ہر طرف روشنی اور چراغاں ہے۔ خوشی کا احساس ، قہقہے اور باتیں ہیں ۔ہر طرف ایک ہی گونج ہے’ جشن نوروز مبارک، نو روز مبارک ، جشن جمشید ‘ ۔
ہرخاندان اپنے بزرگوں ، بچوں اور جوانوں کے ساتھ اپنا مذہبی تہوار منانے بیچ لگژری ہوٹل پہنچ رہا ہے ۔ ایک طرف چیریٹی اسٹالز تو دوسری طرف بچوں کے لئے پلے لینڈ ہے اور دعاؤں اور تحائف کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ کھانے کھائے جا رہے ہیں اور تمبولا زوروں پر ہے۔ یہ تقریب پارسیوں کے تہوار جشن نوروز کے لئے سجائی گئی ہے۔
نوروز دنیا کا قدیم ترین تہوار ہے ۔ ہزار ہا سال پرانی ایرانی تہذیب کے رنگ جہاں جہاں پہنچے وہاں یہ ثقافتی تہوار مقامی انداز میں منایا جاتاہے۔کہیں یہ تقافتی رنگ لئے ہوئے ہےتو کہیں مذہبی انداز ۔ ایرانی تہذیب کے رنگ وسط ایشیا ئی ریاستوں اور پاک و ہند میں بھی اپنا اثر رکھتے ہیں ۔ایرانی ثقافت میں یہ مذہبی انداز کے بجائے ایک روایتی رنگ لئے ہوئے ہے۔ جیسے ہمارے ہاں بسنت موسم بہار کے اعلان کا مقامی تہوار ہے۔ بالکل اسی طرح ’’جشن نوروز‘‘بھی موسم بہار کو خوش آمدید کہنے کا دن ہے۔
نوروز سال میں دو بار منایا جاتا ہے۔اس سال بھی پہلا نوروز بیس مارچ کو’’قدیمی کیلنڈر ‘‘کے پہلے دن کے طور پر منایا گیاجبکہ پارسی کمیونٹی کا اہم مذہبی دن ’جشن نوروز یا جشن جمشید‘سترہ اگست بروز جمعہ پورے اہتمام کے ساتھ منایاگیا ۔ یہ دن پارسی کمیونٹی میں ’شہنشاہی کلینڈر ‘کے نئے سال کا آغاز ہے ۔ ہر سال جشن جمشید کا دن تبدیل ہونے کی وجہ کلینڈر میں لیپ ایئر کا نہ ہونا ہے ۔
دنیا بھر کے پارسیوں کے لیے نو روز کا دن نئی زندگی اور نئے سال کی خوشیوں کا پیغام ہے ۔یہ خوشحالی ، صحت ، دولت اور خاندان بھر کے لیے دعاؤں کے ساتھ ساتھ گناہوں سے توبہ کا بھی دن ہے۔
پارسی کمیونٹی میں یہ دن پچھلے تین ہزار سال سے ایرانی بادشاہ جمشید کی حکومت اور شہنشاہی کلینڈر کے آغاز کی یاد میں منایا جارہا ہے ۔ ساتھ ہی پاک و ہند کے پارسیوں کے لئے یہ دن اس لئے بھی اہم ہے کہ کئی سو سال پہلے اسی دن پارسی کمیونٹی ایران سے نکل کر بھارتی شہر گجرات منتقل ہوئی ۔ بھارت میں پارسی کمیونٹی کا بڑا حصہ آباد ہے اور دوسرے نمبر پر یہ ایران میں رہائش پذیر ہیں ۔
اولڈ کراچی کے رہائشی اے کے مستری جنھوں نے پرانے کراچی کو بنتے اوربگڑتے دیکھا اور جو انیس سو تیتیس کا سن پیدائش رکھتے ہیں ، ان کا کہنا ہے’ پارسی کمیونٹی کے دوسرے گھروں کی طرح ان کے گھر میں بھی پچھلے کئی دنوں سے اس جشن کی تیاریاں چل رہی تھیں ۔ دس دن پہلے سے جشن نوروز کی عبادات شروع ہوجاتی ہیں ۔ جیسے مسلم گھرانوں میں ماہ رمضان کے بعد عید کا تہوار ہے نوروز بھی ہماری عید کا دن ہے ۔ ا س دن کاخاص مقصدشخصی اور انفرادی برائیوں کو دور کرنا اور اپنے اطراف کی صفائی ستھرائی کا بھی خیال رکھناہے‘۔
ان کی بیگم کا نو روز کے حوالے سے کہنا تھا ’اس دن کے خاص اہتمام یہ ہی ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو ہر چیز میں نیا پن ہو۔اگر ضرورت ہو تو گھروں میں نیا رنگ کروایا جائے۔ خوب صفائی ستھرائی ،نئے کپڑے اور مخصوص کھانوں کی تیاریا ں کی جاتی ہیں ۔ پورا گھر مل کرکئی دن پہلے سے ہی گھرکی تزئین و آرائش میں لگ جاتا ہے۔ خوب لائٹنگ کی جاتی ہیں۔ یہ ایک طرح سے پورے خاندان کا ایک ساتھ مل بیٹھنے کا موقع بھی ہوتا ہے۔ بچے بڑے بزرگ سب اس میں پورے شوق سے شریک ہوتے ہیں ۔‘
کھانوں کے حوالے سے مسز مستری کا کہنا تھا کہ ’ ہمارے ہاں خوشی کے موقع پر بھی سادہ کھانے ہی پیش کیے جاتے ہیں ۔ جیسے اڑدھ اور مسور کی دال ملاکر پکائی جاتی ہے جس کو چاول، پاپڑ اور تلی مچھلی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ۔ پارسیوں میں گائے کا گوشت بالکل نہیں کھایا جاتا ۔ قورمہ اور بریانی اب ہمارے ہاں پیکٹ سے پکائے جانے لگے ہیں لیکن یہ ہمارے روز مرہ کے کھانے نہیں ہیں۔ چاول بھی ذرامختلف انداز میں پکائے جاتے ہیں جیسے شکر کو براؤن کرکے اس میں چاول دم دئیے جاتے ہیں۔ ذائقہ میٹھا نہیں ہوتا بس براؤن شکر کا ہلکا سا رنگ چاول پر چڑھ جاتاہے۔ میٹھا بہت ہی کم بنتا ہے۔ وہ بھی سوجی اور چاول کی کھیر جیسے سادہ میٹھے ‘پارسی کمیونٹی پاکستانی تہذیب کا ایک رنگیں اور نمایاں چہرہ ہے۔
قیام پاکستان سے اب تک پارسیوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ تعلیم یافتہ، فلاحی کاموں میں آگے آگے ،خاموش ،پرامن اور کاروباری مزاج کے حامل لوگ ہیںاور اکثر اپنی کمیونٹی تک محدود رہتے ہیں۔
ان کی تعداد میں روز بروز کمی کی بنیادی وجہ غیر پارسیوں میں شادی کا نہ ہونا بھی ہو سکتی ہے ۔ عموماًدیکھا گیا ہے کہ یہ لوگ دیر سے شادی کرتے ہیں یا کرتے ہی نہیں ۔