوص ٹوپیوں اور خوفزدہ اداؤں پہچانے جاتے ہیںسے ۔ یوں چلتے چلتے ہم مسجدعمرفاروق پہنچ گئے۔ظہر کی جماعت ہوچکی تھی ہم نے وضو بنایا اور نمازظہروعصرجمع کرکے اداکیں ۔ اتنی دیر میں باقیماندہ نمازی بھی جاچکے تھے ۔لیکن ہم اپنے قافلے سمیت کچھ دیر اسی تاریخی مسجد میں ٹھہرنا چاہتے تھے ۔تاکہ اسے اندر سے اچھی طرح دیکھا جاسکے۔خواتین پچھلے حصے میں چلی گئیں اور ہم محراب والے حصے میں۔مسجد اگرچہ بہت قدیمی ہے لیکن صفائی ستھرائی میں قابل رشک تھی۔ہم نے محراب کو اچھی طرح دیکھا بھالا۔اسی مسجدکے ٹائم ٹیبل اور صحن مسجد میں لٹکے ہوئے معاہدہ ’’عمریہ ‘‘کی تصاویر بطور یاد گاراتارلیں۔میں نے اس معاہدہ کی عبارت پڑھ کرسنائی ۔ اس کا ترجمہ بھی بتایا۔چلتے چلتے ہم مسجد کے بغلی حجرے میں چلے گئے جہاں ایک معمرفلسطینی بزرگ مطالعہ میں مشغول تھے ۔سلام و دعا کے بعد تعارف ہوا۔انہوں نے بڑی دلچسپی کے ساتھ یہاں کے حالات سے آگاہ کیا۔اچانک میری نظر کتابوں والی الماری میں کافی قدیمی فریم میں ایک پرجلال و پرشکوہ تصویر پر پڑی ۔ جس نے شاہی تاج اور شاہی لباس پہن رکھاتھا۔میرے ذہن میں خیال لپکا کہ ہو نہ ہو یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی تصویر ہو۔ جب میں نے قریب سے دیکھا تو باریک سے قلم کے ساتھ لکھا تھا’’ یہ تصویر مجاہداسلام سلطان صلاح الدین ایوبی کی ہے‘‘ میں بہت حیران ہوااور خوش بھی ۔ میں نے وہاں موجود بزرگ سے اس تصویر کو اچھی طرح دیکھنے کی استدعا کی جسے انہوں نے بڑی خوشدلی سے منظور کر لیا اور چابیوں کا گچھا اٹھایااوراس پرانی الماری کو کھولا اور تصویروالا فریم میرے ہاتھ میں تھما دیااورکہا کہ یہ صدیوں پرانی تصویر ہے حتمی طور پر اس کی تاریخ مجھے معلوم نہیں جو تاریخ لکھی ہوئی ہے وہ امتداد زمانہ سے مٹی ہوئی ہے ۔میں نے ان سے اس کافوٹو اتارنے کی اجازت مانگی انہوں نے اجازت تو دیدی لیکن کہاکہ آپ پہلے آدمی ہوجو اسے حجرے سے باہر لیجا رہے ہو ورنہ آج تک اسے باہر نہیں لیجایاگیا۔ بہرحال میں اس تاریخی تصویر کوپاکربہت خوش ہوا اور شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ تصویر منظرعام پرآنے کا ذریعہ بنا ۔اس سے پہلے آپ نے کبھی یہ تصویر نہیں دیکھی ہوگی بلکہ کسی جگہ میں بھی یہ فوٹو دستیاب نہیں ہے۔میں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس تصویر کوعام کرنے کااعلان کردیا تب بے شمار لوگوں نے انباکس میں اسے طلب کیااور میں نے اسے اگلے دن عام کردیا ۔بہرحال اس تاریخی مسجدکاتھوڑاسا تعارف بھی کروادوں ۔اس مسجد میں معاہدہ عمر کی دستاویزبھی موجود ہے۔
دورفاروقی میں فتح بیت المقدس کی ایمان افروز داستان
سیدنافاروق اعظمؓ کے دور میںکفر وشرک میں ڈوباہوا کرہ ارض اسلام کے نور سے منورہورہاتھا ۔شدہ شدہ نور ربانی کی کرنیں یروشلم پربھی پڑنی شروع ہوگئیں جو اس وقت ملک شام کا ایک حصہ تھا۔اسلامی افواج شام و عراق کو فتح کرتی ہوئی یروشلم پہنچ گئیں، یہاں رومیوں کی حکومت تھی ۔چنانچہ دربار خلافت سے ان مشرکین کی سرکوبی کیلئے ایک خصوصی لشکرامین الامت حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ کی کمان میں شام اورالقدس بھیجا گیا۔ ان کی اعانت کیلئے دوسرا لشکرحضرت عمرو بن عاص ؓ ، تیسرا لشکرحضرت امیر معاویہ کے بھائی حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنھما اور چوتھا لشکرحضرت شرحبیل بن حسنہ کی قیادت میں پہنچا اوران چاروں لشکروں نے پورے شہر کامحاصرہ کرلیا ۔ جوچھ ماہ تک جاری رکھا۔ جس سے تنگ آکر رومی گورنر نے لاٹ پادری صفریانوس کے مشورہ سے کہامیں امیرالمومنین کوچارج دینے کیلئے تیار ہوں اگر وہ خود تشریف لائیں ،تب حضرت عمرخود یروشلم تشریف لے گئے۔یہ بھی کہا جاتاہے کہ لاٹ پادری صفریانوس نے پہلی آسمانی کتابوں میں فاتح بیت المقدس کی صفات پڑھی تھیں اوراسے امیرالمومنین کی ذہانت و فطانت شجاعت وریاضت کی خبریں برابر مل رہی تھی ۔اس نے اپنی کتاب کی پیشگوئیوں کے سچ کو آزمانے کی خاطریہ شرط عائد کی تھی کہ اگرامیرالمومنین عمرفاروقؓ بنفس نفیس تشریف لائیں تو القدس ان کے حوالے کرنے کوتیارہیں۔ امیرالمومنین نے خلافت سنبھالنے سے لے کراب تک بیرونی دنیا کا کوئی سفر نہیں کیاتھالیکن بیت المقدس کی خاطر انہوں نے اس کا ارادہ بھی کرلیا حضرت علی المرتضیٰ کو نائب خلیفہ بنایااورخودمختصر ساقافلہ لیے آپ اس سفر پرروانہ ہوگئے ۔ طارق بن شہاب ، اور اعمش وغیرہ کی روایت جسے مستدرک حاکم میں نقل کیاگیا ہے علی شرط الشیخین (بخاری ومسلم) حضرت عمر نے اپنے غلام اور ایک اونٹنی پر سوا چلے ۔ کچھ راستہ غلام اونٹنی پر بیٹھتا اورکچھ دور تک امیرالمومنین جب بیت المقدس قریب آگیا تو اب غلام کی باری تھی ۔اس نے عرض کیاکہ آپ سوار ہوجائیں لیکن حضرت عمرؓ نے اسے سوار کرادیا۔آٹھ سو میل کاسفر طے کرنے کی وجہ سے ان کے کپڑے میلے ہوگئے تھے کرتے پر متعدد پیوند لگے ہوئے تھے۔ آپ کے استقبال کو آنے والے اجل صحابہ اورعالم اسلام کے نامور سپہ سالاروں نے عرض کیاکہ بادشاہوں والی پوشاک زیب تن کرلیجئے تاکہ ہمارا رعب ان عجمیوں پر چھاسکے ۔لیکن حضرت عمرؓ فاروق نے یہ کہہ کران کی درخواست مسترد کردی کہ اللہ نے ہمیں عزت اسلام کی وجہ سے عطا کی ہے شاہانہ ملبوسات کی وجہ سے نہیں ۔جب بھی ہم اسلام کے سوا کسی اور عمل میں عزت ڈھونڈیں گے تو اللہ ذلیل ہی کردے گا۔ خاص طور پر حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے اصرار کیا جس پر حضرت عمر غضبناک ہو گئے فرمایا ابوعبیدہ کاش یہ بات تم نے نہ کہی ہوتی اگر کسی اورنے کہی ہوتی تو میں اسے عبرت بنا دیتا { لوغیرک قالھا یا ابا عبیدہ نحن قوم اعز ھا اللہ بالاسلام فاذاابتغینا عزا بغیر الاسلام اذلنا اللہ} ۔اور سچی بات ہے کہ حضرت عمرفاروقؓ نے بالکل ٹھیک فرمایاتھا ۔اس پیوند لگے کرتے اوربوسیدہ لباس کے باوجود فاروق اعظمؓ کے رعب ودبدبے کا عالم یہ تھاکہ ان کے سامنے منہ کھولتے وقت عالم کفر کی ماں مرجاتی تھی میرے نبی اقدس نے سچ فرمایاتھا عمر جس گلی سے گزر جاتاہے شیطان اس گلی سے گزرنے کی ہمت نہیں رکھتا آج بھی اس ہستی کانام سن کر کفر و نفاق پانی بھرنے لگ جاتاہےجبکہ حقیقت شناس ایرانی سفیر امیرالمومنین کو مدینہ سے باہر جنگل میں ریت پر مطمئن سوتے ہوئے دیکھ کر بولا تم نے عدل کیااور امن لایااس لیے ٹھنڈی ریت پر مطمئن نیند آگئی ہمارے بادشاہوں نے ظلم کیا تو انہیں مخمل کے بستروں پر بھی نیند نہ آئی ۔عدلت فامنت ونمت
تازہ ترین