• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے صاحب سلامت کر کر آپس میں مل بیٹھتے ہیں۔ پھر دھیمی دھیمی بات چیت شروع ہوتی ہے۔ ایک کوئی بات کہتا ہے۔ دوسرا بولتا ہے واہ یوں نہیں یوں ہے۔ وہ کہتا ہے واہ تم کیا جانو۔ وہ بولتا ہے تم کیا جانو۔ دونوں کی نگاہ بدل جاتی ہے۔ تیوری چڑھ جاتی ہے۔ رخ بدل جاتا ہے۔ آنکھیں ڈراونی ہو جاتی ہیں۔ باچھیں چر جاتی ہیں۔ دانت نکل پڑتے ہیں۔ تھوک اڑنے لگتا ہے۔ باچھوں تک کف بھر آتے ہیں۔ سانس جلدی چلتا ہے۔ رگیں تن جاتی ہیں۔ آنکھ، ناک، بھوں، ہاتھ عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگتے ہیں۔ عنیف عنیف آوازیں نکلنے لگتی ہیں۔ آستین چڑھا، ہاتھ پھیلا، اسکی گردن اسکے ہاتھ میں اور اسکی ڈاڑھی اسکی مٹھی میں لپّا ڈکّی ہونے لگتی ہے…

یہ منظر ہے نامہذب لوگوں کی ایک مجلس کا، بیان کیا ہے سرسیداحمد خان نے اپنے مضمون بحث وتکرار میں۔ سرسید کو اس جہاں سے گزرے سو سے زیادہ سال ہوچکے۔تب ٹیلی وژن یا ریڈیو تو کیا ہونا تھااخبار بھی کم کم تھے اور ان میں بھی ابلاغ یک طرفہ تھا۔سوشل میڈیا بھی آپ جانیں بس کل ہی کی کہانی ہے، سو جیسا چوپال موبائل پراب سجتا ہے کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا ۔یوںمجلس کے مواقع فقط گلی کی نکڑ پرکسی درخت کے نیچے میسر آتے تھے یا زیادہ سے زیادہ کسی مباحثہ میں۔

سرسید نے اس منظر کی مماثلت کتوں کی مجلس میں ڈھونڈی تھی۔ مگر یہ کہہ کر کہ جس قدر تہذیب میں ترقی ہوتی ہے اسی قدر اس تکرار میں کمی ہوتی ہے۔ کہیں غرفش ہو کر رہ جاتی ہے تو کہیں تو تکار تک نوبت آ جاتی ہے۔ کہیں آنکھیں بدلنے اور ناک چڑھانے اور جلدی جلدی سانس چلنے ہی پر خیر گزر جاتی ہے۔ مگر ان سب میں کسی نہ کسی قدر کتوں کی مجلس کا اثر پایا جاتا ہے۔

یہ مکالمہ کا دور ہے۔ایسے لوگوں کے ساتھ مقابلے میں جن کے خیالات، اقدار اور عقائد مجھ سے مختلف ہو سکتے ہیں، مکالمہ ایک ایسے عمل کانام ہے جس کے ذریعے میں دوسروں کی زندگیوں، اقدار اور عقائد کو سمجھتا ہوں اور دوسرے میری زندگی،اقدار اور عقائد کو سمجھتے ہیں۔ اب ابلاغ یک طرفہ نہیں۔بات سے بات چلتی رہتی ہے۔مگربہت مرتبہ دیکھا ہے، اورایسا خاص طورپرسماجی رابطے کے ذرائع پہ دکھائی دیتا ہے، کہ بحث کج بحثی بنتی ہے، گالیاں شائستگی کی جگہ لے لیتی ہیں، ناپسندیدہ بات کہنے والے مقہورٹھیرتے ہیں۔

