• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایئر مارشل (ر) اصغر خان کی پٹیشن پر سپریم کورٹ کے فیصلے نے صدر آصف علی زرداری کی سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کردی ہے کیونکہ ان کا عہدہ غیر سیاسی ہے جو کسی سیاسی فرد یا جماعت کی حمایت نہیں کرسکتا۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ تمام افراد اور گروہوں کے ساتھ مساوی سلوک کرے اور غیر جانبدار ہو ۔فیصلے کے مطابق صدر کا عہدہ آئین میں دی گئی ”سروس آف پاکستان“ کی تعریف میں آتا ہے اس کو کوئی استثنیٰ نہیں دی گئی۔ اس زمرے میں آنے کی وجہ سے موجودہ عہدہ چھوڑنے کے دو سال تک صدر زرداری سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کے پابند ہوں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ اس عرصے میں قومی یا صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کیلئے بھی نااہل ہوں گے اور نہ ہی وہ وزیراعظم بن سکتے ہیں بالکل سرکاری ملازم کی طرح۔ لہذا سروس آف پاکستان میں ہونے کی وجہ سے صدر کا عہدہ ”آفس آف پرافٹ“ ہے۔
عدالتی فیصلے میں تاریخی حوالوں سے ثابت کیا گیا ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام میں صدر مملکت یا بادشاہ کا سیاست سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہوتا اور ہی ان کا حکومتی معاملات میں کوئی رول ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی عدالتی فیصلے کے اس حصہ پر مکمل خاموش ہے۔ اس کی یہ دلیل جو اس نے اٹارنی جنرل عرفان قادر کے ذریعے عدالت میں بھرپور انداز میں پیش کی کہ صدر کا عہدہ سیاسی ہے مکمل طور پر مسترد کر دی گئی۔ اس کے رہنما فیصلے کے صرف ایک حصے پر دن رات بات کر رہے ہیں جو نواز شریف پر رقم لینے کے الزام کے متعلق ہے۔ ظاہر ہے اس کا مقصد صرف اور صرف اپنے سیاسی مخالف کو سخت تنقید کا نشانہ بنانا ہے تاکہ سیاسی فائدہ حاصل کیا جاسکے۔ تاہم اگر عدالتی فیصلے پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کم سے کم ایک تہائی حصہ پارلیمانی جمہوریت میں صدر کے رول کے بارے میں ہے۔ چونکہ حکومت آصف علی زرداری جو پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین بھی ہیں کو غیر سیاسی نہیں دیکھنا چاہتی وہ اس حصے پر عملدرآمد کیلئے تیار نہیں۔ عدالتی فیصلے نے پیپلزپارٹی کو سیاسی طور پر سرگرم شریک چیئرمین سے محروم کر دیا ہے۔ یہ ایسے وقت ہوا ہے جب نئے انتخابات سر پر ہیں اور ہر سیاسی جماعت انتخابی مہم کی تیاری میں لگی ہے۔ نہ صرف پارٹی کے سب سے بڑے عہدیدار ہونے کے ناطے سے بلکہ اس کے سیاہ و سفید کے مالک ہونے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کا سارا دارومدار صدر زرداری پر ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکے جو کہ وہ اب عدالتی فیصلے کی روشنی میں نہیں کرسکتے تو اس کی انتخابی مہم بری طرح متاثر ہونے کا قوی امکان ہے۔ پارٹی میں کوئی بھی اس قد کاٹھ کا لیڈر موجود نہیں جو بھر پور انتخابی مہم چلا کر اسے کامیابی سے ہمکنار کرسکے۔ رہی بات نوجوان بلاول بھٹو زرداری کی جو پیپلزپارٹی کے چیئرمین ہیں تو انہیں ابھی تک جماعت کے معاملات میں بہت زیادہ ملوث نہیں کیا گیا۔ ان کی پارٹی کے بارے میں سرگرمیاں بہت محدود ہیں۔ مزید یہ کہ انہیں سیاست کو صحیح طور پر سمجھنے کیلئے کئی سال درکار ہوں گے ۔ اس کے علاوہ ان کو اردو زبان پر ابھی تک واجبی عبور بھی حاصل نہیں۔ عدالتی فیصلے کی وجہ سے اب صدر اپنی پارٹی کیلئے کسی جلسہ عام سے خطاب نہیں کرسکتے اور نہ ہی وہ بند کمرے کے سیاسی اجلاس جو ایوان صدر یا گورنر ہاؤس میں منعقد ہوں کی صدارت کرسکتے ہیں۔ خلاف ورزی کی صورت میں ان کے سیاسی مخالفین خصوصاً نون لیگ عدالت عظمیٰ اور الیکشن کمیشن سے رجوع کرسکتی ہے اور توہین عدالت کی درخواست بھی دے سکتی ہے۔اگر پاکستان کی حالیہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ جب آئین نے صدر کو واضح وسیع اختیارات بشمول اسمبلیوں کے تخلیل کے دیئے تو انہوں نے حکومت کو مکمل کنٹرول میں رکھا۔ اس طرح ایوان صدر سیاست کا سب سے بڑا مرکز بنا رہا۔ چوہدری فضل الہی ایک با اصول صدر تھے جن کے پاس کوئی اختیارات نہیں تھے۔ جب صدر بنے تو پیپلزپارٹی سے مستعفی ہوگئے۔ اس کے بعد مارشل لا لگانے والے جنرل ضیاء الحق ایسے صدر بنے کے پارلیمانی جمہوری نظام مذاق بن کر رہ گیا۔ وہی حکومت چلانے کی کوشش کرتے رہے۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کو زیر اثر کرنے میں مصروف رہے۔ آخر انہوں نے وزیراعظم کو ایک عام ملازم کی طرح برطرف کر دیا۔ اس کے بعد صدر غلام اسحاق خان بھی جنرل ضیاء کے نقش قدم پر چلے اور اپنے پانچ سالہ دور میں دو منتخب جمہوری حکومتوں کو چلتا کیا۔ انہوں نے بھی ایوان صدر کو گندی سیاست اور سازشوں کا مرکز بنائے رکھا۔ پھر سردار فاروق لغاری بھی ان سے کچھ مختلف نہ نکلے۔ اپنے پیش رووں کی طرح وہ بھی حکومت کو کنٹرول کرنے میں لگے رہے۔ تاہم وزیراعظم نواز شریف نے رفیق تاررڑ کو صدر بنایا اور تمام صدارتی اختیارات وزیراعظم کو منتقل کر دیئے۔ ایوان صدر سیاسی جوڑ توڑ اور گند سے پاک کردیا گیا۔ رفیق تاررڑ اور چوہدری فضل الہی کی صدارت میں مکمل مماثلت تھی ۔ عدالت عظمیٰ کا موجودہ فیصلہ پارلیمانی جمہوری نظام کو اصل شکل میں بحال کرتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق صدر چوہدری فضل الہی اور رفیق تاررڑ جیسا ہونا چاہئے نہ کہ جنرل ضیاء، غلام اسحاق خان، فاروق لغاری اور آصف علی زرداری جیسا۔ اس فیصلے پر ایک طرف پیپلزپارٹی بغلیں بجا رہی ہے تو دوسری طرف صدر کو مکمل غیر سیاسی بنانے پر قطعاً تیار نہیں یعنی آدھا فیصلہ منظور اور باقی نامنظور۔ اس سے قبل بھی عدالت عظمیٰ اپنے مختلف فیصلوں میں صدر کے رول کا تعین کرچکی ہے۔جن میں سب سے اہم عنصر ان کا غیر سیاسی ہونا ہے اور سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی ممانعت ہے۔ ان تمام فیصلوں کا ریفرنس موجودہ فیصلے میں تفصیل سے موجود ہے۔اس کے علاوہ کچھ عرصہ قبل لاہور ہائی کورٹ نے بھی صدر کے دو عہدوں کے بارے پٹیشن میں توقع کا اظہار کیا تھا کہ آصف زرداری ایوان صدر کے تقدس کو محلوظ خاطر رکھتے ہوئے وہاں سیاسی سرگرمیاں ختم کر دیں گے مگر ایسا نہ کیا گیا۔ اس فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست زیر سماعت ہے جس پر فیصلہ اگلے چند ہفتوں میں متوقع ہے۔ مختلف عداتی فیصلوں کی روشنی میں آصف زرداری کو اب چوائس کرنا ہوگا کہ وہ صدر کا عہدہ رکھیں یا پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین رہیں۔ا سٹیٹس کو کو بحال رکھتے ہوئے وہ پارٹی کے شریک چیئرمین صرف نام کے ہوں گے کیونکہ وہ صدر ہوتے ہوئے سیاسی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتے اور نہ ہی پارٹی کی انتخابی مہم چلاسکتے ہیں۔ تاہم اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ وہ کسی ایک عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔تاہم جب شریک چیئرمین انتخابی مہم نہیں چلاس سکیں گے تو پیپلزپارٹی کے امیدواروں کو ہی اپنے اپنے حلقوں میں روز شور سے کام کرنا ہوگا تاکہ وہ کامیاب ہوسکیں۔
تازہ ترین