• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں انتخابات کی چاپ سنائی دینے لگی ہے۔ حکومت کا وقت پورا ہورہا ہے اور دنیا کی نظریں پاکستان پر پڑنے لگی ہیں۔میونخ سے میرے ایک جرمن دوست کا فون آیا۔ اُس نے مجھ سے پوچھا ”پاکستان میں کون سا نظام ہے‘صدارتی یا پارلیمانی؟ آمریت یا جمہوریت؟“ وہ غالباً اپنے ریڈیو شو کے لئے معلومات حاصل کر رہا تھا۔ اس نے مجھے چار آپشن دیئے لیکن میں نے اس کو جو جواب دیا اس سے ایک لمحے کو وہ سنّاٹے میں آگیا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ پاکستان میں بادشاہت کا نظام قائم ہے۔ کافی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے پوچھا ”پاکستان کا بادشاہ کون ہے؟“ میں نے اسے بتایا کہ پاکستان میں ہر شخص بادشاہ ہے۔ ہر شخص کی اپنی بادشاہی ہے، ہر شخص کا اپنا قانون ہے۔ ہر شخص اپنی بادشاہت میں مگن ہے ۔ ہر شخص کا مزاج شاہانہ اور دیکھا جائے تو پاکستان میں ہر شخص کو استثنیٰ حاصل ہے۔ اس کے بعد والٹر نے ایک سوال کیا ”یہ بتاؤ اتنے زیادہ بادشاہ ایک ملک میں کیسے حکومت کرسکتے ہیں؟“ میں نے کہا ”دنیا میں کہیں اور ایسا ہوسکتا ہے یا نہیں‘ لیکن پاکستان میں ایسا ہورہا ہے اور پاکستان کے سارے بادشاہ لوگ اپنی اپنی بادشاہت میں مزے سے حکمرانی کر رہے ہیں“۔ والٹر پہلے تو یہ سمجھا کہ میں مذاق کر رہا ہوں لیکن مزید گفتگو کے بعد اسے یہ یقین ہوگیا کہ میں بڑی سنجیدگی سے اس کو معلومات فراہم کررہا ہوں تو اس نے ایک سوال کیا ”یہ بتاؤ کیا دنیا میں کسی مہذب ملک میں یہ ممکن ہے کہ اس پر بہت سے بادشاہ مل کر حکمرانی کریں؟“ والٹر کا یہ سوال مجھے تلخ سا لگا اس لئے میں نے اس کو جواب دیا ”پاکستان جنگل نہیں ہے، کیونکہ جنگل ہی میں صرف شیر نامی ایک جانور اکیلا بادشاہ ہوتا ہے“۔
آخر میں والٹر نے کہا ” تم جو کہہ رہے ہو کہ پاکستان کا ہر شخص بادشاہ ہے تو کیا تمہیں پورا یقین ہے کہ ایساہی ہے۔“میں نے کہا ” ہاں!“ اس کے بعد والٹر نے پوچھا پھر انتخابات میں کیاہوگا؟” میں نے کہا”بادشاہ لوگ بادشاہوں کا انتخاب کریں گے“۔والٹر سے جب گفتگو ہورہی تھی تو میرے دو دوست میرے پاس بیٹھے تھے۔ فون بند ہونے کے بعد ایک دوست نے پوچھا ”کیا تم یہ بات سنجیدگی سے کہہ رہے تھے؟“ میں نے کہا ” ہاں! کیا ہم لوگ بادشاہ لوگ نہیں ہیں؟“ میرے دوست نے کہا ”تو کیا بادشاہ ‘ بادشاہوں کو ووٹ ڈالیں گے؟“ میں نے اپنے دوست سے کہا ”کیا ایسا ہوتا نہیں ہے؟ کیا ہم نے ہرالیکشن میں بادشاہ منتخب نہیں کئے؟ ہم ایسے بادشاہ ہیں کہ اپنا ووٹ ہم اس طرح دیتے ہیں جیسے سائل کو بخشش دے رہے ہوں۔ بعد میں کوئی پوچھے کہ یہ کیا کیا بادشاہو؟ تو کہتے ہیں یارہم بادشاہ لوگ ہیں، ہمارے سب انداز شاہانہ ہیں“۔
پاکستان کے فلمی گانوں تک میں ہماری بادشاہت کا اظہار ہوتا ہے۔ آپ نے وہ گانا بارہا سنا ہوگا۔”یار بادشاہ! دلدار بادشاہ!مینوں تیرے نال ہویا اے پیار بادشاہ“اور وہ نغمہ تو آپ نے بارہا گنگنایا بھی ہو گا” تم بادشاہِ حُسن ہو‘ حُسنِ جہاں ہو“۔ پاکستان میں لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو پوچھتے ہیں”کیا ہو رہا ہے بادشاہو؟“ کئی جگہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو دعائیہ نعرہ لگاتے ہیں ”بادشاہی سلامت !!!“کئی جگہ ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہوئے”بادشاہ یا باچہ“ کہا جاتا ہے۔ کئی لوگ کوئی واقعہ بیان کرتے ہوئے اپنی بادشاہی کا تذکرہ کرتے ہیں۔”یار ہم بھی بادشاہ لوگ ہیں۔ جب وہ شخص ہم سے قرض مانگنے آیا تو ہم نے سوچا ہی نہیں بس فوری پیسے دے دیئے“۔