انسان شعور رکھتا ہے۔ انفرادی فکری وجود کا حامل ہونے کی وجہ سے منفرد استدلال، سوالات اور نتائج رکھتا ہے۔لڑائی کے ذریعہ آپ کسی کو قتل توکر سکتے ہیں مگر اس کی فکر کو نہیں مار سکتے۔عظیم عثمانی کہتے ہیں کہ بحث و جدال اور ‘مکالمہ’ میں بنیادی فرق اخلاص نیت کا ہے۔ مباحثہ میں اکثر آپ کی نیت ہر قیمت پر اپنی بات منوانا ہوتی ہے اور اس کے لئے مخاطب کی تذلیل و تحقیر سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔اس کے برعکس ‘مکالمہ’ ذاتی انا کو بیچ میں لائے بناحق بات کی تلاش کا نام ہے۔’مکالمہ‘ کے دوران مقابل کی بات کو دھیان سے سننے کے بجائے صرف سننے کی اداکاری کرنا سخت علمی بددیانتی ہے۔ ’مکالمہ‘ کا اسلوب شائستہ اور الفاظ کا انتخاب مہذب نہ ہو تو بات اکثر مثبت نتیجہ سے محروم رہتی ہے۔

خوب جان لیں کہ ‘مکالمہ’ کے دوران ہر وہ لفظ گالی شمار ہوگا جس سے مخاطب کی تحقیر و تذلیل مقصود ہو۔ اگر آپ ایسا کوئی بھی لفظ ادا کرتے ہیں جس کے ذریعے، سننے والے کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے، تو امکان ہے کہ اس پر گالی کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ اگر اس تعریف کو سمجھ لیں تو معلوم ہوگا کہ گالی صرف وہ الفاظ نہیں ہیں جنہیں معاشرے میں گالی سمجھا جاتا ہے بلکہ ایسے بہت سے الفاظ موجود ہیں جنہیں گالی کے طور پر ہم نے خود ایجاد کیا ہے۔کیوں نہ اختلاف کرتے ہوئے ہم کسی کے خیال پر تنقید کرنے اور خود اس فرد پر تنقید کرنے میں تمیز کریں ۔کیا بہتر نہ ہوگا اگردوسروں کے خیالات کا احترام کریں چاہے ہم ان سے متفق نہ بھی ہوں۔کیوں نہ اس بات پر اصرار نہ کیا جائے کہ لوگ ہمارے خیالات سے اتفاق کریں۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہماری عمر یا تجربہ کتنا ہے، ہم سب سیکھنا جاری رکھتے ہیں۔ ہم ہمیشہ ایک دوسرے سے سیکھ سکتے ہیں۔

لوگ صرف اسی وقت پھل پھول سکتے ہیں جب وہ محفوظ ہوں۔کیا ہی اچھا ہو اگر ہر کوئی جو مکالمے میں حصہ لیتا ہے محفوظ محسوس کرے۔

سرسید احمد خان ہی کے سنہری الفاظ میں جب تم کسی کے برخلاف کوئی بات کہنی چاہو یا کسی کی بات کی تردید کا ارادہ کرو تو خوش اخلاقی اور تہذیب کو ہاتھ سے مت جانے دو۔ اگر ایک ہی مجلس میں دو بدو بات چیت کرتے ہو تو اور بھی زیادہ نرمی اختیار کرو۔ چہرہ، لہجہ، آواز، وضع، لفظ اس طرح رکھو جس سے تہذیب اور شرافت ظاہر ہو مگر بناوٹ بھی نہ پائی جاوے۔ تردیدی گفتگو کے ساتھ ہمیشہ سادگی سے معذرت کے لفظ استعمال کرو مثلاً یہ کہ میری سمجھ میں نہیں آیا یا شاید مجھے دھوکا ہوا یا شاید میں غلط سمجھا، گو بات تو عجیب ہے مگر آپ کے فرمانے سے باور کرتا ہوں۔ جب دو تین دفعہ بات کا الٹ پھیر ہو اور کوئی اپنی رائے کو نہ بدلے تو زیادہ تکرار مت بڑھاؤ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین