• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان نے اپنا نیوکلیائی پروگرام 1970ء کی دہائی میں شروع کیا، اس کے بعد تیزی سے ترقی کی منازل طے کیں اور آج پاکستان نہ صرف ایک نیوکلیائی طاقت ہے بلکہ اس کے نیوکلیائی میزائل دنیا میں بہترین ہیں۔ نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے مطابق، امریکا اور روس کے بعد پاکستان کا میزائل سسٹم تیسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان کا37میل (60کلومیٹر) تک مار کرنے والا ’نصر‘ نامی ٹیکٹیکل میزائل ایک ایسا نیوکلیئر میزائل ہے، جو امریکا کے پاس بھی نہیں۔

٭ حتف میزائل ایک ملٹی ٹیوب بلیسٹک میزائل ہے، یعنی لانچ کرنے والی وہیکل سے ایک سے زائد میزائل داغے جا سکتے ہیں۔

٭غزنوی ایک ہائپر سانک میزائل ہے، جو زمین سے زمین تک مار کرتا ہے جبکہ اس کی رینج 290کلومیٹر تک ہے۔

٭ابدالی بھی سوپر سانک زمین سے زمین تک مار کرنے والا میزائل ہے جبکہ اس کی رینج 180 سے 200کلومیٹر تک ہے۔

٭غوری میزائل میڈیم رینج کا میزائل ہے، جو زمین سے زمین تک مارکرتا ہے اور700کلوگرام وزن اٹھا کر 1500 کلومیٹر تک جاسکتا ہے۔

٭شاہین Iبھی ایک سپر سانک زمین سے زمین تک مار کرنے والابلیسٹک میزائل ہے، جو روایتی اور نیوکلیائی مواد 750کلومیٹر تک لے جاسکتا ہے۔

٭غوری II ایک میڈیم رینج بلیسٹک میزائل ہے، جس کی رینج 2000کلومیٹر ہے۔

٭ شاہین II زمینی بلیسٹک سپر سانک میزائل ہے، جو زمین سے زمین تک مار کرتا ہے اور اس کی رینج بھی 2000کلومیٹر ہے۔

٭ شاہین IIIمیزائل 9مارچ2015ء کو ٹیسٹ کیا گیا۔ اس کی پہنچ 2750کلومیٹر تک ہے اور اس کی بدولت پاکستان کا ہر دشمن اب پاک فوج کی رینج میں آگیاہے۔یہ زمین سے زمین تک مار کرنے والا میڈیم رینج کا بلیسٹک میزائل ہے۔ اس میں مشرق وسطیٰ تک پہنچنے کی صلاحیت موجود ہے اور یوں شاہین III سے پاکستان اسرائیل کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔

دفاعی ماہرین کے مطابق، اتنی زیادہ دور تک مار کرنے والا میزائل بنانا پاکستان کی ضرورت تھا، کیونکہ پاکستان کو شک ہے کہ بھارت بحیرہ بنگال میں انڈیمان اور نکوبار کے جزیروں پر اپنے فوجی اڈے بنا رہا ہے، اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ پاکستان نے اپنا میزائل پروگرام ’بھارت کو نظر‘ میں رکھ کر بنایا ہے، نہ کہ کسی دوسرے ملک کو۔

ابابیل میزائل نظام

ابابیل میزائل کے تجربے سے بہت سے اذہان میں یہ سوال پیدا ہونا بہت منطقی ہے کہ زمین سے زمین پر مار کرنے والے غوری، غزنوی، ابدالی ، نصر،شاہین ون اور شاہین ٹو بیلسٹک میزائلوں کے بعد ایک اور نیا بیلسٹک میزائل نظام وضع کرنے کی منطق کیا ہے۔

