ارشادِ ربانی ہے ’’اور لوگوں پر اللہ کے لیے اس گھر کا حج فرض ہے جو وہاں تک پہنچنے کی قدرت رکھتے ہوں‘‘۔ (سورۂ آل عمران)رسو ل اکرم ﷺ نے اپنی امّت کو حج کی فضیلت بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’حج اور عمرہ گناہوں کو اس طرح پاک صاف کردیتے ہیں،جس طرح بھٹی لوہے،سونے اور چاندی کے مَیل اور کھوٹ کو صاف کردیتی ہے اور جو مومن بندہ اس دن (یعنی عرفہ کے دن) احرام کی حالت میں گزارتا ہے ،اس روز کا سورج، اس کے گناہوں کو لے کر ڈوبتا ہے‘‘۔اسی طرح آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے حج کیا اور اس میں اس نے نہ نفسانی خواہشات کی پیروی کی اور نہ گناہ کیا تو وہ ایسا ہو کر لوٹتا ہے، جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا۔ ’’یعنی ایک نئی زندگی اور ایک نئی حیات اور نیا دور شروع کرتا ہے،جس میں دین و دنیا کی بھلائیاں اور کامیابیاں جمع ہیں‘‘۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’حج مبرور کا بدلہ جنّت کے سوا کچھ نہیں‘‘۔آپﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا : ’’ہر کم زور کا جہاد حج ہے۔‘‘
جہاں سرکار دوعالم ﷺ نے حج کے فضائل،اس پر ملنے والا اجروثواب اپنی امّت کو بتایا،وہیں اس عظیم فریضے سے غفلت برتنے پر سخت عذاب کی وعید بھی سنائی ہے۔ارشادِ نبویؐ ہے: ’’جسے کسی بیماری یا کسی واقعی ضرورت نے ،یا کسی ظالم حکمراں نے روک نہ رکھا ہو اور اس کے باوجود وہ حج نہ کرے، تو چاہے وہ یہودی ہوکر مرے ،چاہے نصرانی ہو کر (گویا اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں)‘‘۔ (صحیح مسلم)
جہاں آج لوگوں کی نگاہیں خانۂ کعبہ کی زیارت اور روضۂ رسولﷺ کے دیدار و حاضری کے لیے ترستی ہیں اور حاضری دے کر ان کی آنکھوں اور دلوں کو ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے،وہاں ایسے بے شمار بدنصیب افراد بھی ہیں، جو اس عظیم فریضے سے غافل ہیں، ہماری ذمّے داری ہے کہ انہیں خوابِ غفلت سے جگائیں اور ان تک آپﷺ کی یہ وعید پہنچائیں۔ حج اسلام کا ایک رکن ہی نہیں،بلکہ اخلاقی، معاشرتی، اقتصادی، سیاسی قومی ملّی زندگی کے ہر رخ اور ہر پہلو پر حاوی اور مسلمانوں کی عالم گیر بین الاقوامی حیثیت کا سب سے بلند مینار ہے۔یہ عالم اسلام کی یگانگت،اتحاد اور مساوات کا بہترین مظہر بھی ہے۔