کراچی (اسٹاف رپورٹر ) چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کثیرالمنزلہ عمارتوں سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے کہ جہاں جہاں تعمیرات غیرقانونی ہیں ختم کرائیں اگر خلاف ورزی ہوئی تو اعلی حکام سمیت چیئرمین بھی ذمہ دار ہونگے۔ حفاظتی ٹیکوں سے چار بچوں کی ہلاکت کیس میں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈاکٹرز کی غفلت ثابت ہوچکی ہے اب کیا طریقہ کار ہے ۔ان لوگوں کو کیا پچیس پچیس لاکھ روپے ادا کرنے کا آردڑ کردوں۔ تفصیلات کے مطابق ہفتے کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار،جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل لارجر بنچ نے کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیرات اورواٹرکمیشن سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پررجسٹرار واٹرکمیشن، میئر کراچی وسیم اختر،ایڈیشنل سیکرٹری ،درخواست گزارشہاب اوستو ایڈووکیٹ، ایڈووکیٹ جنرل سندھ سمیت دیگر افسران پیش ہوئے۔ فراہمی ونکاسی آب سے متعلق سماعت میں درخواست گزار شہاب اوستو کا کہنا تھا کہ 161؍واٹر سپلائی اسکیمیں مکمل کرلی گئی ہیں اور بہت سارے معاملات مکمل ہورہے ہیں دسمبر تک اگرچھوڑا گیا تو معاملات خراب ہوجائینگے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم حکومت سندھ کے شکرگزارہیں جو واٹر کمیشن کےساتھ تعاون کررہے ہیں جبکہ میئر کراچی سے چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہو ئے کیا کہ کراچی کےنالوں پرتجاوزات کے حوالے سے بتائیں قبضہ ختم ہوا کہ نہیں ہوا میئر کراچی وسیم اختر کا کہنا تھا کہ ابھی تک تجاوزات کا خاتمہ نہیں ہوا البتہ ختم کی جارہی ہیں، عدالت کے حکم پر شہر میں تجاویزات کے خلاف آپرشنز کیے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس کاریمارکس میں کہا کہ جہاں جہاں تعمیرات غیرقانونی ہیں تو ختم کرائیں اگرخلاف ورزی ہوئی تو اعلی حکام سمیت چیئرمین بھی ذمہ دار ہونگے۔ عدالت نے واٹر کمیشن اورتجاویزات سے متعلق نومبر میں رپورٹ پیش کرنے کاحکم دے دیا۔ دریںاثناء نوابشاہ میں حفاظتی ٹیکوں سے چار بچوں کی ہلاکت سے متعلق کیس میں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈاکٹرز کی غفلت ثابت ہوچکی ہے اب کیا طریقہ کار ہے ۔ان لوگوں کو کیا پچیس پچیس لاکھ روپے ادا کرنے کا آردڑ کردوں۔ دہشت گردی میں مارے جانے والوں کے لیے کتنا معاوضہ ہے۔ جس پر سیکرٹری صحت سندھ نے بتایا کہ کہ پانچ لاکھ روپے معاوضہ ہے ۔ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ اس حوالے سے لائحہ عمل کے لئے مہلت دی جائے کیا ۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان کو یہاں سے مایوس بھیج دوں دور دور سے آئے ہوئے ہیں۔ وزیر صحت اور سیکرٹری صحت متاثرہ بچوں کے والدیں سے ملاقات کریں اور مسئلے کا حل نکالا جائے ۔اس حوالے سے میٹنگ کرکے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کی جائے۔