• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فِن لینڈ میں ایک مجسمہ بناکر روڈ کے ایک کنارے نصب کیا گیا ہے، جس میں دکھایا گیا ہے ،کہ ایک شخص غرق ہو رہا ہے، تب بھی پڑھ رہا ہے یا اسے دیکھ کر یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ پڑھو چاہے تم ڈوب ہی کیوں نہ رہے ہو ، اس مجسمہ کو دیکھ کر علامہ سید سلیمان ندوی کی مشہور تصنیف ،حیات شبلی ،میں مذکور وہ واقعہ یاد آگیا جس کی رو سے علامہ شبلی نعمانی ،پانی کے جہاز سے ترکی کا سفر کررہے تھے ،اس سفر میں ان کے ہمراہ پروفیسر آرنالڈ بھی تھے کہ راستے میں اچانک سمندری طوفان آگیا اور جہاز زور زورسے ہچکولے کھانے لگا ،قریب تھا کہ جہاز ڈوب جائے ، پورے جہاز میں کہرام مچ گیا ، بدحواسی کے عالم میں مولانا شبلی نعمانی پروفیسر آرنالڈ کے کیبن میں داخل ہوئے ،وہاں پہنچ کر وہ کیا دیکھتے کہ وہ مطالعے میں پوری طرح غرق ہیں ، انہوں نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا کہ ’’پروفیسر صاحب یہاں جہاز ڈوب رہا ہے اور ایک آپ ہیں کہ مطالعہ فرمارہے ہیں‘‘ مولانا شبلی کی بات سن کر پروفیسر آرنالڈ نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ اگر جہاز کو ڈوبنا ہی ہے ،تو کیا ہمارے واویلے کرنے سے وہ بچ جائے گا؟ اس لیے زندگی کا جو وقت بھی بچا ہے اسے غنیمت جانیےاور اس سے فائدہ اٹھایئے اس کے بعد وہ بدستور اپنے مطالعہ میں محو ہوگئے۔

اقراءکا یہ وہی فارمولہ ہے، جس کے ساتھ پیغمبر اسلام کی بعثت ہوئی تھی اور آج اسی فارمولےکو اپناکر مغرب پوری دنیا پر اپنی بالا دستی قائم کیےہوئے ہے اور ایک ہم ہیں کہ جنہیں پڑھنے کا حکم دیا گیا پھر بھی نہیں پڑھتے ۔

(انتخاب: شرمین خان)

تازہ ترین