پاکستان میں بادشاہوں کو آپ جگہ جگہ حکمرانی کرتے دیکھ سکتے ہیں۔ سڑکوں‘ بازاروں ‘ محلوں ‘دفتروں‘ کارخانوں میں بادشاہی بادشاہ نظر آئیں گے۔ سڑک پر ہر موٹر سائیکل سوار کی اپنی بادشاہی ہے۔اپنا قانون ہے۔ ٹریفک سگنل کو اس کا شاہانہ مزاج قبول ہی نہیں کرتا۔ون وے میں اس کو استثنیٰ حاصل ہے۔ وہ جس جگہ چاہے بائیک پارک کردے۔ ٹریفک جام کی کیفیت آجائے تو یہ فٹ پاتھ پر گھوڑے دوڑا دے۔ کئی بادشاہ کاروں میں سفر کرتے نظر آئیں گے۔ان کا بھی اپنا قانون، اپنا مزاج۔ باشاہوں کی ورائٹی میں ایک دکاندار بادشاہ ہیں۔ یہ صبح دکان کھولتے ہی فُٹ پاتھ کو فتح کرلیتے اور اپنی سلطنت کا سازوسامان اس پر پھیلادیتے ہیں۔ یہا ں آپ کو ملاوٹ کے بادشاہ بھی ملیں گے‘ بلیک مارکیٹنگ کے کنگ بھی نظر آئیں گے اور اسمگلنگ کے راجاؤں کی خبر بھی ملے گی۔ سرکاری ملازم بھی انوکھے بادشاہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ سرکاری دفتروں میں اپنا دربار سجاتے ہیں۔ کہنے کو یہ سرکاری ملازم ہوتے ہیں لیکن ہوتے یہ بادشاہ ہی ہیں۔ اپنی مرضی کے مطابق دفتر آتے ہیں۔اپنی مرضی کے مطابق دفتر سے کوچ کا نقارہ بجاتے ہیں۔ کام کریں یا نہ کریں، یہ ان کے شاہانہ مزاج پر منحصر ہے۔ دفتروں میں کئی کلرک بادشاہ ہوتے ہیں۔ یہ ایسے بادشاہ ہوتے ہیں کہ اگر کوئی فائل گم کردیں تو افسر کی سٹی گم کردیتے ہیں۔ اور افسر بادشاہ اِس بادشاہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ہمارے حکمرانوں کے بارے میں کئی لوگ شکایت کرتے ہیں کہ وہ منتخب ہوتے ہی بادشاہ بن جاتے ہیں۔ یہ شکایت اس لیے بجانہیں ہے کہ قدرت کا ایک اصول ہے کہ جیسا دودھ ہوگا ویسی کریم آئے گی۔ اب جب ملک میں بادشاہ ہی بادشاہ ہیں تو ان کے حکمران بھی بادشاہ ہی ہوں گے۔اور بادشاہ ہر قانون سے بالاہوتا ہے۔جو وہ کہے وہی قانون۔ جو وہ کرے وہ صحیح ۔ اس کو ہر چیز میں شاہانہ انداز اختیار کرنے کی اجازت۔ عوام نے اگر کسی بادشاہ کو صدر کا نام دے کر منتخب کیا تو وہ اپنے تمام اطوار شاہانہ ہی رکھے گا۔ اس کے اخراجات شاہانہ اس کے جلوس شاہانہ ۔اس کی سیکورٹی شاہانہ۔اس کی دعوتیں شاہانہ اس کا ہر دم بڑھتا ہوا خزانہ۔ اور پھر وہ خزانہ جہاں چاہے‘ جس بینک میں‘ جس ملک میں چاہے رکھے وہ بادشاہ ہے۔ وہ اگر ملک اور عوام کی بھلائی کاکوئی کام نہ بھی کریں تواس سے سوال نہیں ہوسکتا۔کیوں کہ بادشاہ سے پوچھ گچھ نہیں کی جاسکتی۔
پاکستان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے کہ یہاں بادشاہ تو بادشاہ ہوتا ہے‘ اس کا وزیر اعظم بھی بادشاہ ہوتا ہے۔ سوٹ پہ سوٹ منگواتا ہے۔ کاروں پہ کاریں۔ دورے پر دورے اور سارے دورے شاہانہ۔ وزیر اعظم جو چاہے کرے وہ بادشاہ ہے۔ اور بات یہاں ختم نہیں ہوتی ۔ پاکستان میں ہر وزیر بھی بادشاہ ہوتا ہے۔ اس کے بھی سارے فیصلے شاہانہ اس کے تمام انداز شاہانہ ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ہر اسمبلی ممبر بھی بادشاہ ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کے شب وروز کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ بادشاہ نہیں ہیں؟
ہم پاکستان کے تمام بادشاہ ایک بار پھر انتخابات نامی شاہانہ تفریح کرنے جارہے ہیں اور اس میں ہم ایک بار پھر اپنے بادشاہوں کا انتخاب کریں گے۔ اور جب انتخابات مکمل ہوجائیں گے تو بادشاہی سلامت!!تاج قائم رہے!!! دربار سجا رہے!!!کے نعرے لگائیں گے۔
تازہ ترین