• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

باوجود اس کے کہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان کچھ مسائل پر تحفظات موجود ہیں مگر پھر بھی انہوں نے اسپیکر کے انتخاب میں یک زبان ہو کر ووٹ ڈالے اور ان کے مشترکہ امیدوار سید خورشید شاہ کو اتنے ہی ووٹ ملے جتنے پاکستان الائنس فار فیئر اینڈ فری الیکشنز (پی اے ایف ایف ای) کی جماعتوں کے تھے۔ ہلکی پھلکی بیان بازی تو ہوئی مگر دونوں جماعتوں نے اپنے درمیان ہونے والی انڈراسٹینڈنگ کو آنر کیا خصوصاً نون لیگ نے مکمل طور پر خورشید شاہ کو سپورٹ کیا۔ تاہم جب نون لیگ نے قومی اسمبلی میں سخت احتجاج کیا تو پیپلزپارٹی اس سے لاتعلق رہی جس سے ظاہر ہوا کہ آنے والے دنوں میں ان کے درمیان اتحاد کافی حد تک لوز ہوگا اور ان کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آتے رہیں گے۔

ظاہر ہے ایسی صورتحال میں نہ تو ان دونوں جماعتوں کو اور نہ ہی اپوزیشن کو کسی قسم کا کوئی فائدہ ہوگا اگر کسی کو اس سے فائدہ ہوگا تو وہ حکومت وقت ہوگی۔ جتنا اختلاف پی اے ایف ایف ای میں بڑھتا رہے گا اپوزیشن کو نقصان ہوتا رہے گا۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ کا وزن اسی وقت ہی بڑھے گا اور وہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں ہوں گے جب ان میں مضبوط اتحاد ہوگا اور جوں جوں ان میں رخنے بڑھتے جائیں گے دونوں کی حالت کمزور ہوتی جائے گی۔ نون لیگ تو پہلے ہی بری طرح ’’رسیونگ اینڈ‘‘ پر ہے اور اس کے ساتھ اور کیا ظلم اور زیادتی ہوسکتی ہے۔ اس کی حالت ایسے کی گئی کہ جیسے کُشتی کے اکھاڑے میں ایک پہلوان کو زنجیروں میں جکڑ کر اور دوسرے کو آزاد چھوڑ کر دنگل کرایا جائے اور اس کے بعد بھی جیتنے والا کہے کہ وہ تو ایک آزاد اور شفاف لڑائی میں جیتا ہے۔ لہٰذا نون لیگ کے پاس اب کھونے کو کچھ زیادہ نہیں ہے اسے تو پہلے ہی تاریخی رگڑا لگ چکا ہے اور لگ رہا ہے۔

جہاں تک پیپلزپارٹی کا سوال ہے اس کا بے جان ’’احتجاج‘‘ اپنی جگہ مگر اس کی پوزیشن تو 2018ء کے الیکشن میں 2013ء کے انتخابات سے کافی بہتر آئی ہے۔ پہلے اسے سندھ اسمبلی میں اتنی اکثریت نہیں ملی تھی اور نہ ہی اسے کچھ خاطر خواہ قومی اسمبلی میں پنجاب سے حاصل ہوا تھا۔ لہٰذا یہ تو ’’نِینگی‘‘ ہے۔ انتخابات سے قبل ہی اسے معلوم تھا کہ وہ ایوان زیریں میں سے اسے کچھ زیادہ نہیں ملے گا لہٰذا اس کی پہلی ترجیح یہ تھی کہ وہ سندھ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے جو کہ یہ ہوگئی لہٰذا یہ انتہائی خوش ہے کہ اس نے اپنا ٹارگٹ حاصل کر لیا ہے۔ اسی وجہ سے ہی اس کا پی اے ایف ایف ای کے اتحاد میں کچھ زیادہ گرم جوش کردار نہیں ہوگا۔ اس کے احتجاج کا تعین ایف آئی اے کی طرف سے کی جانے والی جعلی اکائونٹوں میں تفتیش سے ہوگا جس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن محترمہ فریال تالپور کے نام بھی آتے ہیں۔ اسپیکر کے الیکشن کے دن جب پیپلزپارٹی نون لیگ کے احتجاج میں شامل نہ ہو کر ’’گڈ بوائے‘‘ کا ثبوت دے رہی تھی تو اسی دن آصف زرداری کے دیرینہ دوست اور مبینہ بزنس پارٹنر انور مجید کو ایف آئی اے نے سپریم کورٹ کی سماعت کے بعد گرفتار کر لیا۔ یہ سابق صدر کیلئے ایک بھونچال سے کم نہیں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب بھی پیپلزپارٹی کی حکومت سندھ میں ہوتی ہے تو دراصل انور مجید ہی آصف زرداری کے بے انتہا اعتماد کی وجہ سے اس کے کرتا دھرتا ہوتے ہیں۔ ایف آئی اے کی انکوائری میں سابق صدر کیلئے کوئی اچھی خبریں نہیں آرہیں جبکہ عدالت عظمیٰ نے پاناما اسٹائل جے آئی ٹی بنانے کا بھی کہہ دیا ہے اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس تفتیشی ٹیم کی سپروژن بھی خودکرے گی۔ اگر آصف زرداری اور فریال تالپور کو اس کیس میں گرفتار کر لیا جاتا ہے تو پیپلزپارٹی بھی نون لیگ کی طرح ایک بپھرے شیر کی طرح اپوزیشن کا رول ادا کرنا شروع کر دے گی اس کے بعد ان دونوں جماعتوں میں اتحاد بھی بڑا مثالی ہو جائے گا۔

