مودود احمد ماجد، جھڈو
جھڈو پولیس اسٹیشن کی حدود میں منشیات فروشوں کو گھنائونےکاروبار کے لئے کھلی چھوٹ دی گئی ہے، جہاں غیر ملکی اور دیسی شراب ، چرس ، کٹگا ، مین پوری سمیت اسمگل شدہ گٹکا و دیگر منشی مصنوعات کا لاکھوں روپے کا کاروبار یومیہ کیا جاتا ہے۔باخبرذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ پولیس کی بعض کالی بھیڑیں منشیات فروشی کے گھنائونے دھندوں کی سر پرستی کرکے اپنا حصہ کھرا کر نے میں ملوث ہیں ۔جھڈو میں چرس فروشی کا کاروبار ترک کر کے شریفانہ زندگی گزارنے والے ایک شخص نے بتایا کہ جھڈو میں چرس پہنچانے کے دو راستے ہیں، پہلا راستہ کوئٹہ ،حب سے کراچی ہوتا ہوا جھڈو کی طرف آتا ہے جس پر قانون نافذ کر نے والے اداروں کی سختی اور چیکنگ کی وجہ سے منشیات کی سپلائی بہت کم ہو گئی ہے ۔دوسرا راستہ افغانستان سے خیبر پختونخواہ اور وہاں سے نواب شاہ سے ہوتا ہوا جھڈو پہنچتا ہے ۔
ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ راستہ سے منوں کی مقدار میں چرس کی کھیپ جھڈو میں پہنچائی جاتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ چرس اسمگل کرنے والے افراد نےمذہبی لوگوں جیسی وضع قطع بنائی ہوتی ہے او ر منشیات کی سپلائی میںانتہائی قیمتی اورپرتعیش گاڑیوں سے مدد لی جاتی ہے ۔ ذرائع نے بتایا کہ علاقے میں اعلی درجہ کی’’ غردا ‘‘نامی چرس 5ہزار روپے میں 50گرام دی جاتی ہے جب کہ ہلکے معیار کی چرس ایک ہزار روپے میں 50گرام دی جاتی ہے ۔ منشیات کی منڈی ہونے کے حوالے سے جھڈو کو میکسیکو سٹی جیسا درجہ حاصل ہے جہاں سے نشہ آور اشیاء کو بدین ، ٹنڈو جان محمد اور نوکوٹ میں قائم وائین شاپ سے واٹ ون ، ڈریجن نامی شراب اور بیئر کے کارٹن لاکر نوجوانوں کو کھلے عام شراب فروخت کی جاتی ہے جس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوئی روک ٹوک نظر نہیں آتی۔ اسی طرح جھڈوکے دیہی علاقوں میں جگہ جگہ دیسی شراب بنانے کی بھٹیاں ’’گھریلوصنعت ‘‘ یا کاٹیج انڈسٹری کا درجہ اختیار کر گئی ہیں ۔ بتایا جا تا ہے کہ ٹھرا بنانے کی بھٹیوں کی تعداد دو سو سے تجاوز کر چکی ہے، جہاں انتہائی گندے پراسس کے اور پرتعفن ماحول میںزہریلی اشیاء کی آمیزش کر کے شراب بنائی جاتی ہے، جن میں یوریا ، نوشادر اور نیند کی گولیوں کا مخصوص تناسب شامل ہے۔ مذکورہ فارمولے میں معمولی سی غلطی کے نتیجے میں تیار شدہ شراب خطر ناک حد تک ہلاکت خیز ثابت ہو سکتی ہے ۔
جھڈو میں دیسی شراب کی وباءاس قدر بڑھ چکی ہے کہ اس شہر میں ایک ایسی کالونی بھی وجود میں آگئی ہے۔ اس کالونی کے ہر گھر میں ایک یا ایک سے زائد بیوہ خواتین موجود ہیں ،ذرائع کے مطابق مذکورہ خواتین کے شوہر نشے کی عادت کے باعث زہریلی شراب پینے کے باعث ہالک ہوئے اور اپنے پیچھے تقریباً نصف درجن افراد پر مشتمل کنبے کو سوگوار چھوڑ گئے۔
جھڈو میں گٹکا ،مین پوری اور اسمگل شدہ گٹکےکی مصنوعات سفینہ ، جی این ڈی ، زینت ، جی ایم ، ہٹ ، پنچ اور دیگر اقسام کا بہت بڑا نیٹ ورک پھیلا ہوا ہے ، جس کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے افراد کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ صبح سویرے 5سے 6بجے کے درمیان منڈی لگا کر ہول سیل ریٹ پر منشیات فروخت ہوتی ہیںاور مارکیٹ میں رسد و کھپت کا اندازہ لگا کر روزانہ کی بنیاد پرنرخ طے کئے جاتے ہیں ۔
جھڈو میں سماجی حلقوں اور میڈیا کے دبائو سے بچنے کے لئے جھڈو پولیس اور گٹکا فروشوں نے اپنے کارخانے اور گودام جھڈو سے ملحقہ گوٹھ حیات خاصخیلی میں منتقل کئے ہوئے ہیں۔، مذکورہ گوٹھ انتظامی اعتبار سے پنگریو پولیس کا علاقہ ہے لیکن گوٹھ حیات خاصخیلی میں اسٹاک اور تیار کئے جانے والے تمام قسم کی منشیات کا 97فیصد جھڈو میں فروخت کیا جاتا ہے ۔ منشیات کے مکروہ دھندوں سے مبینہ طور پر پولیس ، ایکسائز پولیس ، اینٹی نارکوٹکس اور دیگر اداروں کو باقاعدگی سے حصہ پہنچایا جاتا ہے جس کی وجہ سے جھڈو اور گوٹھ حیات خاصخیلی منشیات فروشوں کے لئے کی جنت بنے ہوئے ہیں ۔
ذرائع نے مزید انکشاف کیا ہے کہ اعلی حکام کے دبائو پر پولیس محض خانہ پوری کے لئے’’ ڈمی‘‘ ایف آئی آرز درج کر تی ہے جس کے لئے منشیات فرو ش خود ہی رضا کارانہ طور پر دو ، دو لڑکے پولیس کے حوالے کرتے ہیں جو کہ اگلے دن چھ چھ سو روپے کی ضمانت کر واکررہا ہوجاتے ہیں ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بعض گٹکا فروشوں نے تھانے کا ٹوٹل پورا کرنے کے لئےتنخوا ہ پر ملازم رکھے ہوئے ہیں جو سال میں دو یا تین مرتبہ حوالات کی سیر کر کے آتے ہیں ، گوٹھ حیات خاصخیلی میں ایسا ہی ایک نوجوان موجود ہے جسے 27 مرتبہ گٹکا فروشی کے نام پر پولیس کا مہمان بنایا گیا ۔ذرائع نے بتایا کہ پولیس بھی سیاسی لوگوں کی کمدار ہے اور منشیات فروشوں کے سرپرست بھی سیاسی لوگوں کے ورکر بنے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ علاقے میں ہر قسم کی منشیات کے دھندے کھلے عام جاری ہیں ۔