ـــ’’چھوڑوں گانہیں، کسی کو نہیں چھوڑوں گا! ـغریب کسانوں کا اناج کھا جانے والوں کو انکے انجام تک پہنچا کر رہو ں گا۔بستی کے لوگوں کی عزتوں سے کھیلنے والے عبرت کا نشان بنیں گے۔ ٹھاکر اور اسکی ساری اولادیں زندانوں کی زینت بنیں گی۔ یہ جو سرِ شام پنچایت لگا کر بیٹھ جاتے ہیں،انہیں مظلوموں کی ہائے لگے گی۔ اور وہ ۔۔۔ وہ نوٹنکی والے، انہوں نے گائوں میں اخلاق باختگی پھیلا رکھی ہے۔کچھ لوگوں نے مذہب کو بیوپار بنا رکھا ہے۔ چھوڑوں گانہیں، کسی کو نہیں چھوڑوں گا!ـ‘‘ لاڈلا راٹھور تلوار لہراتے ہوئے پُتلی اسٹیج پر کپڑے کی ایک دیوار سے دوسرے دیوار کی طرف اس اکڑ سے ناچتا ہوا جاتاگویا وہ ہی ہے ۔۔۔جو اس پُتلی تماشے کو چلا رہا ہو۔
ـــ’’اچھا تو میں چلا
پھٹ رہا ہے میرا گلا
بچے ،بڑے نوٹ نکالیں
مداری بابا سب سے بھلاـ‘‘
ساتھ ہی مداری بابا نے لاڈلے راٹھور کو پُتلی اسٹیج سے اوپر کھینچ لیا۔پانچ فٹ لمبے، دو فٹ چوڑے اور تین فٹ اونچے پُتلی اسٹیج کو مداری بابا نے بڑی مہارت سے سجایا تھا۔ا سٹیج کے پیچھے زمین سے لیکر سات فٹ تک کالا پردہ تھا۔ مداری بابا اور اسکا اسسٹنٹ کالیا دونوں اس پردے کے پیچھے یوں کھڑے ہوتے تھے کہ اسٹیج کے سامنے سے نہ وہ خود نظر آتے تھے ، نہ انکے ڈوریا ں ہلانے والے ہاتھ اور نہ ہی وہ ڈوریاں جنہیں مداری بابا نے اسٹیج کے پس منظر کے رنگوں اور بیٹریوں پر چلنے والی پانچ پانچ واٹ کی روشنیوں کے ساتھ اس طرح میچ کیا تھا کہ پورے تماشے کے دوران دیکھنے والوں ڈوریاں کو نظر نہیں آتی تھیں۔جب تماشا چل رہا ہوتا تو مداری بابا ڈائیلاگ اس مہارت سے بولتا تھا کہ دیکھنے والوں کو لگتا تھا کہ اسٹیج پر ناچنے والی پُتلی و ہ ڈائیلاگ بول رہی ہے ۔جب مداری بابا پتلی کے منہ میںڈائیلاگ ڈال رہا ہوتا تو کالیا ، ٹین اور ایکسرے کی فلم کو کاٹ کر بنائی ہوئی چھوٹی سی سیٹی منہ میں لئے مسلسل تیز تیز بجاتا جاتا اور ناظرین کو یہ تاثر ملتا کہ کالئے کی سیٹی سے نکلتی تیز آواز گویا پُتلیاں کی زبان ہے جسکی ہماری زبان میں ساتھ ساتھ ڈبنگ ہو رہی ہے۔
اتنے میں پُتلی اسٹیج پر ٹھک سے پیلی اٹھکیلی وارد ہوتی ہے ۔ ’’کون ہے جو ہمیں للکارتا ہے، کس کی یہ ہمت کہ ہمارے آبائو اجداد کی بسائی اس بستی میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے ‘‘، پیلی اٹھکیلی لہک لہک کر پُتلی ا سٹیج کی ایک دیوار سے دوسری دیوار کی طرف دیوانہ وار دوڑتی ہے۔ ’’کون ہے یہ بدبخت !۔۔۔جو ٹھاکروں کی توہین کرتا ہے، کیا کسی نے اسکی اچھی پرورش نہیں کی؟ بڑے ٹھاکر کی تعظیم میں جو پوری بستی بچھی بچھی جاتی تھی، کون ہے جو انکے ذہنوں میں بغاوت کے بیج بو رہا ہے ؟اس بستی پر راج کرنا صرف بڑے ٹھاکر کے ہاتھوں کی لکیروں میں ہے ، کوئی بڑے ٹھاکر کے ہاتھوں کی لکیریں نہیں بدل سکتا، جس کسی کے دل میں بھی یہ توہین آمیز خیال پنپ رہا ہے، وہ جلد اپنے انجام کو پہنچے گا۔ ـ‘‘پیلی اٹھکیلی کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا اور وہ غصے میں آگے جھک جھک کر لاڈلے ٹھاکر کو س رہی تھی کہ اسکا ٹائم ختم ہو گیا۔
ــ’’نام ہے میرا پیلی کلی
نازنخروں میں ہو ںپلی
بچے بڑے نوٹ نکالیں
مداری بابا ،لو میں چلیـ‘‘
