• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہفتہ رفتہ کے دوران جیو کی انتظامیہ کے ساتھ میٹنگ کے لئے کراچی جانا ہوا۔ ہوٹل جانے کے لئے ایئرپورٹ سے کار میں بیٹھا تو ڈرائیور نے حالات حاظرہ پرگفتگو شروع کی۔ بتارہے تھے کہ وہ چودہ سال سے کراچی میں رہ رہے ہیں۔ میں نے استفسار کیا کہ وہ کراچی کے کس علاقے میں رہتے ہیں تو مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ وزیرستان میں۔ وزیرستان میں؟‘ کہاں کراچی اور کہاں وزیرستان ؟ میں نے سراپا تعجب بن کر سوال کیا تو انہوں نے اسی طرح مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ کراچی میں ایک نہیں کئی ایک وزیرستان ہیں۔
وہ بتا رہے تھے کہ کس طرح ان کے علاقے سے ریاستی رٹ رخصت ہوچکی ہے‘ کس طرح وہاں کے لوگ مختلف قسم کے بندوق برداروں اور ریاستی اداروں کے مابین سینڈوچ بنے ہوئے ہیں ‘ کس طرح سیاسی جماعتیں جرائم پیشہ لوگوں کی سرپرستی کررہی ہیں اور کس طرح اب خود مسلح گروہوں کی خالق سیاسی جماعتیں اپنی مخلوق کے آگے بے بس ہوتی جارہی ہیں۔ جب انہوں نے اپنے علاقے کے حالات کی تفصیل بیان کی تو الٹا میری طرف سوال داغ دیا کہ اب بتائیں صافی صاحب! وزیرستان اور کیا ہوتا ہے؟ سچی بات یہ ہے کہ کراچی میں قیام کے دوران میں نے جو کچھ سنا اور دیکھا ‘ اس کے تناظر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ کراچی کے حالات اگر وزیرستان سے زیادہ بدتر نہیں تو کم بھی نہیں بلکہ بعض حوالوں سے تو کراچی کا مسئلہ قبائلی علاقوں کے مسئلے سے زیادہ گمبھیر ہے مثلاً قبائلی علاقوں میں صرف طالبان نے حکومتی رٹ کو چیلنج کررکھا ہے لیکن کراچی میں حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے والے عناصر میں مذہبی بھی ہیں اور سیکولر بھی ‘ سندھی بھی ہیں اور بلوچی بھی ہیں ‘ پختون بھی ہیں اور اردو بولنے والے بھی۔ اسی طرح قبائلی علاقوں کے رہنے والے دو قوتوں یعنی مذہبی عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے مابین سینڈوچ بنے ہوئے ہیں لیکن کراچی کے رہنے والے نصف درجن سے زائد قوتوں اور عناصر کے مابین سینڈوچ بنے ہوئے ہیں ۔ قبائلی علاقوں کے لوگوں کو زندہ رہنے کے لئے صرف دو فریقوں یعنی سیکورٹی فورسز یا عسکریت پسندوں میں سے کسی ایک یا پھر دونوں کو راضی رکھنا پڑتا ہے لیکن کراچی میں زندہ رہنے کے لئے نصف درجن کے قریب گروہوں کو بھتہ اور سرکاری اداروں کو رشوت دینی پڑتی ہے لیکن نہ جانے کیوں کراچی کے معاملات کو ڈرامہ بازوں کے سپرد کیا گیا ہے اور اسے ایسی سیاسی قوتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ جو کراچی کی تباہی کے عوض اپنا اپنا الّو سیدھا کررہی ہیں؟
ایک نعرہ بڑے تسلسل کے ساتھ سننے کو ملتا ہے کہ کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ کراچی صرف معاشی نہیں بلکہ پاکستان کی معاشرتی شہ رگ بھی ہے ‘ سیاسی شہ رگ بھی ہے ‘ادبی شہ رگ بھی ہے‘ ثقافتی شہ رگ بھی ہے ‘ صحافتی شہ رگ بھی ہے اور نظریاتی شہ رگ بھی ہے ۔
دوسری طرف پاکستان کو ان دنوں جن سنگین چینلجز کا سامنا ہے کم وبیش سب کا اصل ہدف کراچی بنا ہوا ہے مثلاً پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی کا سامنا ہے اور تاریخی طور پر کم وبیش تمام انتہاپسندوں کی نظریاتی اور مالی شہ رگ کی حیثیت کراچی کو ہی حاصل ہے۔ پاکستان کو لسانی عصبیتوں کا سامنا ہے اور اس کی جتنی زیادہ جہتیں کراچی میں جمع ہوگئی ہیں‘ ملک کے کسی اور خطے میں نہیں۔ بلوچستان میں پشتو اور بلوچی بولنے والوں کے مابین ‘ پنجاب میں پنجابی اور سرائیکی بولنے والوں کے جبکہ خیبر پختونخوا میں پشتو اور ہندکو بولنے والوں کے مابین تناؤ ہے لیکن کراچی میں بیک وقت سندھی ‘ بلوچی ‘ پختون اور مہاجر قوم پرست آمنے سامنے ہیں ۔
ملک کے باقی حصوں میں لسانی بنیادوں پر سیاست کرنے والوں کا ہتھیار ابھی بم ‘ بوری اور بندوق نہیں بنے ہیں بلکہ وہ ہنوز سیاست کے میدان میں جنگ لڑرہے ہیں لیکن کراچی کی لسانی تنظیمیں بم‘ بندوق اور بوریوں سے مسلح ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف آزادانہ طور پر ان ہتھیاروں کا استعمال کررہی ہیں ۔ اسی طرح پاکستان کو فرقہ واریت کا سامنا ہے لیکن کراچی کی انفرادیت یہ ہے کہ یہاں بیک وقت تمام فرقوں کے لوگ جمع ہوگئے ہیں اور فرقہ وارانہ تنظیموں کا سب سے بڑا گڑھ بھی یہی شہر ہے۔ ملک کے باقی حصوں میں کہیں شیعہ سنی کی کشمکش ہے‘ کہیں دیوبندی بریلوی کی اور کہیں انتہاپسند اور لبرل مسلمان کی لیکن کراچی ماشاء اللہ سب کی کشمکش کا میدان ہے۔ تمام مسالک کے بڑے مدارس اسی شہر میں ہیں اور تمام مسالک کے سرکردہ لوگ ملک بھر سے اس شہر میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ مذہبی تنظیموں کا اثرورسوخ بھی دیگر شہروں کے مقابلے میں کراچی میں سب سے زیادہ ہے ۔ کراچی ہی وہ شہر ہے جہاں جماعت اسلامی کے سب سے زیادہ اراکین بستے ہیں‘ جہاں جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی لاکھوں کاجلسہ کرسکتی ہے ‘ جہاں جمعیت علمائے پاکستان بھی فعال ہے اور طالبان کو بھی سب سے زیادہ مالی تعاون یہاں سے ملتا ہے۔
امن وامان کا مسئلہ پاکستان کے ہر شہر اور ہر صوبے کو درپیش ہے لیکن کراچی کا معاملہ سنگین اور اس کی نوعیت مختلف ہے مثلاً خیبرپختونخوا میں جن لوگوں نے بندوق اٹھا رکھی ہے ان کے سرپرست حکومت میں نہیں بیٹھے بلکہ حکومتی پارٹی ان کی دشمن نمبر ون ہے لیکن کراچی میں جن لوگوں نے حکومتی رٹ کو چیلنج کررکھا ہے ان کی اکثریت حکومت میں شامل جماعتوں کے منظور نظر بھی ہے۔ پی پی پی ‘ ایم کیوایم اور اے این پی حکومت میں بھی ہیں اور یہی تین جماعتیں اپنے اپنے جرائم پیشہ گینگز کی سرپرستی بھی کررہی ہیں ۔ سپریم کورٹ کے مطابق تینوں جماعتوں نے بشمول بعض دو دیگر جماعتوں کے ‘ اپنے اپنے مسلح جتھے بنارکھے ہیں جو لوگوں سے بھتہ بھی لیتے ہیں اور اپنی سرپرست جماعتوں کے مخالفین کو بھی مارتے ہیں ۔ اسی طرح باقی صوبوں میں حکومت میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کی حلیف ہیں لیکن سندھ واحد بدقسمت صوبہ ہے کہ اس پر حکمرانی کرنے والی جماعتیں ایک دوسرے کی حلیف بھی ہیں اور حریف بھی ہیں۔ اسی طرح پاکستان کو ایک اور سنگین چیلنج اس وقت بیرونی قوتوں‘ ان کی ایجنسیوں اور ان کی ایجنٹوں کی سرگرمیوں کا درپیش ہے اور بدقسمتی سے اس طرح کے عناصر کی خاص توجہ کا مرکز بھی کراچی ہی بنا ہوا ہے۔
کوئی بھی پاکستان دشمن ملک ہو‘ اس کی خفیہ ایجنسیوں کی زیادہ توانائیاں اس وقت کراچی میں صرف ہورہی ہیں اور بدقسمتی سے کراچی کے حالات ان کے ناپاک عزائم کی کامیابی کے لئے سب سے زیادہ سازگار بھی ہیں ۔ کراچی یوں تو گزشتہ تین عشروں سے بدامنی کا شکار ہے لیکن اس وقت وہاں پر تباہی کی نئی حرکیات ابھر رہی ہیں۔ ابھی تک تو وہاں مقامی سیاسی‘ لسانی اور فرقہ وارانہ اور جرائم پیشہ گروہ آپس میں لڑ رہے تھے لیکن لگتا ہے کہ اب مذہبی عسکریت پسندوں نے بھی اپنی جنگ کو پوری قوت کے ساتھ کراچی تک دراز کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ ان کی جنگ میں ابتدائی عمل ان ریاستی اداروں یا عناصر کو ٹارگٹ کرنا ہوتا ہے جن کا کسی نہ کسی حد تک کنٹرول یا خوف ہوتا ہے ۔ اب جب وہ ریاستی اداروں کو ٹارگٹ کریں گے اور نتیجتاً ریاستی اداروں کی زیادہ تر توجہ بھی ان کی طرف مبذول ہوگی تو مقامی تشدد پسند اورجرائم پیشہ عناصر کو اور بھی آزادی مل جائے گی ۔ دوسری طرف کراچی کی تینوں بڑی قوتیں یعنی ایم کیو ایم ‘ اے این پی اور پی پی پی ان مذہبی عسکریت پسندوں کے نظریاتی حریف ہیں ۔
وہ ان تینوں کو ٹارگٹ کرسکتے اور ان کی آپس کی لڑائی کو بڑی آسانی کے ساتھ گرم کرسکتے ہیں مثلاً ایم کیوایم کے ہائی پروفائل لوگوں کو اس طریقے سے قتل کیا جاسکتا ہے کہ اس کا شک اے این پی پر کیا جائے ‘ اسی طرح اے این پی کے خلاف کوئی بڑی کارروائی اس انداز میں کی جاسکتی ہے کہ وہ اس کا الزام ایم کیوایم کے سرڈال دے۔ علیٰ ہذہ القیاس ۔ خاکم بدہن ایسا ہوا تو کیا ہم وزیرستان کو بھول نہیں جائیں گے؟
تازہ ترین