• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سبیتا مشتاق

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مَرد و خواتین کسی بھی معاشرے کے بنیادی ستون ہیں۔ ایسے ستون کہ جن کے بغیر معاشرہ نہ صرف نامکمل، بلکہ اس کا سرے سے تصوّر ہی محال ہے۔ پھر جہاں تک صنفِ نازک کی صلاحیتوں کا تعلق ہے، تو وہ بھی کسی طرح کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین، زندگی کے ہر شعبے میں قابلِ قدر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ وہ ڈاکٹر ہوں یا صحافی، وکیل ہوں یا پائلٹ، حتیٰ کہ اُنھوں نے سیکیوریٹی اداروں میں بھی اعلیٰ عُہدوں پر کام کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ کسی طور مَردوں سے کم تر نہیں اور زندگی کے کسی بھی امتحان میں کام یاب ہونے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔تاہم اس کے باوجود، ایک بہت بڑا طبقہ جدید دَور میں بھی خواتین کو گھر اور خاندان تک محددد رکھنے کا خواہش مند ہے۔ نیز، یہی لوگ خواتین کی صلاحیتوں کو ثانوی درجہ دینے کے درپے ہیں۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں خواتین کے گھر سے ملازمت کے لیے نکلنے کے عمل کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور اسے خاندانی روایات سے بغاوت تصوّر کیا جاتا ہے۔ اس سوچ کے حامل افراد کے مطابق، ملازمت پیشہ خواتین کے باعث خاندان کی عزّت وناموس مجروح اور خواتین کے یوں گھر سے نکلنے پر خاندان کی توقیر میں کمی واقع ہوتی ہے اور بیش تر اوقات اس طرح کے فرضی خدشات اور جھوٹی اَنا کی آڑ میں خواتین کو ملازمت کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ 

ہمارے پڑوس میں ایک خاتون رہائش پزیر تھیں، جو اسکول ٹیچراور پانچ بچّوں کی ماں تھیں۔ ایک روز گھر کے بڑوں نے اُن سے مشورہ کیے بغیر ہی فیصلہ سُنا دیا کہ’’ آج کے بعد تم اسکول نہیں جاؤ گی، کیوں کہ نوکری سے بچّے، خاص طور پر بیٹیاں، نظر انداز ہو رہی ہیں۔ بس، اب تم گھر پر رہو اور تمہاری ضروریات ہم پوری کریں گے۔‘‘ آخر ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ عورت کی اجتماعی حیثیت کے علاوہ، ایک انفردی حیثیت بھی ہے۔ وہ صرف ماں، بہن، بیٹی یا بیوی ہی نہیں ہے، اپنے مستقبل کے حوالے سے اُس کے بھی کچھ خواب ہوسکتے ہیں۔ حالاں کہ عمومی طور پر خواتین اپنے خوابوں کو خاندان کی خواہشات پر قربان کرکے اپنے اردگرد موجود افراد ہی کو ترجیح دیتی ہیں۔ بالکل اُس اسکول ٹیچر کی طرح، جس نے اپنے خاندان اور شوہر کے فیصلے پر ملازمت کو خیر باد کہہ دیا۔

اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خواتین کو صرف گھر اور خاندان ہی میں نہیں، ملازمت کی جگہوں پر بھی بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔’’می ٹو کمپین‘‘ کے تناظر میں دیکھا جائے، تو خواتین کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی صُورت قربانی دیتی ہیں، کیوں کہ مَرد کے حاکمیت زَدہ معاشرے میں دَورانِ ملازمت بھی مسائل کا ایک انبار خواتین کا منتظر ہوتا ہے، یہاں تک کہ بعض اوقات خواتین کی اخلاقی اقدار تک داؤ پر لگ جاتی ہیں۔کراچی ایک میٹرو پولیٹن شہر ہے۔ یہاں مختلف رنگ و نسل اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد رہائش پزیر ہیں، جب کہ غالب اکثریت کا طرزِ زندگی بھی جدید ہے، مگر اس کے باوجود خواتین کے لیے گھر سے باہر جاکر باعزّت روزی کمانا آسان نہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر ہو یا دفاتر، اُنھیں جگہ جگہ میلی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔نیز، عورت خواہ کتنی ہی قابل اور ہنر مند کیوں نہ ہو، اس کا عورت ہونا ہی اُس کی راہ میں رکاوٹ بننے کے لیے کافی ہے۔ اگر کوئی عورت، اپنی ایک الگ پہچان بنانے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیے گھر سے نکل ہی کھڑی ہوتی ہے، تو ساتھ کام کرنے والے مرد، گویا انسانوں کے لبادے میں گدھ، جیسے نوچنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ سخت محنت کے بعد ملنے والی ترقّی اور پروموشن کی راہ میں بھی روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سی خواتین کو اپنی خودداری، اخلاقی اقدار اور عزّتِ نفس پر سمجھوتا تک کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ پھر بدقسمتی سے دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کو آزاد خیال اور گھریلو ذمّے داریوں سے جان چُھڑانے والی خواتین کی کیٹیگری میں بھی شمار کیا جاتا ہے، اس لیے بھی اُن سے خاصی حد تک منفی رویّہ ہی اپنایا جاتا ہے۔ شادی شدہ ہونے کی صورت میں شوہر کے عدم اعتماد یا سپورٹ نہ ملنے کے باعث بھی کئی ملازمت پیشہ خواتین، دفاتر میں پیش آنے والے مسائل سے اپنی فیملی کو آگاہ نہیں کر پاتیں کہ کہیں اُنھیں ہی موردِ الزام ٹھہرا کر گھر پر نہ بٹھا دیا جائے ۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ہم اپنی بیوی، بہو، بیٹی اور ماں کو اتنا اعتماد دیں کہ وہ کسی بھی صُورت اپنی عزّتِ نفس اور اقدار کو مجروح نہ ہونے دے، کیوں کہ کوئی بھی عورت اپنے تجربے اور صلاحیتوں کو اس وقت تک پوری طرح بروئے کار نہیں لا سکتی، جب تک وہ اپنے آپ کو دفتری ماحول میں محفوظ نہ سمجھے۔

