• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ، پنجاب، کے پی میں آئی جیز کی تقرری سوالیہ نشان بن گئی

او پی ایس تقرریوں پر پاکستان کی عدالت عالیہ پابندی لگا چکی ہے، جبکہ وفاقی اور صوبائی کیبنٹس کی منظوری کے بغیر تینوں جونیئر ترین افسران کی آئی جیز کی حیثیت سے تقرریوں کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق آئی جیز کی تقرری سے قبل صوبائی کیبنٹ سے منظوری لیا جانا ضروری ہوتا ہے، تین ناموں میں سے کسی حتمی نام کو منظوری کیلئے وفاقی حکومت کو ارسال کیا جاتا ہے ، جبکہ اس سلسلے میں نہ تو صوبائی کیبنٹ کی میٹنگ ہوئی اور نہ ہی ان افسران کیلئے منظوری سامنے آئی۔

قانون کے مطابق وفاقی کیبنٹ کسی ایک نام کی منظوری دیتی ہے اس نام کی سمری وزیراعظم کو ارسال کی جاتی ہے اور وزیر اعظم کی منظوری کے بعد منظور شدہ نام کی تقرری کے احکامات جاری کیے جاتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق تینوں آئی جیز کی تقرری کے حالیہ احکامات جاری کرنے سے قبل ایسا کچھ نہیں ہوا،جبکہ چند سال قبل اعلیٰ عدلیہ کی سخت ترین احکامات جاری کرتے ہوئے افسران کی ’او پی ایس‘ تقرریوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا ۔

اس وقت موجودہ حکومت نے درجنوں سینئر اور تجربہ کار پولیس افسران کو بائی پاس کرتے ہوئے انتہائی نچلے عہدوں کے من پسند اور اپنے مبینہ اعلیٰ کار پولیس افسران کو سربراہان پولیس بنایا ہے۔

پولیس ذرائع نے اس سلسلے میں تینوں آئی جی پولیس کے او پی ایس ہونے کے معاملے کو بھی غیر قانونی تقرری کا جواز بنایا ہے۔ ذرائع نے اس سلسلے میں کراچی پولیس کے سابق چیف شاہد حیات کو ’او پی ایس‘ کی بنیاد پر عہدے سے ہٹائے جانے کی مثال دی ہے۔

ذرائع کے مطابق سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو سندھ حکومت کی جانب سے عہدے سے ہٹانے کیلئے او پی ایس ہونے کا جواز بنایا گیا تھا اور اب اسی سندھ حکومت کی سفارش پر پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت او پی ایس افسران کی تقرریاں کر رہی ہے۔

اس ساری صورتحال کو جواز بناکر بعض حلقے ان احکامات کو غیر قانونی قرار دے کر عدالتی چارہ جوئی کا سوچ رہے ہیں۔

تازہ ترین