حضرت احمد بن اسکاف دمشقی رحمۃ اللہ علیہ نے حج بیت اللہ کے ارادے سے کئی سال میں ایک خطیر رقم جمع کی۔حج سے چند دن پہلے انہوں نے ہمسایہ کے گھر میں اپنے بیٹے کو کسی کام سے بھیجا۔تھوڑی دیر بعد وہ منہ بسورتا ہوا واپس آیا۔ابن اسکافؒ نے پوچھا،بیٹے خیر تو ہے،تم روتے کیوں ہو؟اس نے کہا،ہمارے پڑوسی گوشت روٹی کھا رہے تھے،میں منہ دیکھتا رہا اور انہوں نے مجھے پوچھا تک نہیں۔ابن اسکافؒ رنجیدہ ہوکر ہمسائے کے گھر گئے اور کہا سبحان اللہ،ہمسایوں کا یہی حق ہوتا ہے جو تم نے ادا کیا۔میرا کمسن بچہ منہ تکتا رہا اور تم گوشت روٹی کھاتے رہے،اس معصوم کو ایک لقمہ ہی دے دیا ہوتا۔یہ سن کر پڑوسی زار زار رونے لگا اور کہنے لگا،ہائے افسوس اب ہمارا راز فاش ہوگیا۔ گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل۔خدا کی قسم، پانچ دن تک میرے گھر والوں کے منہ میں ایک دانہ تک نہیں گیا،لیکن میری غیرت کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے روکتی تھی،جب نوبت ہلاکت تک پہنچی تو ناچار جنگل گیا،ایک جگہ مردہ بکری پڑی تھی،اس کا تھوڑا سا گوشت لے لیا اور اسی کو ابال کر ہم کھارہے تھے،یہی سبب تھا کہ ہم نے آپ کے بچے کو کچھ نہ دیا،ورنہ یہ کب ہوسکتا تھا کہ ہم گوشت روٹی کھائیں اور آپ کا بچہ منہ تکتا رہے۔
یہ سن کر احمد بن اسکافؒ پر رقت طاری ہوگئی۔بار بار کہتے کہ اے احمد تجھ پر افسوس ہے کہ تیرے گھر میں تو ہزاروں درہم ودینار پڑے ہوں اور تیرے ہمسایوں پر فاقے گزررہے ہوں۔قیامت کے دن تو اللہ کو کیا منہ دکھائے گا اور تیرا حج کیسے قبول ہوگا؟پھر وہ گھر گئے اور سب درہم ودینار جو حج کی نیت سے جمع کیے تھے،چپکے سے لاکر باصرار ہمسائے کو دے دیے اورخود اپنے گھر میں بیٹھ کر یاد الٰہی میں مشغول ہوگئے۔حج کا زمانہ آیا تو حجاج میں مشہور صوفی بزرگ حضرت ذوالنون مصریؒ بھی تھے۔انہوں نے جبلِ عرفات پر ایک غیبی آواز سنی کہ اس سال احمد بن اسکاف دمشقیؒ نے حج کی نیت کی،لیکن وہ نہ آسکا،ہم نے اسے حجِ اکبر کا ثواب عطا کیا ہے اور دوسرے بہت سے حجاج کا حج بھی اس کے سبب قبول فرمایا ہے۔حضرت ذوالنون مصریؒ بہت حیران ہوئے کہ نہ معلوم احمد بن اسکافؒ کی کون سی ادا اللہ تعالیٰ کو بھاگئی ہے جو اس پر اس قدر فضل وکرم کیا گیا ہے۔
حج سے فارغ ہوکر وہ سیدھے دمشق گئے اور احمد بن اسکافؒ سے ملاقات کرکے ان سے حج پر نہ جانے کا سبب دریافت کیا۔انہوں نے واقعہ بیان کیا تو ذوالنونؒ نے فرمایا کہ مبارک ہو اللہ تعالیٰ نے تمہارا حج قبول فرمالیا،بلکہ حجِ اکبر کا ثواب عطا فرمایا۔احمد بن اسکافؒ یہ سن کر رونے لگے اور باربار اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہے۔اگلے سال اللہ نے انہیں اس قدر مال دیا کہ خود فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے تشریف لےگئے۔ (حکایات صوفیہ)