• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوسرے ہفتے کی کاوش میں کامیابی نصیب ہوئی۔ پہلے ہفتے بغیر کسی کو کہے سنے اڈیالہ جیل پہنچنے کا تجربہ اتنا کامیاب نہیں رہا۔ چار گھنٹے دھوپ میں کھڑے رہنے کے بعد واپس جانا پڑا۔ اگلی جمعرات کے دن پھر ہمت پکڑی۔ اہم دوستوں کو فون کیا۔ کچھ عقل لڑائی کچھ سفارش کروائی اور اڈیالہ جیل میں داخلے کا اذن ملا۔ جو لوگ اس تجربے سے نہیں گزرے ان کو پتہ ہونا چاہئےیہ مرحلہ سہل نہیں ہے۔ اڈیالہ جیل کے دروازے پر کچھ اہلکار ایک لسٹ تھامے کھڑے ہوتے ہیں۔ اس علاقے میں سیکورٹی کی وجہ سے موبائل کام نہیں کرتا۔ لہٰذا اگر آپ کا نام لسٹ میں نہیں تو کسی کو فون کرنے کا موقع بھی میسر نہیں آتا۔ اگر آپ کا نام ان خوش قسمتوں میں ہے جو لسٹ میں شامل ہیں تو بھی بات نہیں ختم ہوتی۔ گیٹ سے داخلے کے بعد تقریباََ چار سو میٹر تک پیدل چلنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد ایک اور جگہ تلاشی شروع ہو جاتی ہے۔ موبائل رکھوا لئے جاتے ہیں۔ شناختی کارڈ کا اندراج ہوتا ہے اور آپ کے نام کی پرچیاں بننا شروع ہو جاتی ہیں۔ اب اسے اتفاق کہیں یا حالات پرچیاں بنانے والے کانسٹیبل کا نام عمران ہے۔ رکئے ، ابھی رکئے ، ابھی ملاقات کا وقت نہیں آیا ابھی مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں۔ پرچیاں بننے کے بعد طویل انتظار کا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں ملاقاتیوں کا ہجوم بیٹھا ہے جو پسینے سے تتر بتر ہو رہا ہے۔ اس کمرے میں ایک نہایت موہوم سا پنکھا لگا ہوا ہے۔ جس کی ہوا خود اس تک نہیں پہنچ پاتی۔ ماضی کی حکومت کے سب بڑے نام اس اس کمرے میں پسینہ سکھانے کی خاطر تتربتر ہو رہے ہیں۔ عرفان صدیقی، چوہدری تنویر،دانیال عزیز، پرویز رشید ، حنیف عباسی یہاں اس موہوم پنکھے کی ہوا لینے کے لئے پنکھے کے گرد جمع ہو رہے ہیں۔ میڈیا والے کبھی اتنا حبس برداشت نہیں کر سکتے۔ انتظار کی خاطر کمرے سے باہر نکلے تو چلچلاتی دھوپ نے آن لیا۔ ایک فلک بوس دیوار کے منحنی سے سائے میں خواجہ آصف نظر آئے جو جلد باز ملاقاتیوں کو صبر کی تلقین کررہے تھے۔ کانسٹیبل عمران کے گرد ملاقاتیوں کا جمگھٹا تھا ۔ لوگ اپنی اپنی پرچی کے حوالے سے ملاقات کا نمبر جاننا چاہتے تھے مگر کانسٹیبل عمران اس وقت بڑے بڑے منسٹروں کو "منتیں ترلے " دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ کبھی کسی کو دھکیلتا کبھی کسی سے جان چھڑاتا وہ اپنے عہد کا سب سے بڑا ہیرو لگ رہا تھا۔ بالآخر پرچی پر نام نامی آیا اور آگے کا سفر شروع ہوا۔ ایک بہت بڑے بیرئیر سے لگی زنجیر کھلی اور دس ملاقاتیوں کی ملاقات کا اذن ہوا۔ یہاں سے آگے پھر ایک بڑی عمارت کی راہداری شروع ہو گئی۔ پھر وہ کمرہ سامنے آیا جس میں ملاقاتی بیٹھے تھے۔ اس کمرے میں داخلے سے پہلے آپ کے ہاتھ پر سرخ رنگ سے ایک مہر لگائی جاتی ہے۔ جو اس سیکورٹی کی آخری حد ہے۔

میں جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا تو احساس ہوا کہ یہ ملاقات ون ٹو ون نہیں ہے۔ چھوٹے سے کمرے میں تیس کے قریب کرسیاں تھیں۔ اے سی فل اسپیڈ میں لگا ہوا تھا۔ کرسیاں عام سی دفتری کرسیاں تھیں جن کی نشست کو پیلے رنگ کے نائلون سے بنا گیا تھا۔ کمرے میں ایک شیشے کی دیوار بھی تھی جس کی طرف ملاقاتیوں کی پشت تھی ۔ سامنے نواز شریف اور مریم نواز شریف بیٹھے تھے۔ کیپٹن صفدر بائیں ہاتھ کی نشست پر براجمان تھے۔ نواز شریف ہر ملاقاتی سے اپنی نشست سے اٹھ کر ملتے۔ بہت سے ایسے تھے جن کا تعارف مریم نواز کرواتی تھیں۔ نواز شریف ہر ملاقاتی کا متعدد بار شکریہ ادا کرتے۔ شفقت سے ملتے۔ مریم نواز سیاہ لباس میں ملبوس تھیں اور نواز شریف نے نیلا شلوار قمیض پہن رکھا تھا۔ دونوں ملاقاتیوں سے خوش اخلاقی سے ملتے۔ ایک خاتون ایم پی اے کو نواز شریف نے اپنے پاس بٹھایا اور سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔ اور باقی ملاقاتیوں سے مخاطب ہو کر ان ایم پی اے کے والد کی تعریف کرنے لگے۔ اسی اثنا میں حاضرین میں سے ایک صاحب نے نواز شریف کی تعریف میں ایک مختصر تقریر کی اور اسکے ختم ہونے تک تقریر کرنے والے کی آواز بھرا گئی اور آنکھیں نم ہو گئیں۔ نواز شریف نے اس دوران صرف اتنا کہا کہ ’’بس جی دعا کریں‘‘۔ 

