• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ پارٹی جو 30 نومبر1967ء کوگلبرگ لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر قیام عمل میں آئی تھی دارو رسن یا تخت و تختوں سے گزرنے والی اس پارٹی کی کہانی طرب و الم، وفاداری اور بے وفائی کی عجیب و غریب داستان ہے۔ لاہور میں پاکستان پیپلزپارٹی کے اس بنیادی کنونشن میں کیسے کیسے لوگ شریک تھے! کنونشن کی ایک یادگار تصویر میں ڈاکٹر مبشر حسن، جے اے رحیم، خورشید حسن میر، معراج محمد خان، غالباً میاں محمود علی قصوری، سید سعید حسن، کمال اظفر،حفیظ پیرزادہ، غلام مصطفی کھر، میر رسول بخش تالپور، حق نواز گنڈا پور، اسلم گرداس پوری، حیات محمد خان شیرپاؤ، حنیف رامے ، شاہین حنیف رامے،خود ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی گود میں بیٹھے ہوئے بابائے سوشلزم شیخ رشید احمد۔ اس تصویر میں کئی لوگوں کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم ،تجھے یادگار بنا دیا
لاہور کنونشن میں پارٹی کے منشور کے اجراء کے موقع پر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی تقریر میں کہا تھا ”آج دنیا بھر کی نظریں ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ کی ہم پر لگی ہوئی ہیں۔ ہم عوام کی پارٹی بنانے جارہے ہیں۔ ایک ایسی پارٹی جو کنونشن مسلم لیگ یا ری پبلکن لیگ جیسی نہ لگے“۔
لیکن اب جو 45 برس بعد پاکستان پیپلزپارٹی پر نظر ڈالی جائے تو اپنے سیکڑوں جاں نثاروں اور قیادت کی تمام قربانیوں کے باوجود اب جب تیسری بار حکومت اور پہلی بار اپنی میعاد حکومت پوری کر رہی ہے،کو دیکھ کر اس سوال کا جواب ملنا اتنا آسان نہیں کہ یہ پارٹی ایوب خان سے لیکر مشرف تک کے دنوں میں بنائی جانے والی مسلم لیگوں سے کس طرح زیادہ مختلف لگتی ہے؟
اسی کنونشن میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے پارٹی منشور میں سوشلسٹ معیشت کا نعرہ دیا تھا۔ پارٹی کے اقتدار میں آکر نیشنل پریس ٹرسٹ توڑنے، بدنام زمانہ امتناعی نظربندی کے قانون ڈیفنس آف پاکستان رولز یا ڈی پی آر ختم کرنے کی بات کی تھی اور اس کے ایک اجلاس میں جلد سے جلد پارٹی کے اندر انتخابات منتخب کرانے پرغور وغوض کیلئے ایک الگ اجلاس کیا تھا۔ اسی اجلاس میں برکلے کیلیفورنیا سے پڑھے ہوئے بھٹو نے اپنی نئی سیاسی پارٹی کا ترنگا پرچم بھی متعارف کرایا تھا جو ان دنوں امریکہ میں چلنے والی سیاہ فام قوم پرست تحریک یا شہری آزادیوں کی تحریک کے ترنگے سرخ سیاہ و سبز جھنڈے کے ہو بہو تھا۔ وہ نوجوان ذوالفقار علی بھٹو جو جب برکلے کیلیفورنیا میں پڑھتے تھے ان کی اکیسویں سالگرہ پر ان کو ملنے والے تحائف میں ان کے نزدیک سب سے اہم دو تحائف تھے۔ وہ تحائف تھے نپولین کی سوانح عمری کے تمام جلدوں پر مشتمل سیٹ اور ایک چھوٹا سا کارل مارکس کی تحریر پر مبنی پمفلٹ۔ اگرچہ پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد لاہور میں رکھی گئی تھی لیکن بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ اس کا اصل جنم حیدرآباد سندھ میں ٹنڈو میر محمود میں المعروف میر برادران میر رسول بخش تالپور اور میر علی احمد تالپور کی رہائش گاہ پر ہوا تھا جب 16 ستمبر1967ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ نئی پارٹی بنانے جا رہے ہیں جس کا اعلان لاہور کنونشن میں کیا جائے گا۔ میر برادران نے ہی اپنے دیرینہ اور بااعتماد ملازم نور محمد مغل جو کہ نورا کے نام سے مشہور ہے کی خدمات ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کی تھیں، نورا اس دن کے بعد اپنے آخری دنوں تک بھٹو کا ہی وفادار کہلایا۔ یہ نورا تھا جس نے پاکستان پیپلزپارٹی کے منشور کی کاپیاں بوریاں بھر کر بذریعہ خیبر میل ملک کے کونے کونے میں جاکر پہنچائی تھیں۔ بھٹو کا یہ انتہائی قریبی اور معتمد ملازم خاص جنرل ضیاء کی آمریت کے ابتدائی سالوں میں کراچی میں مردہ پایا گیا تھا۔کس نے جانا تھا کہ بھٹو کی کال کوٹھڑی میں دوران قید ان کی جان بخشی کیلئے کوششوں میں اسی حیدرآباد میں میر برادران کی طرف سے ملک کے بائیں بازو کے انتہائی محترم اور ویو پوائنٹ کے مدیر مظہر علی خان اپنی اہلیہ طاہرہ مظہر علی خان کے ہمراہ آئیں گے لیکن مایوس لوٹ جائیں گے کہ میربرادران اب نہ فقط بھٹو کے شدید سیاسی مخالف تھے بلکہ ضیاء الحق کی حکومت میں بھی شامل تھے۔
پیپلزپارٹی کے منشورکے اصل خالق سابق سفارت کار اور بھٹو کے ساتھی جے اے رحیم تھے جو اسی کنونشن میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل بھی منتخب ہوئے تھے۔ لاہور کنونشن میں شریک رہنماؤں کو یاد ہے کہ اسلم گرداس پوری نے جاگیرداری کے خلاف ایک نظم پڑھی تھی لیکن اپنی نظم پڑھنے سے پہلے انہوں نے بھٹو سے معذرت کی تھی جس پر بھٹو نے کہا تھا کہ وہ اپنی نظم بلاجھجک پڑھ سکتے ہیں کیونکہ ان کی پارٹی جاگیرداری کے خلاف جارہی ہے۔ زرعی اصلاحات اور بنیادی صنعتوں کو قومیانا بھی پی پی پی کے منشور کا اہم حصہ لکھا گیا تھا۔ روٹی کپڑااور مکان و سوشلزم کے نعرے نے ملک کی سیاست اور سماج میں تاریخی مدوجزر پیدا کردیا۔ بھٹو کے خلاف ایک سو چار علماء نے کفر کا فتویٰ دیا تو دوسری طرف ایوب خانی آمریت میں ان کے، ان کے ساتھیوں اور حامیوں کے خلاف عتاب شدید ہوگیا۔ایوب خان کی حکومت کا اس قدر خوف تھا کہ پاکستان کی کوئی بھی پرنٹنگ پریس پی پی پی کا منشور شائع کرنے کو تیار نہیں تھی تو ایسے میں جیکب آباد سے نکلنے والے ایک ہفت روزہ کے نڈر مدیر لالہ مٹھا نے اپنی پرنٹنگ پریس سے منشور کا پہلا ایڈیشن چھاپا تھا۔آنیوالے دنوں میں ہفت روزہ شہاب ، نصرت اور روزنامہ مساوات اور سندھی ہلال پاکستان پیپلزپارٹی کے ترجمان کے طور پر شائع ہوئے۔
ملک میں جاگیرداری کے خاتمے اور بائیس سرمایہ دار خاندانوں (اب تو بائیس ہزار سے بھی زائد ہوں گے!) کے تسلط کے خلاف بولنے والے بھٹو کے متعلق پاکستان کی سیاست میں یہ تصور ابھر کر آیا کہ انہوں نے غریب لوگوں کو زبان دی ہے۔ ”زمین ہاری کی، کارخانہ مزدور کا“۔ اصل میں بھٹو کے کرشماتی انداز و جوش خطابت نے موچی گیٹ سے زیادہ عوام کے دل فتح کر لئے۔ اسی لئے تو انہوں نے اپنے سپریم کورٹ کے سامنے دفاعی بیان میں لکھا ہے "اگر زور بیان کی بات ہوتی تو لوگ مجھے نہیں عطاء اللہ شاہ بخاری اور شورش کاشمیری کو منتخب کرتے۔ میری ٹوٹی پھوٹی اردو کے باوجود لوگوں نے مجھے منتخب کیا کہ وہ خود ٹوٹے پھوٹے تھے“۔ پی پی پی کا دوسرا کنونشن شیرپاؤ گاؤں خیبر پختونخوا اور تیسرا ہالا میں ہوا تھا۔ یکم جولائی1970ء کو ہالامیں پارٹی کے دوسرے کنونشن کے موقع پر پارٹی کے انتخابات میں حصہ لینے اور جاگیرداروں کو پارٹی میں شامل کرنے کے مسئلے پر اس کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اور نوجوان بائیں بازو کے پارٹی لیڈر اور مقررین معراج محمد خان، طارق عزیز اور دیگر کے درمیان گرما گرم مباحثہ بھی ہوا تھا۔ ” تمہیں چین اور امریکہ کا کیا پتہ میں تمہارے باپ ماؤزے تنگ سے بھی چین میں ملا ہوں“ بھٹونے معراج محمد خان اور ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا تھا۔ بھٹو جب1970 کے انتخابات جیت کر آیا تو کئی ٹوانے، دولتانے، خاکوانی، وٹو ، مہر، جتوئی کئی کنونشن لیگی او ری پبلکن ان کے ساتھ تھے۔ ” معراج محمد خان! ان کو بتاؤ میں سوشلزم کی اس لئے بات کرتا ہوں کہ میری ماں غریب تھی“ بھٹو نے 70کلفٹن پر روتے ہوئے معراج محمد خان سے کہا تھا۔ ان کی صنعتیں قومیانے کی پالیسیوں نے شریف برادران پیدا کئے۔ جن کے حسن سلوک سے متاثر آصف علی زرداری نے بینظیر بھٹو کو ان کی دوسری حکومت میں جتلایا کہ اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو پھر نوازشریف یا ان سے زیادہ دولتمند بننا پڑے گا۔
جب بھٹو عہدہ صدارت کے ساتھ سویلین چیف منسٹر کا عہدہ سنبھال کر آئے تو سب سے پہلے مخالفت ان کے پارٹی ساتھی مختار رانا نے کی جن کے ساتھ ان کا سلوک اب تاریخ کا حصہ ہے۔ پیپلزپارٹی کے پہلے باغیوں میں سے بھٹو کے قریبی ساتھی اور پارٹی منشور کے خالق جے اے رحیم (اور ان کے بیٹوں) خورشید حسن میر، معراج محمد خان، تالپور برادران ( اور ان کے اہل خانہ و قریبی عزیز بشمول میر فیض محمد )،عبدالوحیدعرشی، احمد رضا قصوری، حاکم علی زرداری، فریال تالپور کے سسر میر علی بخش تالپور بھٹو کے زیر عتاب آئے تھے۔ پارٹی کے قیام سے لیکر آج تک اس پارٹی کے اندر انتخابات کبھی بھی منعقد نہیں ہوئے۔ ہمیشہ یونین کونسل سطح سے لیکر مرکزی سطح تک نامزدگیاں ہی ہوئی ہیں۔پھربھی یہ پارٹی کثیرالطبقاتی پارٹی ہے کہ جس میں ٹکا خان سے لیکر جام ساقی تک سب شامل رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس پارٹی کی قیادت جس کا مطلب بھٹو خاندان تھا شیکسپیئر کے المیہ ڈرامے میں کردار کر رہی تھی لیکن بقول میرے دوست کہ اب بھٹو خاندان سے مزید قربانیاں مانگنا عبث ہوگا کہ وہ اپنے حصے سے زیادہ ادا کرچکے ہیں۔ لیکن اگر مجھے پوسٹ بھٹو ضیاء الحق سے لیکر زرداری تک پیپلزپارٹی کی تعریف ایک سطر میں کرنے کو کہا جائے تو کہوں گا گڑھی خدا بخش میں یاسین وٹو کے اپنے سر میں خاک ڈالنے سے لیکر پھر ضیاء الحق کی شوریٰ میں جانے اور پھر منظو وٹو کے پنجاب کے صدر بننے تک کا نام پیپلزپارٹی ہے۔ وہ پارٹی جس نے بینظیر بھٹو کی قیادت میں ملک میں ضیاء الحق آمریت اور اس کی باقیات کے ساتھ اپنے وجود اور جمہوریت کی آخری جنگ تک لڑی ہے۔ جس کے اثاثے اس کے اپنے سروں کے چراغ جلاتے جیالے تھے اب یاروں کے یار کی یاری اس کی کسوٹی ہے؟ اسٹیبلشمنٹ نے اس پارٹی سے سمجھوتہ کرلیا ہے کہ پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ سے یا کہ یہ پارٹی اب بھی اسٹیبلشمنٹ مخالف ہے کہ کرسی بچاؤ تحریک یہ سب عزیز قارئین! آپ کے چشم تصور پہ چھوڑے جا رہا ہوں۔
تازہ ترین