دراصل، ’ابابیل‘ میزائل نظام پاکستان کی اسٹرٹیجک چوکسی اور مستعدی کامظہر ہے، مئی2016ء میں بھارت نے اسرائیل کی مدد سے ’آشون بیلسٹک میزائل شکن نظام‘ کا تجربہ کیا جس کا مقصد بھارتی فضاؤں کے اندر بھارتی تنصیبات اور اہم مقامات کے گرد ایسے آہنی گنبد (Iron dome) بنانا تھا، جس کے ذریعے اس طرف آنے والے پاکستانی میزائلوں کو فضا میں ہی تباہ کیا جا سکے۔ پاکستان کے روایتی بیلسٹک میزائل نظام ایک وقت میں ایک ایٹم بم لے جانے کےلیے ڈیزائن کیے گئے تھے۔ میزائل شکن بھارتی نظام نے پاکستان کے روایتی میزائل نظاموں کے مؤثر ہونے پر سوالیہ نشان لگادیا تھا۔ بھارتی اقدام نے ڈرامائی طور پر نئی ضرورت پیدا کردی تھی، چنانچہ پاکستان نے کثیر الاہداف میزائل نظام پرکام کرنا شروع کیا۔ ابابیل میزائل نظام ایک وقت میں کئی ایٹم بم لے جاسکتا ہے، ایک خاص بلندی پر پہنچ کر یہ وقفے وقفے سے اپنے ایٹم بم گراتا ہے، ہرایٹم بم کا ہدف مختلف ہوتا ہے اور ہر ایٹم بم آزادانہ طور پر اپنے ہدف کی جانب بڑھتا ہے۔گویا اس پر نصب ایٹم بم ایسے اسمارٹ ایٹم بم ہوتے ہیں، جومطلوبہ بلندی سے گرائے جانے کے بعد نہ صرف اپنے اہداف کی جانب آزادانہ طور پر بلکہ میزائل شکن نظام کو چکمہ دینے کے لیے ’ذہانت‘ سے بھی آگے بڑھتے ہیں، ان صلاحیتوں کومیزائل سازی کی اصطلاح میں میزائل انڈیپینڈنٹ ری انٹری وہیکل (MIRV) اورانٹیلی جنٹ ری انٹری وہیکل (IRV) قراردیاجاتا ہے۔ یہ ایسی صلاحیت ہے جو صرف امریکا، برطانیہ، روس،چین اور فرانس کے پاس ہے۔ پاکستان اس ٹیکنالوجی کا حامل دنیاکا چھٹا ملک ہے۔

دوسرے حملے کی صلاحیت

پاکستان، آبدوز سے بابر3میزائل کا کامیاب تجربہ کرکے زمین ،فضا اور زیرسمندر بیک وقت ایٹمی میزائل لانچ کرنے کی صلاحیت (N-triad capability) کا مظاہرہ بھی کر چکا ہے۔ کسی بھی ملک کو اپنے ایٹمی ہتھیارہدف تک پہنچانے کے لیےڈیلیوری سسٹم کی ضرورت پڑتی ہے۔ جن میں بمبار طیارے، بلیسٹک میزائل، کروز میزائل، آرٹلری شیلز (توپ کے گولے) اور نیوکلیر بیسڈ سیٹیلائٹ ( جو خلا سے زمین پر موجود اپنے ہدف کو نشانہ بناتی ہے) پیش پیش ہیں۔

ضرورت اس بات کی تھی کہ کچھ ایسا سسٹم ڈیزائن کیا جائے جو دشمن کی کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کا مقابلہ کرپائے۔کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن بھارتی عسکری انتہا پسندوں کی ذہنی اختراع تھی، جس کے تحت پاکستان پر24گھنٹے میں اچانک اور خوفناک زمینی اور فضائی حملہ کرکے پاکستانی فوج کے سنبھلنے، جوہری ہتھیارباہرنکالنے اور عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے رابطے سے پہلے ہی بھارتی فوج آپریشن کر کے واپسی کی راہ لے تاکہ جب پاکستان ’’ری ایکٹ‘‘ کرے تو دنیا کو بھارت کے بجائے پاکستان جارح نظرآئے۔

اس کے لیے دوسرے ترقی یافتہ ایٹمی ممالک (امریکا، چین، روس، فرانس اور برطانیہ) کی طرح سیکنڈ اسٹرائیک کی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے تگ ودو کی گئی اور بالآخرآبدوز سے فائر کیے جانے والے کروز میزائل بابر تھری کا کامیاب تجربہ کرلیا گیا ۔ بابر تھری کروز میزائل بحرِ ہند سے خشکی پر اپنے ہدف کو کامیابی سے نشانہ بناسکتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے لیس کروز میزائل بابر تھری 450 کلو میٹر تک اپنے ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ میزائل سمندر میں زیرِ آب موبائل پلیٹ فارم سے لانچ کیا جاسکتا ہے۔ بابر 3 میزائل کا تجربہ کرکے پاکستان نے سیکنڈ اسٹرائیک کی صلاحیت حاصل کر لی، جو دشمن کے ہوش اُڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ اب اگر کوئی ملک خدانخواستہ سرزمینِ پاک پر حملہ کرکے اس کی زمینی ایٹمی حملے کی صلاحیت کو مفلوج بھی کردے توہمارے پاس ایک اورآپشن موجود ہے کہ سمندر سے آگ برسا کر دشمن کی جارحیت کا بھرپور جواب دیں۔

تازہ ترین