میڈیا کے لوگوں کو نواز شریف نے اپنے قریب کی نشستوں پر جگہ دی۔ سب اس بات کے منتظر تھے کہ کوئی بات ہو گی ، کوئی خبر نکلے گی اور کوئی چینلوں پر چلنے کے لئے ٹکر میسر آئے گا۔ مگر اس میڈیائی قربت کے باوجود نواز شریف نے کسی قسم کی سیاسی گفتگو سے اجتناب کیا۔ بس رسمی گفتگو چلتی رہی کوئی خبر نہیں نکلی۔ کچھ دوستوں کے مسلسل اصرار کے باوجود بھی ایک جملہ تک نہیں کہا ۔ بات ’’بس جی دعا کریں‘‘ سے آگے نہیں بڑھی۔ مریم نواز اور نواز شریف کے چہروں سے کوئی پریشانی نہیں جھلک رہی تھی ، کوئی تاسف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ دونوں صحت مند اور خوشگوارموڈ میں تھے۔ بلکہ بعض اوقات تو جذباتی ملاقاتیوں کو مریم نواز اور نواز شریف تسلی دیتے رہے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسےجیل میں ملاقاتی ہیں نواز شریف نہیں۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد جیل کا ایک ہرکارہ ملاقاتیوں کے درپے ہو جاتا اور ان کو نشستیں چھوڑنے کے لئے زور زبردستی کرنے لگتا۔ میڈیا والے چونکہ ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں اس لئے دیر تک بیٹھے رہے۔ جیل کا اہلکار خشمگیں نگاہوں سے ان کو گھورتا رہا مگر میڈیا کہاں ایسے ٹلتا ہے۔ نوازشریف سے کسی پالیسی بیان کی توقع تھی مگر گفتگو بار بار ٹوٹ جاتی تھی۔ نئے آنے والے ملاقاتیوں کے استقبال کیلئے نواز شریف بار بار کھڑے ہو جاتے اور پھر پوری دل جمعی سے انکا حال احوال پوچھنے لگتے۔ اسی کشمکش میں وقت گزرتا جارہا تھا اور جیل کے ہرکارے کی نگاہوں کی تندی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ نواز شریف جس تسلی سے ملاقاتیوں کا حال احوال پوچھ رہے تھے اس سے واضح تھا کہ میڈیا کی دال آج نہیں گلنے والی۔

ملاقات کا وقت ختم ہوا جا رہا تھا اور بات ابھی شروع ہی نہیں تھی۔ نواز شریف کو ملاقاتیوں میں مگن دیکھ کر اب نگاہیں مریم نواز کی طرف گامزن تھیں۔ شاید کوئی بیان ادھر سے ہی آ جائے ۔ مریم نواز نہایت خندہ پیشانی سے خدا حافظ کہنے کے لئے اٹھیں تو میڈیا والے کسی بیان کیلئے مصر ہو گئے۔ ایک صاحب تو بچوں کی طرح ضد کرنے لگے کہ میڈم کم از کم کوئی ایک جملہ تو ہمیں دے دیں تاکہ چینلوں اور اخباروں میں جا کر اپنی نوکری حلال کر سکیں۔ مریم نواز اس ضد پر کچھ سوچ میں پڑ گئیں۔ اور ایک توقف کے بعد کہنے لگیں آپ کو ایک جملہ چاہئے تو وہ ایک جملہ بس یہی ہے کہ " بس جی دعا کریں"۔

تین دفعہ کی وزیر اعظم سے ادھوری سی ملاقات کے بعد میڈیا والے ناکام و نامراد اس چھوٹے سے کمرے سے باہر نکلے۔ کسی کے پاس کوئی خبر نہیں تھی ، کسی ہاتھ میں کوئی آتش فشاں انکشاف نہیں لگا تھا۔ بیرئیر کے پاس پہنچ کر ایک دفعہ پھر کانسٹیبل عمران سے ملاقات ہوئی ۔ وہ اب بھی ملاقاتیوں کے جھرمٹ میں کسی دولہا کی طرح گھوم رہا تھا۔ اس امکان کے پیش نظر کہ کبھی پھر بھی ملاقات کی ضرورت پڑ سکتی ہے اس غرض سے کانسٹیبل عمران سے الوادعی معانقہ کیا اور اس سے تفنن طبع کی خاطر پوچھا ۔ "بھائی کانسٹیبل عمران ذرا یہ تو بتائو میاں نواز شریف اور مریم نواز کب تک رہا ہو جائیں گے؟ ’’تو کانسٹیبل عمران اس سوال کی اہمیت پر غور کرتے ہوئے ملاقاتیوں کو چیرتا ہوا ہمارے کان کے پاس پہنچا اور سرگوشی کے انداز میں کہنے لگا ’’بس جی دعا کریں‘‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین