• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عزیزہ انجم،کراچی

مکّہ کی سنگلاخ پہاڑوں سے گِھری وادی میں طلوع ہونے والا آفتاب، مدینہ کی پُربہار بستی میں آب و تاب کےساتھ چمک رہا تھا۔ ہدایت کی کرنوں سے ایک جہانِ روشن آباد تھا۔ کاشانۂ نبوتﷺ سے فیض اُٹھانے والوں میں مَرد و خواتین دونوں شامل تھے۔ وحیٔ الہٰی کی روشنی میں زندگی کو نئے حُسن اور سلیقے سے ترتیب دینے کا کام جاری تھا۔سورئہ احزاب اور سورئہ نور کی آیات نازل ہوتی ہیں۔ مسلمان خواتین کو حکم ملتا ہے کہ جاہلیت کی سی سج دھج، اپنا بنائو سنوار نہ دکھاتی پھریں اور گھر سے باہر کی دنیا میں نکلتے وقت اپنی اوڑھینوں کے پلّو اپنے سَروں سے ٹکالیں اور اپنے سراپے کو حیا کی چادر میں مستور کرلیں۔ تاریخ حیران رہ جاتی ہے کہ ایمان و اطاعت کا چراغِ روشن تھامنے والی خواتین، عمل کا بے مثال نمونہ بن جاتی ہیں۔ کوئی وقت نہیں لگتا، دیر نہیں ہوتی، کوئی تاویل عذر یا جواز نہیں رکھا جاتا اور دَورِ نبوی ﷺکی وہ عظیم عورتیں کمر کے گرد بندھی چادروں اور دوپٹّوں سے اپنے آپ کو ڈھانک لیتی ہیں۔تاریخ کی یہ بھی گواہی ہے کہ حجاب اور چادر کو لباس کا حصّہ بنانے والی خواتین خواہ قرونِ اولیٰ کی ہوں یا آج کی جدید دنیا کی، انہوں نے تہذیب کو حیا کا رنگ دیا، نسوانیت کو وقار سے آراستہ کیا، زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دئیے اور ہمّت و جرأت کی بے مثال داستانیں رقم کیں۔

امہات المومنین میں حضرت عائشہؓ ، حضرت حفصہؓ، حضرت اُمِ سلمہؓ کا نام، ممتاز علمی شخصیات کا نام ہے، جنہوں نے اپنے وقت کے نام وَر صحابہؓ کو تعلیم دی، احادیث کی روشنی میں زندگی کے نقوش متعین کیے اور آنے والے دَور کے لیے علم و عمل کی ایک دنیا آباد کی۔ حضرت زینبؓ بنتِ علیؓ نے شام کے دربار میں حکومتِ وقت کے ظلم و جبر کے خلاف آواز بُلند کی اور چادر اور حجاب کو جرأت مند خواتین کے لیے اعزاز بنادیا۔حضرت خولہ بن ازروؓ ممتاز بہادر صحابیہ کے بھائی کو دشمن گرفتار کرکے لے گئے۔ حضرت خولہؓ نے سپاہیوں والا لباس پہنا، خود کو مکمل نقاب میں چُھپایا، گھوڑے کی باگ تھامی، بہادری سے دشمنوں سے نہ صرف مقابلہ کیا، بلکہ اپنے گرفتار بھائی ضرارؓ کو چھڑوانے میں کام یاب بھی ہوئیں۔

عہدِ نبویﷺ ہو، دورِ صحابہؓ یا پھر اس کے بعد کے ادوار باعمل، باشعور، باحجاب خواتین نے علم و ہنر میں کمال حاصل کیا، تعلیم و تدریس کے فرائض انجام دئیے۔ طب و جرّاحت، سپاہ گری و شہسواری میں استعداد حاصل کی اور معاشرے کو بہتر بنانے میں اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کیا۔مسلمانوں کے دَورِ عروج کا ایک ممتاز نام، زبیدہ خاتون کا ہے۔ ترقی یافتہ اور اپنے عہد میں خوش حالی و ترقی میں بے مثال بغداد کے حکم ران ہارون الرشید کی اہلیہ، زبیدہ خاتون ایک باشعور اور زیرک خاتون تھیں۔ وہ عوامی بہبود کے کاموں میں اپنے شوہر کے ساتھ عملاً شریک ہوتیں۔بغداد اور عرب کے درمیان بنائی جانے والی نہرِ زبیدہ، عوامی فلاح کے لیے ان کی خدمت کا ایک بڑا نمونہ ہے۔برّصغیر کی سیاسی تاریخ میں ’’بی امّاں‘‘ ایک بہادر، پُرعزم ماں اور آزادی کی جدوجہد میں عملاً شریک جرأت مند خاتون تھیں۔ سیاہ برقعے اور نقاب میں ملبوس بی امّاں نے محمّد علی جوہر اور شوکت علی کو خلافت پر جان دینے کا حوصلہ دیا۔نیز، ان کی سیاسی جدوجہد میں بھی برابر کی شریک رہیں۔ اور ان کا سَر تا پا سیاہ برقعے میںملفوف وجود روشنی کا مینار بنا رہا۔

دَورِ جدید میں مشرق ہو یا مغرب، باحجاب مسلمان خواتین ہر شعبۂ زندگی میں پیش پیش ہیں۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں طب و جرّاحت، تعلیم و تدریس، تحریر و تقریر، صحافت و ادب، سماجی خدمات، انسانی حقوق کی بحالی غرض ہر میدان میں باحجاب مسلم خواتین قابلِ ذکر کردار ادا کررہی ہیں۔برطانیہ، فرانس، جرمنی سمیت تقریباً تمام یورپی مُمالک اور امریکا میں اسلام قبول کرنے والوں میں خواتین کی اکثریت ہے اور نو مسلم خواتین، اسلامی تہذیب کی اس علامت کو فخر کے ساتھ اختیار کررہی ہیں۔ شرق ہو یا غرب، روشن ورخشاں، نیرّ و تاباں ہے حجاب۔ ممتاز برطانوی صحافی ایوان ریڈلی، جنہوں نے افغانستان میں قید و بند کی صعوبت برداشت کی، اُن کی کتاب ’’وہ نیلی آنکھوں والے‘‘ بیسٹ سیلر کتاب ہے۔ ایوان ریڈلی، حجاب کے ساتھ آج انسانی حقوق کے ضمن میں مغربی میڈیا کی ایک مضبوط آواز ہیں، خصوصاً شام کے حوالے سے انہوں نے ہر پلیٹ فارم پر آواز اُٹھائی۔ پھر جرمنی کی شہیدئہ حجاب ’’مروہ‘‘ اور حال ہی میں فلسطین میں شہید ہونے والی باحجاب نرس رزان النجار(Razan Al-Najar)جو طبّی خدمات انجام دیتے ہوئے اسرائیلی بم باری سے شہید ہوئیں۔بہت روشن مثالیں ہیں۔ اسی طرح ترکی کی خاتون اوّل، وقار و سادگی کا پیکر، جدید لباس کے ساتھ حجاب میں ملبوس، اسلامی نشاۃِ ثانیہ کی علامت بن کر اُبھری ہیں۔روہنگیا کے مسلمانوں کا المیہ ہو یا شام کے مظلوم مسلمانوں پر ہونے والا ظلم، ترکی کی باحجاب خاتونِ اوّل اپنے شوہر اُردگان کےساتھ ہر محاذ پر موجود نظر آئی ہیں۔ گویا بین الاقوامی فورمز پر مسلمان خواتین کی نمائندہ ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ باعمل، باوقار، باشعور مسلمان خواتین کی بڑی تعداد حجاب اور چادر کی مسلم تہذیبی روایت اور اسلامی معاشرتی طریقۂ زندگی پورے فخر کے ساتھ اپنا کر بھی معاشرے کا متحرک حصّہ ہیں اور ہمّت و جرأت کی نئی نئی داستانیں رقم کررہی ہیں۔بلاشبہ مسلم معاشرے کی خواتین کی اپنی ایک پہچان، ایک تعارف ہے اور اس پہچان کو ہر صورت قائم رہنا چاہیے۔

تازہ ترین