پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافی امور طے کرنے، زندگی کے مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے، ایک دوسرے کے خلاف دراندازی کی الزام تراشی ختم کرنے ،خطے میں امن و سلامتی کو فروغ دینے مفاہمت و مصالحت کی فضا پیدا کرنے اور جنگ زدہ افغانستان کی تعمیر و ترقی کے لئے پاکستان کا بھرپور تعاون حاصل کرنے اور دونوں برادر ملکوں کے درمیان تصادم اور محاذ آرائی کی دونوں کے دشمنوں کی طرف سے تیار کردہ سازش کی تار بود بکھیر دینے کے لئے کچھ عرصہ قبل اعلیٰ امن کونسل کا قیام عمل میں آیا تھا جس میں دونوں ملکوں کی اہم شخصیات کو نمائندگی دی گئی۔ حال ہی میں اسلام آباد میں اس کونسل کے ایک اہم اجلاس میں کامیاب مذاکرات کے بعد رہائی پانے والے طالبان کو افغان سفارتخانے افغان پاسپورٹ بھی جاری کردئیے ہیں۔ مذاکرات کے نتیجے میں رہائی پانے والوں میں ملاعمر کے خصوصی مشیر عبدالاحد جہانگیر وال کابل کے سابق گورنر داؤد جیلانی طالبان کمانڈر انوار الحق مجاہد سید صلاح الدین حاجی قطب مولانا مطیع اللہ صوبہ مشرقی ننگر ہار کے سابق گورنر مولوی محمد کمانڈر امیر احمد گل صوبہ بغلان کے سابق گورنر عبدالسلام سابق وفاقی وزیر اللہ داد طیب سابق وزیر انصاف نور الدین ترابی شامل ہیں۔ طالبان کمانڈر انوار الحق مولوی یونس خالص کے بڑے صاحبزادے ہیں۔
دو طرفہ مذاکرات کے بعد جن طالبان رہنماؤں کو رہا کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد افغان سفارتخانے کی طرف سے پاسپورٹس بھی جاری کردئیے گئے، وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان افغان رہنماؤں نے جنہوں نے افغان جہاد کو کامیاب بنانے میں ایک موثر کردار ادا کرتے ہوئے اپنے اپنے گروپوں کی قیادت کی روسی فوجوں کے انخلاء اور افغانستان میں ایک عارضی حکومت کے قیام کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی اور مختلف گروپوں کے درمیان تصادم اور محاذ آرائی نے افغانستان کو شدید انتشار اورا فتراق کی بھٹی میں جھونک دیا۔ اس نے ان افغان رہنماوں اور مجاہدین کو پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور کردیا۔ افغان جہاد کے دوران پچاس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین نے پاکستان میں پناہ حاصل کی لیکن جہاد کے خاتمے کے بعد مختلف گروپوں کے درمیان محاذ آرائی کی وجہ سے یہ افغان مہاجرین واپس وطن جانے سے گھبراتے رہے، چنانچہ بے شمار خاندانوں نے قبائلی علاقوں صوبہ خیبر پختونخوا کے علاوہ پاکستان کے دوسرے صوبوں اور شہروں میں بھی مستقل رہائش اختیار کرنے کے علاوہ کاروبار بھی شروع کردیا۔بڑی تعداد میں ان مہاجرین نے پاکستان کے شناختی کارڈ ز بنوانے کے بعد خود کو پاکستانی شہری ثابت کرتے ہوئے بیرونی ممالک میں ملازمتیں بھی حاصل کیں اور وہاں کی شہریت بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس وقت بھی 35 لاکھ کے لگ بھگ افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں اور ملک میں جاری انتشار افراتفری اور نیٹو فورسز کی طرف سے شہریوں کو نشانہ بنانے کی وجہ سے آج بھی کئی افغان شہری ترک وطن کرنے کے بعد پاکستان کا رخ کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی شدید زخمی اور بیمار افراد بھی طبی سہولتوں کے حصول کے لئے پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں۔ دراصل ا فغان عوام کی اکثریت جان و مال کے عدم تحفظ کا بری طرح شکار ہے اور وہ جان بچانے کے لئے پاکستان کا رخ کرنے پر مجبور ہیں ۔جہاں تک نیٹو فورسز کی طرف سے افغان عوام کو نشانہ بنانے کا تعلق ہے تو خود صدر حامد کرزئی بھی اس کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے خلاف شدید احتجاج کرچکے ہیں اور انہوں نے سکول کے طلبا اور طالبات پر نیٹو فورسز کی بمباری کے ایک المناک سانحہ کے بعد کہا تھا کہ افغان بچوں نے سکولوں میں جانا چھوڑ دیا ہے۔ دراصل افغان عوام نے اپنے روایتی اور قبائلی مزاج کے پیش نظر ملک میں نیٹو فورسز کی موجودگی کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ان پر جو حملے شروع کررکھے ہیں صدر حامد کرزئی اور ان کے ساتھی بھی اسے پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر پاکستان پر در اندازی کا مضحکہ خیز الزام لگانے میں مصروف ہیں حالانکہ پاکستان نے پاک افغان سرحد پر دراندازی کو روکنے اور خاص طور پر منشیات کی سمگلنگ پر قابو پانے کے لئے صوبہ پختونخوا سے لے کر بلوچستان تک پاک افغان بارڈر پر سینکڑوں چیک پوسٹیں قائم کر رکھی ہیں جبکہ افغانستان کی طرف سے صرف ایک درجن کے لگ بھگ چیک پوسٹیں قائم کی ہیں۔ پاکستان نے افغانستان کی تعمیر و ترقی کے لئے کروڑوں ڈالرز فراہم کرنے کے علاوہ فنی ماہرین کی خدمات بھی فراہم کی ہیں۔امریکہ افغانستان میں زبردست جانی اور مالی نقصان کے بعد2014تک افغانستان سے نکل جانے کا عندیہ دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ وہ افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑے گا ۔امریکہ کے کئی اتحادی افغانستان سے اپنی فوج واپس بلا چکے ہیں اور برطانوی وزیر خارجہ نے دو ٹوک انداز میں امریکہ پر واضح کیا ہے کہ اسے افغانستان سے واپس جانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ نیٹو فورسز افغانستان کے بے گناہ عوام کو نشانہ بنانے کے بعد یہ رٹ لگانا شروع کردیتی ہیں کہ انہوں نے اتنی تعداد میں طالبان کو ہلاک کردیا ہے۔ دراصل یہ وہ ا فغان شہری ہوتے ہیں جو اپنے وطن میں امریکی افواج کی موجودگی کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں اس لئے کہ افغان عوام نے آج تک کسی غیر ملکی قوت کے تسلط کو تسلیم نہیں کیا۔ انتہا یہ ہے کہ افغان فوج کے کئی اہلکار امریکی افواج کو نشانہ بنا چکے ہیں اور ان کے ہاتھوں کئی امریکی ہلاک ہوچکے ہیں۔ دراصل افغانستان کے خلاف 9/11کی آڑ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے میں افغانستان کو ملوث قرار دینا نہ صرف افغانستان بلکہ پورے عالم اسلام کے خلاف ایک گھناؤنی سازش کا حصہ تھا ۔ جب ملا عمر نے ا فغانستان میں اقتدار سنبھالا تو انہیں افغان عوام کی طرف سے زبردست پذیرائی اور تعاون حاصل ہوا۔ انہوں نے افغانستان میں شرعی قوانین کے نفاذ سے نظام خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا اور ایک نہایت مختصر عرصے میں افغانستان امن و امان کا گہوارہ بن گیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے یہ صورتحال ناقابل برداشت تھی، وہ سمجھتے تھے کہ افغانستان کا یہ جذبہ ان چھ وسط ایشیائی ریاستوں سے ہوتا ہوا جنہیں 70 سال بعد روس کی غلامی اور کمیونزم سے نجات ملی تھی اگر مشرقی یورپ تک پہنچ گیا تو اس سیلاب کو روکنا اور اسلام کے تسلط اور اسلامی تعلیمات کے فروغ پر قابو پانا ممکن نہیں رہے گا۔اس طرح پورا مشرقی یورپ اسلامی تعلیمات کی لپیٹ میں آجائیگا۔امریکہ اسرائیل اور پورے عالم کفر کی اس سازش کا مقابلہ کرنا اور اسے ناکام بنانا پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ امریکہ صرف افغانستان ہی نہیں پاکستان کو بھی ہدف بنانا چاہتا ہے اور بالخصوص پاکستان کا ایٹمی پروگرام اس کی نگاہوں میں بری طرح کھٹک رہا ہے۔ اس طرح ایران کا ایٹمی پروگرام بھی اسرائیل اور امریکہ کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ اسرائیل تو ایران پر حملہ کرنے کی مسلسل دھمکیاں دے رہا ہے، بعض مبصرین کے مطابق غزہ پر اسرائیلی حملوں کا سلسلہ دراز تر ہوتا ہوا ا یران کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتا دکھائی دیتا ہے لہٰذا اس پس منظر میں موجودہ افغان حکومت کو نہ صرف پاکستان کے خلاف مضحکہ خیز الزام تراشی بند کرنی چاہئے بلکہ پوری امت مسلمہ کو اسلام دشمن طاقتوں کے عزائم کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی بقاء و سلامتی کی فکر کرنی چاہئے۔ پوری امت مسلمہ متحد ہو کر ہی اپنے دشمنوں سے نمٹ سکتی ہے۔ اس کے اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو فعال بنانے کی اشد ضرورت ہے۔افغانستان کی امن کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی نے مزید افغان قیدیوں کی رہائی پر زور دیا ہے، انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے ،یہ افغان طالبان جان و مال کا تحفظ چاہتے ہیں ۔صرف اسی طرح وہ افغانستان میں قیام امن کے لئے حکومت کی مدد کرسکتے ہیں ،چنانچہ افغان طالبان کی طرف سے رہائی کے اقدام کی تعریف کرتے ہوئے اسے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے فروغ کا موثر ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