تاہم کچھ لوگ ایسا نہیں چاہیں گے اور اسی وجہ سے ہی آصف زرداری اور فریال تالپور کی گرفتاری کا امکان کم ہے۔ بعض باخبر حضرات تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ ہاتھ ملا لیتی اگر یہ گرفتاریاں نہیں کی جاتیں۔ اس کے علاوہ اس کے تعاون کی وجہ یہ بھی ہوگی کہ اسے آخر سندھ حکومت بھی تو چلانی ہے جہاں اسے وفاقی حکومت کی مدد درکار ہوگی۔ آصف زرداری مختلف امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ کسی طرح ان کی ایف آئی اے کیس میں جان بخشی ہو جائے۔

نون لیگ سخت رویہ اپنانا چاہتی ہے جس کی وجوہات سب کو معلوم ہیں۔ ان میں سب سے بڑی وجہ سابق وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ ہونے والا قابل مذمت غیر انسانی سلوک ہے جو کہ ان کے ساتھ جیل میں روا رکھا جارہا ہے جہاں انہیں نہ تو اپنی بیٹی اور داماد سے ملنے کی اجازت ہے اور نہ ہی وہ مسجد میں نماز ادا کرسکتے ہیں اس کے علاوہ وہ ایک طرح کی قید تنہائی میں ہیں۔ اس سے بھی شرمناک فعل یہ تھا کہ انہیں بکتر بند گاڑی میں اڈیالہ جیل راولپنڈی سے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش کیا گیا۔ ایسا سلوک تو صرف دہشت گردوں اور قاتلوں کیلئے ریزرو ہوتا ہے۔ سخت عوامی ردعمل کی وجہ سے اگلی پیشی پر نوازشریف کو جیپ میں لایا گیا۔

الیکشن سے پہلے اور پولنگ والے دن جو ’’کچھ‘‘ نون لیگ کے ساتھ کیا گیا وہ سب کو معلوم ہے۔ جہاں تک احتساب عدالت کے فیصلے کا تعلق ہے اس کی جو دھجیاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان اڑا رہے ہیں اس سے بھی نہ صرف پاناما جے آئی ٹی کی رپورٹ کی کوالٹی بلکہ نیب فیصلے کا ’’بودا پن‘‘ بھی ظاہر ہورہا ہے۔ جب لندن فلیٹس کی قیمت کا تعین ہی نہیں ہے تو یہ کیسے ذرائع آمدنی سے زیادہ کے اثاثے ہوگئے، جب نوازشریف کسی بھی دستاویز کے مطابق جو جے آئی ٹی نے تیار کی ان اپارٹمنٹس کے مالک ہی نہیں ہیں تو انہیں سزا کیوں دی گئی اور جب کرپشن ثابت ہی نہیں ہوئی تو سزا کس بات کی یہ ہیں وہ چبھتے ریمارکس اور سوالات جو جج صاحبان نے کیے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک عرصے سے جو کچھ نیب کر رہا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اس ادارے نے اینٹی نون لیگ’’الیکشن کمپین‘‘ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اس کا کردار کبھی بھی اتنا زیادہ مخالفانہ نہیں تھا۔ لہذا کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ان تمام وجوہات کی بنا پر نون لیگ کی پارلیمان کے اندر اور باہر پالیسی انتہائی جارخانہ ہوگی چاہے پیپلز پارٹی اس کا ساتھ دے نہ دے۔ اس کی واضح مثال اسپیکر الیکشن کے دن اس جماعت نے بڑی کھل کر پیش کر دی ہے جس میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘، ’’جعلی مینڈیٹ نامنظور‘‘، ’’ہمارا لیڈر نوازشریف‘‘، اور ’’لوٹا کریسی مردہ باد‘‘ کے نعرے لگائے گئے۔

اپوزیشن میں ہوتے ہوئے پی ٹی آئی تو ایک عجیب مخلوق تھی جس نے پارلیمان کی صرف توہین ہی کی اور اس پر حملے کیے مگر اس نے اس وقت کی حکومت کو انڈرپریشر کرنے کیلئے اس ادارے کو استعمال نہیں کیا۔ یہ تو باہر سڑکوں پر دوڑتی رہی اور پارلیمان کا کبھی رخ نہیں کیا۔ جو پانچ سال پی ٹی آئی نون لیگ کی حکومت کے ساتھ سڑکوں پر کرتی رہی وہ تو نون لیگ نہیں کرے گی مگر پارلیمان کے اندر اس کا جینا دوبھر کرتی رہے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین