• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیا پاکستان۔کیا وائسرائے سسٹم ختم ہو سکے گا؟؟

الحمدللہ سکول سے یونیورسٹی تک زمانہ طالب علمی بڑا بھر پور گزرا۔تمام معاملات میں سرگرم رہنے کی وجہ سے سکول‘کالج اور یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ضلعی‘پولیس انتظامیہ سے بھی گاہے گاہے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔زمانہ طالب علمی میں ہی ایک قومی اخبارمیں نوجوانوں کےصفحہ پرمسلسل لکھنے کا اعزاز حاصل رہا،بہائوالدین زکریایونیورسٹی کے سالانہ میگزین کامدیر اعلیٰ بننے کا فخر بھی مجھے حاصل ہے۔پھرایم اےماس کمیونیکیشن کے دور میں دوستوں کے ہمراہ امداد باہمی سے ایک اخباربھی نکالاکرتے تھے۔ بعد ازاں شام کو ایک قومی روزنامہ کے بیورو آفس جاکر پریس ریلیزبنانے کے ساتھ ساتھ دیگرخبروں پر بھی ہاتھ صاف کرنے کا بھرپورموقع ملا۔اس دوران مظہر خان صاحب جیسے مہربانوں کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔ 1996کے اوائل میں باقاعدہ ایک قومی اخبار میں ٹرینی رپورٹرکےطور پر نوکری مل گئی،تنخواہ اگرچہ قلیل تھی لیکن خوشی اس بات کی تھی کہ اب بھر پور کام کرنے کا موقع ملے گا۔

اس دوران اللہ کی مہربانی سے ترقی کے مراحل طے ہوتے گئے۔رپورٹر‘ڈپٹی چیف رپورٹراورچیف رپورٹر کےطور پر کام کرنے کا موقع ملا‘پہلی نوکری ہاتھ سےچھوٹی تو پھر مختلف اخبارات میں بیوروچیف‘چیف رپورٹر اور ڈپٹی ایڈیٹرکے طور پر کام کیااس دوران وہی پُرانے اخبار میں بطور ڈپٹی ایڈیٹر واپسی ہوئی جہاں سے کیرئیر کا آغاز کیا تھا بعد میں جوائنٹ ایڈیٹر بنا دیاگیااور اب گیارہ سال سے روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوں۔اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ میں اپنے پڑھنے والوں کو بتا سکوں کہ صحافت کا سارا سفر مسلسل ہنگامہ خیزرہا اور میں بند کمرے کی صحافت کی بجائے متحرک صحافت کا طالب علم رہا ۔ باقاعدہ رپورٹنگ کا آغاز کیا تو کورٹس اور ضلعی انتظامیہ کی بیٹ ملی اور پھر یہ سفر تمام قسم کی رپورٹنگ سے جڑا رہا ۔حتٰی کہ میں کوہ سلیمان کے سنگلاخ پہاڑوں میں ڈاکوئوں اور اغواء برائے تاوان کا بہت بڑا نیٹ ورک چلانے والے بوسن گینگ کے ٹھکانوں تک جا پہنچا ۔جہاں پر نہ صرف ان کے انٹرویوز کیے بلکہ مغویوںکی تصویریں بھی بنائیں۔ اسی طرح دریائے سند ھ کے ’’کچے‘‘میں آباد چھوٹو گینگتک رسائی ہوئی اور ان جرائم پیشہ لو گو ں کے بھی انٹرویو کیے کہ وہ کیسے جرائم کی دنیا میں آئے۔کورٹس اور ضلعی انتظامیہ کی بیٹ کے دوران بہت سے مہربانوں سے سیکھنے کا موقع ملا ۔جن میں سرفہرست مسٹر جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے،مسٹر جسٹس جواد ایس خواجہ،مسٹر جسٹس راجہ محمد صابر،مسٹر جسٹس ریاض حسین،مسز جسٹس فخرالنساءکھوکھر،مسٹر جسٹس نسیم چوہدری،مسٹر جسٹس زاہد حسین کے نام آتے ہیں۔ اسی طرح ضلعی اور پولیس انتظامیہ کے بھی بہت سے لوگوں جن میں ڈی آئی جی شوکت جاوید،مشتاق وڑائچ،احمد رضا،جنیداقبال چوہدری،ڈاکٹر ریاضمیمن،سیف اللہ چٹھہ،علی اکبر بھٹی،حافظ محمد الیاس اور دیگربہت سے افسران سے ملاقاتیں رہیں۔ یہ وہ دور تھا کہ جب افسران اور صحافیوں کا چولی دامن کا ساتھ ہوا کرتا تھا۔ان احباب سے نہ صرف دفاتر میں گپ شپ ہوتی بلکہ گھروں تک میںآنا جانا تھا، نہ تو افسران صحافیوں سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے اور نہ صحافیوں کو آفیسرز تک رسائی میں کسی قسم کی دشواری تھی ۔اُن ملاقاتوں کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہوتا تھا کہ خبر لینے اور خبر دینے کا کام رُک جائے۔ رپورٹنگ بھی بڑی دبنگ ہوتی تھی لیکن ان میں جھوٹ کا شائبہ تک نہیں تھا کیونکہ اساتذہ نے بتایا تھا کہ’’جھوٹ لکھنے سے تحریر کی برکت‘‘ختم ہوجاتی ہے۔آفیسرز کے ساتھ میٹنگ میں سیکھنے سکھانے کا موقع بھی ملا ۔ایک دوسرے کے تجربات اور اطلاعات سے باہمی فائدہ اُٹھایا جاتا بہت سے معاملات میں سیر حاصل بحث مباحثہ ہوتا اور یوں خبر لینے اور خبر دینے میں مزہ آتا تھا۔لیکن آہستہ آہستہ یہ کوآرڈی نیشن ختم ہوتی گئی،حکمران بھی تبدیل ہوگئے حکمرانوں کے مزاج کے ساتھ ساتھ افسروں کی تعیناتیوں کےمعیار بھی بدلتے گئے۔رفتہ رفتہ ایسے حکمران آتےگئے جنہیں دبنگ‘ غیرت مند اور ایماندار افسران کے بجائے ایسے آفیسر پسند آنے لگ گئے کہ جو کام سے زیادہ چاپلوسی‘جی حضوری اور اوپر تک مال پہنچانے والے تھے او ر یوں وہ افسران کہ جن کی تعیناتی کا معیار صرف اور صرف میرٹ ہوتا تھا وہ اوایس ڈی بنائے جانے لگے۔ ایک اور ظلم یہ ہوا کہ نئے آنے والے حکمرانوں تک ایم این ایز اور ایم پی ایز کی رسائی ختم ہوتی گئی۔ پتہ چلا کہ وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ ماسوائے چنداراکین اسمبلی کے دیگر اراکین سےملنا پسند ہی نہیں کرتے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اراکین اسمبلی کو بیوروکریسی کامرہون منت ہونا پڑا اور بیوروکریسی بھی وہ جو حکمرانوں کی چاپلوسی کرنے والوں پر مشتمل ہوتی۔ اس بیوروکریسی نے اراکین اسمبلی کو گھاس ڈالنا بھی پسند نہ کیا تو یہ اراکین اسمبلی جنہیں اپنے حلقہ کے لوگوں کے کام کروانےہوتے تھے اس بیوروکریسی کے تلوے چاٹنے پر مجبور ہوتے چلے گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیوروکریسی کی گردنوں میں بتدریج سریا آنا شروع ہوگیا۔ دربانوں کو سخت ہدایات جاری کردی گئیں کہ ہر آنے والے کو انتظار کروایا جائے اور یوںسائلین اور عوامی نمائندوں کو گھنٹوں’’دربار‘‘کے باہربیٹھے رہنا پڑا ۔سریا مزید مضبوط ہونے لگا۔اب یہ بیوروکریسی سوائے ٹھیکیداروں‘قبضہ گروپوں اور بھتہ خوروں میں سے کسی کو اہمیت نہیں دیاکرتی تھی، لیکن اس نئے طرز کی بیوروکریسی نے’’اوپر‘‘تک ہرقسم کی رسائی جاری و ساری رکھی۔اس سے آگے اور دور شروع ہوا کہحاکموں نے سینئر افسروں کو عوام اور کیمروںکے سامنے بے عزت کرنا شروع کردیا جس سے غیر ت مند افسران ہمہ قسم پوسٹنگ لینے سے کترانے لگے،قصور اے ایس آئی کا ہوتا سزا آر پی آو‘ڈی پی او کو ملنے لگی۔ایماندار آفیسر بالکل کنارہ کش ہونے لگے اور نا اہل بیوروکریسی کا راج مکمل طور پر قائم ہوگیا اور انہوں نے اپنےآپ کو سول سرونٹس کے بجائے’’وائسرائے‘‘سمجھنا شروع کردیا۔سرائیکی وسیب جسے عرف عام میں’’ جنوبی پنجاب‘‘ کہتے ہیں میں وائسرائے سسٹم کچھ زیادہ ہی آب و تاب سے جگمگانے لگا۔افسروں تک رسائی نا ممکن ہوکر رہ گئی جو ابھی تک باقی ہے۔عوامی مسائل کا حل ایک خواب بن گیا کوئی ایسا میگا پروجیکٹ نہیں جس میں کرپشن کے الزامات نہ لگے ہوں،تمام ارکان اسمبلی بیوروکریسی کے سامنے بھیگی بلی بنے رہے۔ موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بُزدار ذاتی طور پر اس بات سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ اس نظام کو خود بھگت چکے ہیں کہ’’ جنوبی پنجاب کے وائسرائے‘‘کس طریقہ سے حکمرانی کرتے رہے ہیں۔ صحافیوں اور میڈیا سے چھپنے والے یہ آفیسر فون تک سننا گوارا نہیں کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے افسران کے دفاتر کے سامنے خود سوزیاں کیں، لوگوں نے اپنے گلے میں پھندے ڈالے، از خود نوٹس بھی لیے جاتے رہے۔اخبارات اور ٹی وی چینلز بھی مسلسل چیختے رہے لیکن’’ وائسرائے نظام‘‘ نہ بدلا اورپورے زور سے جاری ہے اب جبکہ پاکستان میں ایک’’ نیا پاکستان‘‘ بن گیا ہے تو توقع کی جارہی ہے کہ افسروں کا انتخاب میرٹ پر کیا جائے گا ۔ہم امید کرتے ہیں کہ سرائیکی وسیب میں تعینات کیے جانے والے افسران پبلک سرونٹس ہوں گے‘اور ان سرونٹس کیشامیں اہل علم و دانش عوام اور عوامی نمائندوں کے ساتھ گزریںگی نہ کہ ٹھیکیداروں اوربھتہ مافیا کےارکان کے ساتھ۔ سرکاری دفاتر کے باہر لمبی لائنیں نہیں لگیں گی، حکمران ارکان اسمبلی کو مناسب وقت دیں گے تا کہ وہ وائسرائوں کے ترلے منتیں نہ کریں اور اراکین اسمبلی سے بھی امید ہے کہ وہ بیوروکریسی کی چاپلوسی کے بجائے ان کی نگرانی کرینگے اور عوام کے حقیقی نمائندے بن کر ان کے مسائل حل کریں گے۔

تازہ ترین