• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کامران شیخ

سکھر بیراج

سکھر بیراج دریائے سندھ پر آب پاشی کا سب سے پرانا منصوبہ ہے۔ یہ منصوبہ اُس وقت کی انگریز سرکار نے 1847 میں بنایا تھا لیکن 1923میں حتمی طور پر منظور ہوا اور 1932 میں اس بیراج کی تعمیر کا کام مکمل ہوا۔یہاں بیراج کی تعمیر کی وجہ یہاں قدرتی طور پر موجود چونے کی پہاڑیوں کی مضبوط فاؤنڈیشن تھی۔ سندھ کا صوبہ اس وقت ، چوں کہ بمبئی کا حصہ تھا، اس لیے وہاں کے گورنر سر لائیڈ جارج کے نام پر اسے ’’لائیڈ بیراج‘‘ کہا گیاتھا، لیکن اب اسے سکھر بیراج ہی کہا جاتا ہے۔ 

یہ بیراج 4925 فٹ لمبا ہے، جب یہ تعمیر ہوا تو اتنا لمبا بیراج دنیا میں کہیں نہ تھا۔ اس میں 368در ہیں، یہاں سے سات نہریں نکالی گئی ہیں، جن کی مجموعی لمبائی 6473 میل ہے۔سکھر بیراج کی نہروں سے پچاس لاکھ ایکڑ کا رقبہ سیراب ہوتا ہے،ان نہروں میں بائیں کنارے کی چار نہریں ، نہر روہڑی، نہر مشرقی نارا، نہر مشرقی خیر پور اور نہر مغربی خیر پور ہیں، جب کہ دائیں کنارے کی تین نہریں، نہر شمالی مغربی ،نہر رائس اور نہر دادو ہیں۔

گدو بیراج

مٹھن کوٹ کے مقام پر پنجاب کے پانچ دریا، دریائے سندھ میں مل جاتے ہیں ۔ اس سے پچاس میل جنوب میں کشمور کے قریب گدو کے مقام پر 4445 فٹ لمبا بیراج تعمیر کیا گیا ۔ 

گدوبیراج، صوبہ سندھ میں پنجاب کی سرحد کے قریب واقع ہے،یہ ،سکھر بیراج سے تقریباً نو میل بالائے آب ہے۔ گدوبیراج 1962 میں پایۂ تکمیل کو پہنچا تھا۔ سکھر بیراج کے بعد یہ پاکستان کا دوسرا بڑا بیراج ہے،اس کے نیچے سے دولاکھ کیوسک پانی گزرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس میں 64دروازے ہیں، ہر دروازہ 60فٹ چوڑا ہے۔ 

اس بیراج سے دو نہریں دائیں کنارے اور ایک نہر بائیں کنارے کی جانب سے نکالی گئی ہیں،دائیں کنارے کی نہریں بگاڑی سندھ فیڈر اور پڑ فیڈر جب کہ بائیں کنارے کی نہر گھوٹکی فیڈر کہلاتی ہیں، ان نہروں کی مجموعی لمبائی 700 میل کے لگ بھگ ہے۔ جن سے جیکب آباد ، سکھر ، لاڑکانہ اور صوبۂ بلوچستان کے ضلع نصیر آباد کے میدانی علاقے میں 30لاکھ ایکڑز زمین سیراب ہوتی ہے۔ پٹ فیڈر سے بلوچستان کو پانی فراہم کیا جاتا ہے، جس سے وہاں کا ایک بڑا رقبہ سیراب ہوتا ہے۔

کوٹری بیراج

یہ بیراج سکھر بیراج سے 250میل نیچے کوٹری(ضلع جام شورو) کے نزدیک تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ 3000فٹ لمبا ہے، اس سے چار نہریں نکالی گئی ہیں، جو حیدر آباد ، ٹھٹھہ اور دادو کے اضلاع میں اٹھائیس لاکھ ایکڑ اراضی کو پانی مہیا کرتی ہیں۔

دائیں کنارے والی نہر جو کوٹری کہلاتی ہے، کراچی کو بھی پانی فراہم کرتی ہے۔ یہ بیراج 1955 میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔

تونسہ بیراج

یہ بیراج کالاباغ ہیڈورکس سے 80 میل جنوب کی طرف دریائے سندھ پر واقع ہے، یہ پاکستان کا پندرھواں اور دریائے سندھ کا چوتھا بیراج ہے۔ 

اس کی تعمیر پر ساڑھے بارہ کروڑ روپے صرف ہوئے ،اس سے دو نہریں نکالی گئی ہیں، جن میں سے ایک ضلع مظفر گڑھ کو اور دوسری ڈیرہ غازی خان کو سیراب کرتی ہے۔ اس بیراج سےنہ صرف لاکھوں ایکٹر زمین سیراب ہوتی ہے بلکہ دوسرے کئی فوائد بھی حاصل کیے جاتے ہیں۔ 

اس کی تعمیر سے ڈیرہ غازی خان تک جانے کے لیے خشکی کا راستہ بھی نکالا گیا ،جس کی وجہ سےڈیرہ غازی خان کادوسرے حصوں سے براہ راست تعلق قائم ہو گیا ہے۔

تازہ ترین