مرد اور عورت ،دونوں ہی کے لیے حدود و قیود کا تعیّن ہونا چاہیے۔ دونوں اس بات کو عملی طور پر یقینی بنائیں کہ وہ شعوری طور پر، کسی بھی صورت، کوئی ریڈلائن عبور کرنے سے اجتناب برتیں گے۔ جہاں تک صنفِ نازک کی جانب سے ہراساں کرنے کے واقعات میں محض مَردوں ہی کو ذمّے دار ٹھہرانے کا رویّہ ہے، تو ہمارے خیال میں اس ضمن میں کہیں نہ کہیں عورتیں ہی راکھ میں دَبی چنگاری کو ہوا دینے کی قصوروار ہیں۔ کئی خواتین جَلد ترقّی کی خواہش میں شارٹ کٹ اختیار کرلیتی ہیں اور اس کے لیے اپنی اخلاقی اقدار کو بھی پسِ پشت ڈالنے سے گریز نہیں کرتیں۔ اسی طرح بسا اوقات وہ آفس کی دیگر کولیگز سے منفرد اور بہتر نظر آنے کی خواہش میں بھی اپنا نقصان کر بیٹھتی ہیں۔ ایسی بے شمار زندہ مثالیں موجود ہیں، جہاں دفاتر میں کام کرنے والی خواتین اپنے باسز سے بلاوجہ اپنی مشکلات و مسائل کا تذکرہ کر کے بے جا فوائد حاصل کرتی ہیں اور ان فوائد کے حصول کے لیے کچھ ایسے کام بھی کر گزرتی ہیں، جو اخلاقی و معاشرتی طور پر کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتے۔ پھر یہ بھی کہ بعض اوقات دفاتر میں کام کرنے والی خواتین، اپنے میل کولیگز یا باسز سے ہم دَردی کے حصول کے لیے اپنی گھریلو مشکلات کا تذکرہ بڑھا چڑھا کر کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں میل باسز کو اُن کے قریب آنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس سے ایک طرف تو خود اُن کے لیے مسائل جنم لیتے ہیں، تو دوسری طرف مَرد ملازمین کی فیملیز بھی متاثر ہوتی ہیں۔ خالقِ کائنات نے صنفِ نازک کو ایک خاص قسم کی حِس سے نوازا ہے کہ وہ کسی بھی مَرد کی حقیقی خواہش اور ارادہ فوراً بھانپ لیتی ہے، تو بعض اوقات آپ کا باس اگر آپ پر ضرورت سے زیادہ مہربان ہو اور بغیر کہے آپ کی مدد کرنے پر آمادہ نظر آئے، تو اس بات پر ضرور غور کریں کہ وہ کیوں بلاوجہ اور خصوصی طور پر آپ ہی کو ضرورت سے زیادہ رعایت دینے کا متمنّی ہے؟

پچھلے ہفتے ایک پرانی کولیگ سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ برسوں بعد ملاقات میں وہ خاصی بدلی ہوئی محسوس ہوئیں۔ دَورانِ گفتگو بڑی خود اعتمادی سے اپنے کیریئر کے دَوران حاصل ہونے والی کام یابیوں کا ذکر کرتی رہیں، لیکن گفتگو سے محسوس ہو رہا تھا کہ اُن کی زندگی میں بھی کہیں نہ کہیں کام یابیوں کے علاوہ کچھ تلخ حقائق بھی ہیں۔ اور پھر اچانک ہی اُنھوں نے ایک دَم بھرّائی ہوئی آواز میں کہا کہ’’ میری یہ زندگی ،جو باہر سے دیکھنے والوں کو قابلِ رشک نظر آتی ہے، اس کی اصل حقیقت صرف مَیں ہی جانتی ہوں کہ کن مشکلات کا سامنا کر کے آج اس مقام تک پہنچی ہوں۔‘‘ ان کے کیریئر کے نشیب و فراز جاننے کے لیے اپنے اندر ایک ناقابلِ فہم سی بے چینی محسوس ہوئی، تو پوچھ ہی لیا۔ 