مداری بابا نے پیلی اٹھکیلی کو پُتلی اسٹیج سے اوپر کھینچ لیا۔ اور ساتھ ہی اوپر سے سفید پگڑ سر پر سجائے ، کالی پوشاک پہنے ، بڑی بڑی مونچھوں والا خیردین پنچائتی کو وارکر دیا۔جیسے ہی خیرو پنچائتی اسٹیج پر آ دھمکاتو پیچھے سے مداری نے اسکی دھمک کا اثر بڑھانے کیلئے پورے پُتلی ا سٹیج کو ایک جھٹکا دیا۔ ’’ہمارے ہوتے ہوئے اس بستی کے لوگ ظلم اور جبر سہہ رہے ہیں، اس پر ہم خاموش بیٹھے رہیں؟ساری بستی کا غلہ کہاں گیا، دن رات کام کرنے والے کسان بھوکے کیوں ہیں؟ لوگوں کی عزتیں کیوں محفوظ نہیں؟ غربت کے ہاتھوں لوگ مذہب اور اخلاقیات سے دور ہوتے جا رہے ہیں، اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں؟ہم یہ سے نہیں ہونے دیں گے۔ٹھاکر ہو یا اسکی بگڑی ہوئی اولاد ، ہم سب کو سیدھا کر دیںگے۔ـ‘‘خیرو پنچائتی ہاتھ پشت پر باندھے بڑے زور دار انداز میں اپنی گردن ساٹھ ڈگری پر اسٹیج کی جانب خلا کی طرف گھمائے لمبے لمبے وزنی قدموں کے ساتھ چل رہا تھا۔
’’خیر دین کا سب کو سلام
اتنا تھا بس میرا کام
بچے بڑے نوٹ نکالیں
مداری بابا کو پرنام ‘‘
ساتھ ہی مداری بابا نے خیرو پنچائتی کو پُتلی اسٹیج کے پچھلے پردے پر بنے ایک چبوترے پر براجمان کردیا اور کیدو نوٹنکیااور اسکی پتنی تتلی کو پُتلی اسٹیج پر اتار دیا۔ زرق برق لباس ، سرخی پوڈر لگائے کیدو نوٹنکیااپنی پتنی تتلی سے بھی زیادہ حسین لگ رہا تھا، وہ بڑے الحان سے نوٹنکی کرتا اور تتلی اسکو لقمہ دیتی۔ان دونوں نے مل کر ٹھاکر اور پیلی اٹھکیلی کے وہ وہ جھوٹے سچے کسب بیان کئے کہ ناظرین میں غصے کی لہر دوڑ اُٹھی۔ وہ کبھی غصے میں کانپنے لگتے اور کبھی شعر پڑھتے اور کبھی پھبتیا ں کستے۔ پُتلی تماشہ اپنے کلائمکس کی جانب بڑ ھ رہا تھا۔ مداری نے کیدونوٹنکیا اور تتلی کو اوپر کھینچ لیا اور ٹھاکر کو اسٹیج پر اتارا۔ اسکے بعد پروہت کی باری تھی، وہ اسٹیج پر آیا اور بڑی غضب ناک اور قہر انگیز باتیں کر کے اوپر اُٹھا لیا گیا۔ و ہ گیا ہی تھا ،ساتھ ہی اسٹیج پرایک پھن والاسانپ اور بڑا ٹھاکر آگرے۔ سانپ بڑے ٹھاکر پر حملے کرتا لیکن ٹھاکر کبھی ادھر کبھی ادھر چھلانگ لگاکر اپنا بچائو کرنے لگا۔ اتنے میں ٹھاکر نے اوپر ہاتھ اٹھایا تو اسکے ہاتھ میںایک بین لگ گئی۔ وہ بین بجانے لگااور سانپ اسکے قابو میں آنے لگا۔ ابھی یہ منظر جاری تھا کہ ہاتھ میں تلوار اٹھائے لاڈلا راٹھور اسٹیج پر اُترا، خیرو پنچائتی اب چبوترے سے اٹھ کر اسٹیج کی طرف آگے کو جُھک گیا، دھڑام سے کیدو نوٹنکی ، تتلی اور پروہت بھی اسٹیج پر آگرے۔ بڑاٹھاکر پریشان کھڑا رہا۔ پریشانی میں بین اسکے منہ سے گر پڑی تو سانپ سمیت ساری کٹھ پُتلیاں اس پر حملہ آور ہوئیں۔ اتنے میں اوپر سے پیلی اٹھکیلی بڑے ٹھاکر کو بچانے کیلئے اُتری اور ساتھ ہی پُتلی اسٹیج پر پردہ گر گیا۔
اسٹیج کے سامنے سکوں اور ایک ایک دو دو روپے کے نوٹوں کا ڈھیر لگ گیا۔ مداری بابا نے اپنی سائیکل کے پیچھے پڑی صندوقچی کا ڈھکن کھولا۔ مجمع چھٹنا شروع ہو گیاتھا۔اسٹیج کی کپڑے کی دیواروں کو سلیقے سے تہہ کیا، ایک ایک کٹھ پُتلی کو بڑی احتیاط سے صندوقچی میں مختص جگہ پر رکھا، ریل نکا ل کر ڈوریاں اس پر لپیٹ دیں۔ اتنے میں کالیا سکے اور نوٹ اکٹھے کر چکا تھا۔ مداری بابا نے گنے بغیر سارے پیسے جیب میں ڈالے ،صندوقچی کے اوپر سے ٹانگ گھما کر سائیکل پر براجمان ہوا، کالیا اس دوران چھلانگ لگاکر سائیکل کے اگلے ڈنڈے پر بیٹھ چکا تھا۔ مداری کی سائیکل شام کے دھندلکے میں گم ہونے لگی اور اس جانب سے آنے والی ہلکی ہلکی آواز مدھم ہوتی جا رہی تھی
ـ’’بچے ،بڑے نوٹ نکالیں
مداری بابا سب سے بھلاـ‘‘
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)