پچاس سال ۔پچاس سال کم نہیں ہوتے ،ایک پوری عمر ہوتی ہے۔یہ کمسن بچے کے جوان ہوجانے ،اور پھر کالے بالوں میں سرمئی اور سفید راکھ بھرجانے کی عمرہوتی ہے ۔بچپن میں ایسے وجود کی کہانیاں پڑھی تھیں جس کے کئی کئی سر ہوتے ہیں اور ان سب سروں کی آپس میں جنگ ہوتی رہتی ہے ۔ لیکن وہ تو کہانیوں میں تھا، ہم نے تو ان سروں کی آپس کی جنگیںدیکھی ہیں ۔صرف دیکھی ہی نہیں بھگتی بھی ہیں۔ یہ ماہ و سال صدر ،وزیر اعظم، اور سپہ سالار کے درمیان لڑائیاں اوروفاقی اور صوبائی حکومتوں کے جھگڑے دیکھنے میں ہی گزرے ہیں۔
پہلے کی باتیں چھوڑ دیتے ہیں۔اپنے ہوش کی بات کرتے ہیں۔ شعور کی آنکھ کھلی تھی تو صدر ایوب خان اور سابق وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی معرکہ آرائی دیکھی تھی ۔یہ 1968کی بات ہے۔ذرا آگے بڑھے تو شیخ مجیب، صدر یحیی خان اور بھٹو کی لڑائیوں کے عینی شاہد بن گئے ۔ ملک دو ٹکڑے ہوا اور دل ہزار ٹکڑے۔خدا خدا کرکے نئی حکومتیں بنیں تو بھٹو حکومت اور صوبہ سرحد کی حکومتوں کی چپقلشوں کے گواہ بنے۔ 1977میں ایک ملک گیر تحریک نے بھٹو کے پاؤں اکھاڑے اور مارشل لاء نے انتظام سنبھال لیا ۔ سیاست دان دوبارہ اقتدار میں واپس آئے تو محمد خان جونیجو اور صدر ضیا الحق کی سرد جنگ اور اختلافات کی خبریں ملنے لگیں۔ حتٰی کہ وزیر اعظم جونیجو کو رخصت کردیا گیا۔وزیر اعظم کے بعد صدر بھی گئے لیکن وہ تو دنیا ہی سے رخصت ہوگئے ۔صدارت غلام اسحاق خان کے حصے میں آئی جن کے نووارد وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے جلد ہی اختلافات شروع ہوگئے۔صرف بیس ماہ کے بعد صدر نے اپنے اختیارات استعمال کیے اور اسمبلیوں کو چلتا کردیا۔دوبارہ انتخابات ہوئے۔نواز شریف صاحب نے وزارت عظمٰی سنبھالی اور حسب معمول جلد ہی صدر اور وزیر اعظم میں سر پھٹول دیکھنے کو ملنے لگی۔ حسب دستور اسمبلیاں اور وزارت عظمٰی برخاست ہوئیں لیکن عدالت عظمٰی کے حکم پر کچھ ماہ بعد بحال ہوگئیں۔لیکن گھر کی رونق تو ایک ہنگامے پر موقوف تھی، سو خود سروں کے درمیان پھر لڑائیاں شروع ہوگئیں اور ایک فارمولے کے تحت 1993 میں وزیر اعظم اور صدر دونوں کو مستعفی ہونا پڑا۔خود سردراصل تھا کون ؟ یہ اپنی اپنی تشریح ہے ۔
اب باری تھی نئے صدر فاروق لغاری اور نئی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی۔ان کی کھٹ پٹ حیران کن تھی کیوں کہ دونوں پیپلز پارٹی کے مرکزی قائدین تھے۔اور فاروق لغاری بے نظیر بھٹو کے تحت ڈپٹی اپوزیشن لیڈر کے طور پر بھی کام کرچکے تھے۔انہیں صدر بھی بے نظیر بھٹو ہی نے منتخب کروایا تھا۔اختلافات عروج پر پہنچے تو حسب معمول صدر نے وزیر اعظم اور اسمبلیوں کو الزامات لگا کر رخصت کردیا۔نیا منظرسامنے آیا۔اب کے یہ کردار پرانے صدر فاروق لغاری اور دوسری بار وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کے تھے۔چیف جسٹس بھی اس ہنگامے کا حصہ تھے۔اس بار صدر کو استعفٰی دے کر گھر جانا پڑا۔لیکن سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں۔اب سپہ سالار اور وزیر اعظم کی کشمکش شروع ہوگئی۔ایک دو سپہ سالار جبری رخصت ہوئے لیکن ایک باغی سپہ سالار پرویز مشرف نے آکر تختہ الٹ دیا۔سیاسی بندوبست کی ضرورت محسوس ہوئی توکبھی ظفر اللہ خان جمالی ،کبھی چوہدری شجاعت اور کبھی شوکت عزیز مسند پر بیٹھے،ایک مسلح صدر سے ان کو اختلاف کی مجال ہی کیا تھی ،سو چہرے اور مسندیں مرضی کے مطابق بدلی جاتی رہیں۔
یکساں کبھی کسی کی نہ گزری زمانے میں۔پرویزـمشرف قصہ ٔپارینہ ہوئے۔ آصف زرداری صدارت پر آبیٹھے ۔اب مرکز اور پنجاب کی محاذ آرائی کا ایک بار پھر آغاز ہوا۔ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی تقریریں شروع ہوئیں کہ یہی سیاسی مفاد کا تقاضا تھا۔خدا خدا کرکے یہ دور ختم ہوا ،تیسری بار وزیر اعظم بننے والے نواز شریف براجمان ہوئے ۔صدر ان کے ممنون تھے ان سے لڑائی کی گنجائش نہ تھی اس لیے عدلیہ اورفوج کی طرف رخ کرلیا گیا ۔و زیر اعظم کا دعویٰ تھا کہ میںنے نہیں، انہوں نے میری طرف رخ کرلیا ۔ بہرحال جو بھی تھا، تین سروں کے درمیان پھر جنگ شروع ہوگئی جس میں گاہے گاہے کے پی کا چوتھا سر بھی شامل ہوجاتا تھا۔یہ صورت حال وزیر اعظم کے نااہل ہونے پر ختم ہوئی ،تحریک انصاف نے قیادت سنبھالی اور اب پہلی بار وزیر اعظم بننے والے عمران خان نے جناب عارف علوی کو صدر بنوادیا ۔
پچاس سال کے اس پس منظر میں اور ایک ہی جسم کے کئی سروں اوراور ایک ہی قبیلے کے کئی سرداروں کے درمیان اس مسلسل لڑائی کے تناظر میں عارف علوی کے انتخاب کو دیکھنا چاہیے ۔ پچاس سال کی یہ تاریخ اگرچہ پاکستان کی عمر کے حوالے سے نامکمل ہے لیکن ذرا اسے پلٹ کر دیکھیے ۔واضح ہوجائے گا کہ یہ سب لڑائیاں اصولی ہرگز نہیں تھیں۔سب طاقت کے ارتکاز،شخصی ناپسندیدگی اور انا کے شاخسانے تھے۔کبھی بادشاہ ، کبھی وزیر ، کبھی ملکہ بننے کی خواہش میں یہ سب پتے بار بار پھینٹے گئے تھے۔ اور اس میں عوام کا حصہ بس اتنا تھا کہ انہیں مسلسل پھینٹا جاتا رہا تھا ۔
صدارتی امیدواروں کی شخصیت اور قابلیت کی بات ایک طرف لیکن اس وقت ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ صدر وہ آئے جس کے ساتھ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتیں آسانی کے ساتھ چل سکیں۔اور جس سے کاروبار مملکت کسی پیچیدگی کا شکار نہ ہوں ۔ اسی لیے جناب عارف علوی کے انتخاب کے بعد حکومت نے بھی ایک لمبی گہری اطمینان بھری سانس لی ہے اور پاکستان کو آگے بڑھتے دیکھنے کے خواہش مند دلوں نے بھی ۔یہ انتخاب نون لیگ، پیپلز پارٹی اور جمعیت کے لیے دل خراش ہے۔لیکن سفاک سیاست میںیہ سب تو دیکھنا پڑتا ہے ۔
پر جو خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا
جناب عارف علوی کو صدارت مبارک ہو۔انہیں اگرچہ طالب علموں کی سیاست سے حقیقی سیاست میںآئے قریب قریب نصف صدی ہوچکی ہے، تاہم وہ ابھی تک نووارد کی طرح محسوس ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس طرح کے روایتی سیاست دان نہیںہیں جن کا پس منظر سیاسی خاندانوں سے ہوتا ہے اور وہ سیاست کو موروثی اثاثوں کی طرح خدام میں سے سمجھتے ہیں۔1964کے طالب علم رہنماعارف علوی تحریک انصاف کے بانی ارکان میں سے ایک ہیںا ور ان کی اپنی جماعت کے لیے بے پایاں خدمات ہیں۔ذرا یاد کیجیے وہ زمانہ جس میںکراچی میں غالب اور قاتل گروہ کے مقابل اٹھنے والا اور ان کے خلاف جم کر بات کرنے والاہر شخص جان ہتھیلی پر لیے پھرتا تھا۔احتجاج کیا جائے تو زہرہ شاہد کا انجام سامنے تھا ۔اک آگ کا دریا تھا جس میں ہر ایک کو ڈوب کر ہی جانا پڑتا تھا۔ایسے میں عارف علوی جیسی مثالیں تھیںہی کتنی جن کی گفتگو میں وزن بھی ہو ، طور طریقوں میں شائستگی بھی اور کردار میں بے خوفی بھی۔تحریک انصاف کی شاخ پر آبیٹھنے والے بعد کے پرندے بہت سے ہیں اور ان میں اکثر کی مفاد پرست نیت،مشکوک ماضی اورمشتبہ مستقبل پر بہت سی باتیں ہوتی رہی ہیں لیکن عارف علوی کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں سنی گئی ۔ان کے مخالفوں کو بھی ان کا احترام ہی کرتے دیکھا گیا۔سیاست کی اس کیچڑ بھری گلی میں کیا یہ تھوڑا اعزاز ہے ؟
اصل سوال یہ ہے کہ کیا خود سروں کی روایت ختم ہوئی ؟ اب سروں کی لڑائی کی یہ روایت آگے بڑھے گی یا پاکستان آگے بڑھے گا؟پہلی صورت میں ایک اور عمر کا زیاں ہے ۔ اگرچہ صدر، وزیر اعظم ، سپہ سالار، منصف اعلیٰ، ان سب میں اس وقت ہم آہنگی نظر آتی ہے ۔ لیکن یہ سب قوت کے مرکزہیں ۔ یہ سب سردار ہیں،یہ سب سر ہیں اورسر میں سودا سماتے دیر نہیں لگتی ۔ اقبال کا مصرعہ یاد ہے نا ؟۔
صاحب نظراں! نشۂ قوت ہے خطرناک