جواباً وہ گویا ہوئیں’’ ملازمت کے ان 14برسوں میں جو کانٹوں بَھرے رستے میں نے طے کیے، میں ہی جانتی ہوں۔ زیادہ تر دفاتر میں میری صلاحیتوں کو جانے، پرکھے بغیر، صرف میرے صنفِ نازک ہونے کو ترجیح دی گئی۔ میل باسز، میری تربیت، مزاج، دینی و اخلاقی اقدار کے برعکس ایسی ایسی آفرز کرتے کہ سرشرم سے جُھک جاتا۔ مگر بہرحال میں نے اپنی عزّتِ نفس کو داؤ پر نہ لگنے دیا۔ سمجھوتے اسی قدر کیے، جس قدر میرے ضمیر نے اجازت دی۔ حالاں کہ دَورانِ ملازمت اس کا بہت زیادہ نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ پروموشن اور تن خواہ میں اضافے کے لیے، میرٹ پر پورا اترنے کے باوجود، میری راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ تاہم، ان تمام مشکلات کے باوجود میں نے کبھی ہمّت نہیں ہاری اور اپنی صلاحیتوں اور اخلاقی اقدار ہی پر بھروسا کر کے ایک کے بعد ایک، کام یابی حاصل کرتی چلی گئی۔‘‘ اس واقعے کا ذکر کرنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ ہمارا معاشرہ خراب مَردوں سے بَھرا ہوا ہے اور عورت کا باعزّت اور پُروقار انداز سے جینا ممکن ہی نہیں۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بہت سی جگہوں پر عورت ہی، دوسری عورت کے خلاف مختلف انداز میں محاذ گرم رکھتی ہے۔ اگر دفتر میں میل کولیگ کا رویّہ کسی فی میل کولیگ کے حوالے سے نرم ہے، تو دیگر خواتین حقیقت کا ادراک کیے بغیر اسے منفی گپ شپ کا حصّہ بنا لیتی ہیں، جس سے مذکورہ عورت کا وقار اور عزّت مجروح ہوتی ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارے اس طرح کے رویّوں سے دوسرے شخص کو کس قدر نقصان پہنچ سکتا ہے۔ نیز، خواتین کا طرزِ گفتگو، لباس اور ظاہری حرکات بہت معنی رکھتے ہیں۔اسی لیے ،بلاوجہ اور غیر ضروری طور پر کسی سے نرم رویّہ اختیار کرنا دراصل، صنفِ مخالف کو منفی پیغام پہنچانے کے مترادف ہے۔ 

اسے انگریزی میں Non Verbal Communicationیعنی’’ اشاروں کی زبان‘‘ کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس طرح کی گفتگو میں آپ کو الفاظ کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی، سامنے والا شخص آپ کی بات آپ ہی آپ سمجھ جاتا ہے۔ بہ حیثیت عورت، مَیں اس بات کی دلیل ہوں کہ جب کوئی عورت، کسی مَرد کے لیے کسی حد کا تعیّن کردے، تو مَرد کبھی اپنے طور پر اس حد سے تجاوز نہیں کرتا، جب تک کہ عورت اس کی حوصلہ افرائی پر آمادہ نہ ہو۔ لہٰذا، بہ حیثیت عورت ہمیں مظلوم بننا چھوڑ کر کسی بھی مَرد کی کردار کُشی کا رویّہ تَرک کرنا ہوگا اور اپنے عمل کی ذمّے داری بھی قبول کرنا ہوگی، کیوں کہ کوئی مرد اُس وقت تک آگے بڑھنے کی ہمّت نہیں کر سکتا، جب تک کوئی عورت اُسے خود موقع نہ دے۔ اب زمانہ بدل رہا ہے، جہاں ہم عورت کی آزادی اور اسے مَرد کے برابر حقوق دینے کی بات کرتے ہیں، Women Empowermetnt پر بڑے بڑے سیمینارز اور ورکشاپس منعقد ہو رہی ہیں، جن میں زیادہ تر عورت ہی کو مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے، تو وہاں ہم پر یہ ذمّے داری بھی عاید ہوتی ہے کہ ہم دوغلاپن تَرک کر کے، دفاتر میں اپنے میل کولیگز سے متعلق اپنے رویّوں کی پوری طرح ذمّے داری قبول کریں۔ گرچہ سننے میں یہ باتیں آپ کو بہت کڑوی لگی ہوں گی، لیکن اسی تناظر میں ملازمت پیشہ خواتین بھی اپنا بے لاگ محاسبہ کریں تو اندازہ ہوگا، یہ باتیں کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔ 

تازہ ترین