• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’’تلیدہ تمر‘‘ سعودی عرب کی پہلی سپر ماڈل کی کامیابی کا سفر

محمد بن سلمان کے سعودی عرب کے طاقتور ولی عہد بن کر سامنے آنے کے بعد، مشرقِ وسطیٰ کے اس اہم ترین ملک میں تبدیلیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ دیگر کئی تبدیلیوں کی طرح، ایک اہم تبدیلی سعودی قدامت پسند معاشرے میں یہ بھی آئی ہے کہ ڈرائیونگ کی اجازت کے بعد، اب سعودی خواتین اور لڑکیوں کو دیگر شعبوں کی طرح، فیشن اور شوبز انڈسٹری میں بھی کام کرنے کا موقع دیا جارہا ہے۔ اس طرح، تبدیلی کے اس عمل میں، سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی 18 سالہ ماڈل اس ملک کی پہلی لڑکی بن گئی ہے، جس کے لیے ماڈلنگ کے شعبے میں بین الاقوامی دروازے کھل گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ محض کوئی اعلان نہیں بلکہ18سالہ خوبصورت دوشیزہ اور ماڈل تلیدہ تمر پہلی بار پیرس فیشن ویک میں کیٹ واک کرکے سعودی عرب کی پہلی سپر ماڈل بن چکی ہیں۔ ایک اور حیران کن بات یہ ہوئی کہ مشرق وسطیٰ کے سب سے زیادہ شہرت یافتہ بین الاقوامی فیشن جریدے ’ہارپر بازار عریبیہ‘ کے سرورق پر ہمیشہ غیرملکی ماڈلز ہی براجمان نظر آئی ہیں، تاہم یہاں بھی مشرق وسطیٰ کے قارئین اس وقت خوشگوار حیرت میں مبتلا دکھائی دیے، جب میگزین نے پہلی بار سعودی سپر ماڈل تلیدہ تمرکو اپنے سرورق پر شائع کیا۔

تلیدہ تمرکا ماڈلنگ پورٹ فولیو کافی متاثر کن رہا ہے۔ وہ کم عمری میں ہی کئی برانڈز کے لیے ماڈلنگ کرچکی ہیں، تاہم اب اسے پہلی بار بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتیں دِکھانے کا موقع مل رہا ہے۔

خوبصورت ماڈل تلیدہ تمر سعودی عرب کے شہر جدہ سے تعلق رکھتی ہیں، ان کی ماں اطالوی اور والد سعودی شہری ہیں، تلیدہ کی والدہ کرسٹینا تمر بھی ماضی میں ماڈل رہ چکی ہیں جبکہ ان کے والد ایمان تمر، تمر گروپ نامی کاروباری ادارے کے چیئرمین ہیں۔

اطالوی ماں اور سعودی والد کے گھر پیدا ہونے والی سعودی عرب کی اس پہلی سپر ماڈل کو توقع ہے کہ وہ سعودی ماڈلز کے لیے تبدیلی لاسکے گی۔

جریدے کو انٹرویو دینے کے دوران تلیدہ کا کہنا تھا، ’جب میں نے ماڈلنگ کی ابتداء کی تو میں نے نہیں سوچا تھا کہ میں پہلی سعودی ماڈل ہوں گی، جسے بین الاقوامی سطح پر کام کرنے کا موقع ملے گا مگر اب لگتا ہے کہ یہ انڈسٹری کے لیے مثالی وقت ہے بلکہ انڈسٹری سے زیادہ یہ وقت سعودی خواتین کے لیے مثالی ہے۔ سعودی خواتین نے ڈرائیونگ کے حقوق حاصل کرنے سے لے کر، شعبہ ہائے زندگی کے مختلف شعبوں میں نمائندگی حاصل کرنے تک، برسہا برس طویل جدوجہد کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ سعودی خواتین اپنی صلاحیتوں، لگن اور محنت کے بل بوتے پر جلد ہی یہ ثابت کردیں گی کہ انھیں جو مواقع دیے گئے ہیں، وہ ان کی اہل بھی ہیں‘۔

تلیدہ تمر کہتی ہیں کہ، ’جب میں بڑی ہونے لگی تو سوچتی تھی کہ سعودی خواتین میری طرح نظر کیوں نہیں آتیں اور آخر کیوں ماڈلنگ کو ہماری ثقافت میں باوقار انداز سے نہیں دیکھا جاتا؟ ان کا کہنا تھا کہ ' میں سعودی خواتین کی نمائندگی کرتی ہوں جو خوبصورت اور مضبوط ہیں، میں چاہتی ہوں کہ ان کی نمائندگی درست طریقے سے کروں۔میں اپنے لیے اسے اعزاز کی بات سمجھتی ہوں کہ ایک طرح سے میں پہلی سعودی خاتون ہوں، جسے اپنے ملک کی بین الاقوامی سطح پر نمائندگی کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ پیرس فیشن ویک میں جس طرح میری اور میرے ملک کی پذیرائی کی گئی، اس سے میرا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے‘۔

اس سے پہلے گزشتہ ماہ مشہور فیشن میگزین ’ووگ‘ کے سرورق پر سعودی شہزادی ہیفا بنت عبداللہ کی تصویر شائع ہونے پر تنازع پیدا ہوگیا تھا، تصویر میں شہزادی ہیفا بنت عبداللہ سفید لباس زیب تن کیے ہوئے تھیں اور اونچی ہیل پہنے ایک کنور ٹیبل (Convertible) گاڑی میں بیٹھی دکھائی دے رہی تھیں۔

وژن 2030ء کے تحت سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے بڑے اقدامات کیے جارہے ہیں، جس کے باعث دھیرے دھیرے ایک روشن خیال سعودی عرب کا تاثر اجاگر ہو رہا ہے۔ سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کو اسٹیڈیم میں جا کر میچ دیکھنے کی اجازت ملنے کے علاوہ انھیں سینما گھروں میں فلمیں دیکھنے کی اجازت بھی مل چکی ہے۔

سال2016ء کے وسط میں سعودی حکومت نے وژن 2030ء کے تحت خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کے اہم فیصلے کے بعد طالبات کو یونیورسٹیوں میں موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت بھی دی، جبکہ حکومت نے روشن خیالی کی سمت ایک اور قدم آگے بڑھاتے ہوئے سرکاری چینل پر عرب لیجنڈ گلوکارہ ام کلثوم کا میوزک کنسرٹ بھی نشر کیا۔

تازہ ترین
تازہ ترین