• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طبیعات کے نوبل انعام یافتہ سائنس دان سٹیون وینبرگ کا کہنا ہے کہ انہوں نے پچھلے 40برسوں میں طبیعات یا اسٹرونومی کے موضوع پر کوئی ایک بھی مقالہ ایسا نہیں دیکھا جو کسی مسلمان ملک میں بسنے والے سائنسدان نے لکھا ہو اور قابل مطالعہ ہو۔پتہ نہیں کس نے سٹیون وینبرگ کو نوبل انعام دے دیا ہے،ان صاحب کو اندازہ ہی نہیں کہ مقالہ لکھنے سے کہیں زیادہ مشکل کام سازشی تھیوریوں کو بے نقاب کرنا ہے اور ہماری یونیورسٹیوں کے دانشور سال میں کم از کم ڈیڑھ درجن ایسی تھیوریوں کا پردہ چاک کرتے ہیں جن کا مقصد عالم اسلام کو بدنام کرنا ہو ۔میرے خیال میں پنجاب یونیورسٹی کو سہ ماہی بنیادوں پر ”سازشی تھیوریوں کا ایک جرنل“ شائع کرنا چاہئے تاکہ مسلم ممالک میں جو قحط الرجال پایا جاتا ہے ،اس جرنل کی اشاعت کے بعدوہ ختم ہوسکے۔
اس وقت پوری مسلم دنیا میں ایک ہزار لوگوں کے لئے صرف 9سائنس دان ،انجینئر اور تکنیک کار ہیں جبکہ باقی دنیا کی اوسط اس ضمن میں 41ہے ۔ ان مسلمان ممالک میں کل 1800یونیورسٹیاں ہیں لیکن ان میں سے فقط 312 ہی ایسی ہیں جن کے محققین کے مقالے کسی جرنل میں شائع ہوتے ہیں ،باقی مقالے مسلم تنوروں پر دستیاب ہیں اور روٹیاں لپیٹنے کے کام آتے ہیں۔پوری مسلم دنیا کی 1.6ارب کی آبادی میں صرف دو سائنس دانوں کو اب تک نوبل انعام مل سکا ہے ،ایک کو 1970ء میں طبیعات اور دوسرے کو 1999میں کیمیا کے شعبے میں ۔46مسلم ممالک کا پوری دنیا کے سائنسی مواد میں کُل حصہ فقط ایک فیصد ہے ۔جبکہ دوسری طرف صرف دو ممالک،سپین اور بھارت، کا عالمی سائنسی مواد میں حصہ اس سے کہیں زیادہ ہے ۔مزید ڈوب مرنے کا مقام یہ ہے کہ اکیلا سپین سال بھر میں اتنی کتب کا ترجمہ کرتا ہے جو پوری عرب دنیا پچھلے ایک ہزار سال میں نہیں کر سکی۔ہور کی حال اے!
عرب دنیا اس وقت عالمی آبادی کا 5فیصد ہے جبکہ کتب کی اشاعت میں اس کا حصہ فقط 1.1فیصد ہے ۔ 1980سے 2000کے درمیان اکیلے کوریا جیسے ملک نے 16,328 patentمنظور کئے جبکہ 9عرب ممالک نے کل ملا کر فقط370اور ان میں سے بھی زیادہ تر غیر ملکیوں کا کام تھا۔1989کی ایک تحقیق کے مطابق صرف امریکہ میں ایک سال میں 10,481 ایسے سائنسی مقالے شائع ہوئے جن کا تحقیقی میدان میں حوالہ دیا گیا جبکہ پوری عرب دنیا میں یہ تعداد محض 4تھی ۔
یہاں بریک پر پیر رکھتے ہیں اور تھوڑی دیر کو ماضی میں جھانکتے ہیں ۔آٹھویں سے تیرھویں صدی۔رازی وہ مسلمان سائنس دان تھا جس نے طب کا انسائیکلو پیڈیا تحریر کیا جو 23جلدوں پر مشتمل تھا ۔ہمارے ملک کے سارے دانشور اکٹھے ہو جائیں تو بھی انہوں نے اتنی کتابیں نہیں پڑھی ہوں گی جتنی اس انسائیکلو پیڈیا کے صفحات بنتے ہیں۔لیکن اس کے باوجود یہ دانشور اپنے آپ کو رازی سے زیادہ قابل سمجھتے ہیں ۔ابن سینا نے ”ال قانون فی ال طب“ جیسی کتاب تحریر کی جو 14جلدوں پر محیط تھی اور طب کے شعبے کی مستند ترین کتاب سمجھی جاتی تھی۔لاطینی زبان میں ترجمے کے بعد اس کتاب کو 6صدیوں تک مغرب نے سینے سے لگائے رکھا۔جبکہ ہم نے اس کی جگہ جہالت کو جپھی ڈال لی اور یوں مطمئن ہو گئے جیسے آسمان سے نئے ابن سینا خود بخود ٹپکیں گے اور ہماری کھوئی ہوئی علمی میراث واپس لے آئیں گے۔
ایک اور عظیم مسلم سپوت ”الفارابی“ جس کے بار ے میں کہا جاتا ہے کہ ارسطو کے بعد وہ دوسرا عظیم ترین استاد تھا۔اور پھر البیرونی جس نے تقریباً ہر سائنسی شعبے میں 13,000صفحات پر مشتمل 146مقالے تحریر کئے۔یہ باتیں فقط سوچنے سے ہی پسینے چھوٹ جاتے ہیں کہ یہ عظیم ترین لوگ کیسے اتنا علمی اور تحقیقی کام سر انجام دیتے تھے ،وہ بھی فیس بک اور یو ٹیوب کے بغیر۔غالباً اسی لئے یہ کام ہو گیا کہ اس زمانے میں وقت ضائع کرنے والی یہ مشینیں ایجاد نہیں ہوئیں تھی۔اور ہاں ابن رشد کے بغیر تو بات مکمل ہی نہیں ہو سکتی جس نے نہ صرف ارسطو پر کمنٹری تحریر کی بلکہ اپنی زندگی میں 20,000صفحات لکھے جن میں فلسفے سے لے کر طب اور حیاتیات تک سب شامل ہے۔
عرب یا مسلم دنیا ،جو بھی آپ کہیں ،اپنے اس سنہری دور پر فخر کرنے پر حق بجانب ہے مگر مجھے اس منطق کی سمجھ نہیں آتی کہ ہم یہ واویلہ کیوں کرتے ہیں کہ یہ تمام علمی کارنامے ہماری sole propertyتھی اور مغرب نے اسے چرایا لیا یا پھر مغرب والے اس بات کا اعتراف نہیں کرتے کہ آج کل کی ترقی مسلم سائنس دانوں کی مرہون منت ہے۔دونوں ہی مغالطے ہیں۔خلیفہ ہارون الرشید نے بغداد میں ”بیت الحکمت“ قائم کیا جہاں دنیا جہان کے علوم کا عربی میں ترجمہ کیا گیا اور یوں ترجمے کی تحریک کا آغاز ہوا ۔بیت الحکمت میں یونانی ،ایرانی اور قدیم ہندی علوم کے ترجمے کئے جاتے جن میں فلسفہ ،طب ، حیاتیات،طبیعیات ،فلکیات ،جغرافیہ ،کیمیا سبھی کچھ شامل تھا ۔افلاطون،ارسطو ،فیثا غورث وغیرہ کی کتب کے ترجمے بھی اسی دور میں ہوئے جن سے عرب محققین نے استفادہ کیا اور یوں مسلم ”گولڈن ایج“ کی داغ بیل ڈالی گئی ۔ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے ”سکریچ“ سے کام شروع کیا اور آج کل جو بھی ایجاد ہے وہ مسلمانوں کی مرہون منت ہے۔جب مسلمانوں کا زوال شروع ہوا تو ان سے یہ علمی شمع مغر ب نے حاصل کر لی، بالکل اسی طرح جیسے مسلمانوں نے یونانیوں سے لی تھی اور پھر اس علم میں حیرت انگیز ترقی کر کے آج دنیا کو اس مقام تک پہنچا دیا جہاں ہم مریخ پر قدم رکھنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
یہ عجیب منطق ہے کہ مغرب نے ہمارا علم چرا کر اپنے نام لگا لیا ۔یہ علم تھا یا کسی سیٹھ کی تجوری میں رکھی ہوئی سونے کی ڈلیاں کہ کوئی چرا کر لے گیا ۔اس وقت ہمارا علمی ورثہ دنیا میں جہاں کہیں بھی موجود ہے اسے مغربی دنیا نے ہی سنبھال کر رکھا ہے، ہمارے ذمے یہ کام ہوتا تو کب کے اسے ردی میں بیچ کر چار آنے کما کر فارغ ہو چکے ہوتے ۔
مسلمانوں کے اس سنہری دور کے زوال پذیر ہونے کی ایک بڑی وجہ آزاد فکر پر پابندی ہے۔ مسلمان دانشوروں کو اپنے علم پر اس قدر قدرت حاصل تھی کہ انہیں کسی بھی قسم کے موضوع پر بحث کا کوئی خوف نہیں تھا ۔اس دور میں جن مسائل پر گفتگو ہوتی تھی ان کا تصور بھی آ ج کل کی مسلم دنیا میں محال ہے۔وہ مسلمان سوال پوچھنے والوں کو یہ کہہ کر چپ نہیں کرواتے تھے کہ یہ کفر ہے ۔جونہی مسلم دنیا نے آزاد سوچ پر پابندی لگائی ،علم اور تحقیق کا کام رک گیا۔آج کل کے نام نہاد دانشور اور مذہبی سکالرز (ما سوائے اکا دکا ناموں کے ) کے پاس چونکہ علم کا فقدان ہے لہذا وہ آزاد فکر کو پنپنے نہیں دینا چاہتے ۔ ان دولے شاہ کے چوہوں کے پاس آج کل کے ماڈرن ذہن میں اٹھنے والے سوالات اور خدشات کا جواب ہی نہیں ۔یہ دور سٹیم سیل،کلونننگ ،گاڈ پارٹیکل اور جنوم کا دور ہے ،اس دورمیں اٹھنے والے سوالات کو ڈانٹ ڈپٹ کر چپ نہیں کروایا جا سکتا ۔
آج دس محرم ہے ۔امام حسین کی شہادت کا ماتم ہے۔اس شہادت کا جس کے نتیجے میں نواسہ رسولﷺ کا سر نیزے پر رکھ کر کوفے کی گلیوں میں گھمایا گیا ۔ہمیں اس ماتم کے ساتھ ساتھ اپنی کھوئی ہوئی علمی میراث کا ماتم بھی کرنا چاہئے جس کے بل بوتے پر ہم نے دنیا میں حکمرانی کی تھی لیکن افسوس کہ صرف ماتم سے کا م نہیں چلا کرتے!
نوٹ:کالم میں بیان کئے گئے اعداد و شمار ” The New Atlantis“ میں شائع شدہ ایک مضمون ”Why the Arab World Turned Away from Science“ سے لئے گئے ہیں جسے ہلیل اوفک نے تحریر کیا ہے۔
تازہ ترین