اقوام متحدہ کے ساتویں سیکرٹری جنرل (1997تا 2006) کوفی عنان کا 80 سال کی عمر میں 18اگست کو سوئٹزرلینڈ کے شہر برن میں انتقال ہوا اور کوفی عنان فائونڈیشن سے اس کا اعلان بھی فوراً کردیا۔ عالمی شخصیات اور سربراہان مملکت و حکومت نے اپنے تعزیتی پیغامات بھی جاری کردیئے۔ اقوام متحدہ کا پرچم بھی سرنگوں ہوا لیکن تادم تحریر ان کی تدفین اس کالم کی اشاعت کے بعد 13 ستمبر کو ہوگی۔ موت اور تدفین کے درمیان 25 روز کا طویل وقفہ جستجو اور فکر و تدبر کی دعوت بھی دیتا ہے۔ وہ اقوام متحدہ کی تاریخ میں پہلے افریقی نژاد سیاہ فام سیکرٹری جنرل تھے اور دو مرتبہ سیکرٹری جنرل کے عہدے پر یکے بعد دیگرے منتخب بھی ہوئے۔ وہ اس لحاظ سے بھی تاریخ کے پہلے ایسے سیکرٹری جنرل تھے جو اقوام متحدہ کے نظام میں ہی مختلف عہدوں پر ترقی پاتے ہوئے سیکرٹری منتخب ہوئے۔ مگر اپنے تمام تر انتظامی تجربہ اور مذکورہ تمام تاریخی پہلوئوں کےباوجود مختلف حلقوں کی جانب سے ان پر سخت تنقید، الزامات بلکہ ایک موڑ پر استعفیٰ کا مطالبہ بھی سننے کو ملا۔ تنازع کشمیر پر انہوںنے ماضی سے مختلف ایسا موقف اختیار کیا کہ جو نہ تو تنازع کی صورتحال تبدیل کرسکا اور نہ ہی بھارت یا پاکستان ناراض ہوسکے اور وہ اقوام متحدہ کی اس معاملے میں عالمی ذمہ داریوں کو بھی سائیڈ لائن کرکےنکل گئے۔ ان کی سیکرٹری جنرل شپ کے دوران امن و جنگ اور دیگر عالمی امور کی صورتحال اتنی پریشان کن اور کنفیوژن کا شکار رہی کہ بعض حلقے انہیں برتر عالمی طاقتوں کا معاون اور ان کے ایجنڈے میں مددگار ہونے کا الزام دیتے جبکہ کوفی عنان کے مداح اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ اقوام متحدہ انٹرنیشنل برادری کا ادارہ ہے اور یہاں وہی کچھ ہوتا ہے جو اقوام متحدہ کے میکنزم میں موجود عالمی برادری کی خواہش ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل عالمی برادری کے فیصلوں کا پابند ہے۔ کوفی عنان سے پہلے بھی یہ اصول کارفرما رہا ہے اور ان کے بعد آنے والے سیکرٹری جنرل بھی اسی اصول کے پابند ہیں۔ اس کے باوجود کوفی عنان ایک عالمی مدبر، ڈپلومیٹ اورعالمی شخصیت تھے جو انتہائی بحران اور دشوار حالات میں بھی نہ صرف امن کیلئے سرگرم رہے بلکہ انہوں نے اقوام متحدہ کی تاریخ میں اپنا تاثر چھوڑا ہے۔
کوفی عنان افریقی ملک گھانا کے شہری اور سپوت تھے۔ انہوں نے تعلیم کی تکمیل کے بعد اقوام متحدہ جنیوا میں ایک نوجوان افسر کے طور پر ذیلی ادارہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن میں سروس کا آغاز کیا اور ساتھ ہی ساتھ مزید تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز نیویارک میں بھی مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیں اور ممتاز امریکی تعلیمی اداروںسے بھی ایوارڈز حاصل کئے اور اقوام متحدہ کے پیس کیپنگ آپریشنز کے امور کے انڈر سیکریٹری جنرل کے عہدے تک جاپہنچے۔ کشمیر میں پاک۔بھارت کنٹرول لائن پر متعین اقوام متحدہ کے مبصرین کا مشن بھی کوفی عنان کی نگرانی میں تھا۔ اسی دوران اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بطرس غالی کی سبکدوشی سے قبل نئے سیکرٹری جنرل کی تلاش شروع ہوئی اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کے درمیان اثر و رسوخ اور حکمت عملی کی ابتدائی پنجہ آزمائی کے بعد پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کے نظام کے اندر سے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر کوفی عنان کو نامزد اور پھر منتخب کرلیا گیا۔ اقوام متحدہ میں مختلف عہدوں پر سروس کے دوران کوفی عنان بڑی سادگی کے ساتھ یو این کے انٹرنیشنل سرونٹ کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے لیکن سیکرٹری جنرل بنے تو فرنٹ لائن پر آکر عالمی طاقتوں کے کھیل اور ایجنڈے کا سامنا کرنا پڑا۔ سوویت یونین کی مملکت ٹوٹ کر چھوٹے آزاد ملکوں میں تقسیم ہوچکی تھی اور عالمی صورتحال پر اس کے اور دیوار برلن کے ٹوٹ جانے کے اثرات موجود تھے۔ سابق یوگوسلاویہ کے علاقوں میںنسلی و مذہبی منافرت کو بنیاد بناکر بوسنیا ہرزوگوینا اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں کا خون کھل کر بہایا جاچکا تھا۔ خلیج کی جنگ اور کویت کی تباہی کے منفی اثرات عالمی سطح پر مرتب ہوچکے تھے۔ بارود اور خون کی فراوانی پر ہر سمت اور ہر سطح پر غیریقینی کا دور دورہ تھا۔ 1997 میں کوفی عنان نے عہدہ سنبھالا اور عالمی برادری کے فیصلے کے مطابق عراق کے تمام ہتھیار تباہ کرکے اسے غیر مسلح کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ عراق پر پابندیوں اور غیرمسلح کئے جانے کے ایام میں مغربی ملکوں کی کمپنیوں نے عراق کے تیل اور دیگر اثاثوں کی جو بے دردی کے ساتھ لوٹ مار کی وہ انسانی تاریخ کا المناک حصہ ہے۔ پھر ’’آئل فار فوڈ‘‘ کے عنوان سے جو پروگرام شروع کیا گیا اس کا بنیادی مقصد عراق کے تباہ شدہ عوام کو تیل کے بدلے خوراک اور دیگر لازمی ضروریات کی اشیاء فراہم کرنا تھا اس کیلئے اقوام متحدہ کی قرارداد اور میکنزم کی آڑ میں بھی ایسی کرپشن ہوئی کہ کوفی عنان اور اقوام متحدہ کے متعدد اہم عہدیداروں کو بھی الزامات کی لپیٹ میں لے لیا گیا جبکہ اس گیم کے اہم پلیئر بچ نکلے۔ کوفی عنان سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی ہوا اور ان کے چیف آف اسٹاف (شیف دی کیبنٹ) پاکستانی اقبال رضا بھی محض فروعی الزامات کے تحت مستعفی ہونے پر مجبور کردیئے گئے۔ اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹرز سفارتی و الزامی جنگ کا ایسا محاذ نظر آتا تھا کہ جس میں ہر طرف سے یلغار کوفی عنان اور ان کے معاونین و مداحین پر کی جارہی تھی۔ اس کی اصل وجہ میرے مشاہدے کے مطابق یہ تھی کہ کوفی عنان عراق کے خلاف جنگ اور پابندیوں کے حق میں نہ تھے۔ وہ اقوام متحدہ کے چیف انسپکٹر سویڈش نژاد ہانس بلکس کی اس رپورٹ کے حامی تھے کہ عراق کے پاس انسانی تباہی کے بائیولوجیکل یا کیمیائی ہتھیار نہیں ہیں لہٰذا عراق پر حملے کی ضرورت نہیں۔ ہانس بلکس کو اس رپورٹ کے باعث جس انداز سے یو این او سے فارغ کیا گیا وہ مناظر اور لمحے مجھے آج بھی یاد ہیں کہ ہانس بلکس اقوام متحدہ کی عمارت میں میرے کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے آخری بار جو جملے ادا کررہے تھے وہ بعد میں کتنے سچے ثابت ہوئے۔ ان حقائق کو بیان کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ افریقی ملک گھانا کے کوفی عنان افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے ممالک کے مسائل کو سمجھتے تھے اور اقوام متحدہ کے میکنزم سے بھی واقف ضرور تھے مگر بڑی طاقتوں کی اقوام متحدہ پر اجارہ داری اور اقوام متحدہ کے میکنزم میں اپنی بے اختیاری سے بھی واقف تھے۔ اسی لئے جب کبھی میں نے ان سے کسی پریس کانفرنس یا بریفنگ میں تنازع کشمیر حل کرانے میں رول ادا کرنے کے بارےمیں سوال کیا تو انہوں نے اپنے ذہین بھارتی نژاد معاون ششی تھرور کے مشورے پر یہ موقف اختیار کرلیا کہ ہاں میں بطور سیکرٹری جنرل مسئلہ کشمیر میں اپنا رول ادا کرنے کو تیار ہوں بشرطیکہ بھارت اور پاکستان دونوں مجھے ایسا رول ادا کرنے کو کہیں۔ جب کشمیر بارے سلامتی کونسل کی قراردادوں کا حوالہ دیا جاتا تو جواب ملتا کہ عالمی برادری مجھے حکم دے، میں تعمیل کیلئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کو تیار ہوں۔
مجھے کوفی عنان کے نو سالہ دور میں ان کا قریب سے مشاہدہ، گفتگو اور شخصیت سمجھنے کے مواقع ملے۔ اقوام متحدہ میں گزشتہ 70 سال سے قائم اور اقوام متحدہ سے تسلیم شدہ صحافیوں کی عالمی تنظیم ’’یو این کارسپانڈنس ایسوسی ایشن کے فنانس سیکرٹری تین مرتبہ سیکرٹری جنرل منتخب ہوکر صحافیوں کے مسائل و مراعات بارے بھی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے کئی مراحل سے گزرنا پڑا لیکن اقوام متحدہ ہیڈ کوارٹرز میں متعین دنیا بھر سے صحافیوں کی اس تنظیم کے معاملات میں کوفی عنان اور ان کے معاونین کو ہمیشہ مفید اور ہمدرد پایا۔ سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر 11ستمبر 2001کے بعد کے مشکل حالات کے باوجود جب میں اپنے انتخابی حریف امریکی صحافی کو الیکشن میں شکست دیکر عالمی صحافیوں کی تنظیم کا صدر منتخب ہوگیا تو اسی روز کوفی عنان نے اپنے معاون برائے میڈیا کے ذریعے جو ہمت افزا پیغام دیا وہ مسلمانوں کیلئے سخت کشیدہ حالات کے اس دور میں ایک پاکستانی مسلمان صحافی کیلئے بڑی ہمت افزائی اور اعزاز کا باعث تھا۔ کوفی عنان اقوام متحدہ کے میکنزم اور اپنے عہدہ کے دائرہ اختیار کی حدود کی پاسداری پر مجبور تھے۔ اسی لئے جب ان کیخلاف عراق کیلئے آئل برائے خوراک کے پروگرام کے حوالے سے الزامات کی مہم چلائی گئی تو وہ انتہائی تحمل اور وقار کے ساتھ وضاحت اور اپنا موقف بیان کرنے پر اکتفا کرتے۔ ایک بار کوفی عنان پاکستان کے دورے پر آئے، میرے محترم ریاض محمد خان سیکرٹری خارجہ تھے اور میں ذاتی مصروفیات کے سلسلے میں پاکستان اسلام آباد میں موجود تھا۔ ریاض محمد خان مجھے اپنے ہمراہ ایئرپورٹ لے گئے، سیکرٹری جنرل کوفی عنان کے ترجمان فریڈ اکہارڈ نے مجھے دیکھا اور سیکرٹری جنرل کو بھی مطلع کردیا۔ میں ان دنوں خدا کے فضل سے عالمی صحافیوں کی تنظیم کا صدر تھا۔ ترجمان فریڈ اکہارڈ نے اسلام آباد میں میزبانوںکو مطلع کردیاکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل جو پریس کانفرنس کرنیوالے ہیںاسکا آغاز یو این کی صحافتی تنظیم کا صدر کرے گا۔ ابتدائی گفت و شنید اور فریڈ اکہارڈ کے سخت موقف کے بعد مسئلہ طے پایا۔ کوفی عنان کی پریس کانفرنس کے آغاز پر وزارت اطلاعات کے افسر محترم ندیم کیانی (موجودہ پوسٹنگ اوٹاوا کینیڈا) نے اعلان کرتے ہوئے مجھے پریس کانفرنس کا آغاز اپنے خیرمقدمی کلمات اور سوال سے کرنے کو کہا۔ نیویارک واپسی کے بعد ترجمان فریڈ اکہارڈ نے اسلام آباد کے واقعہ کی جو تفصیل مجھے بتائی وہ بطور پاکستانی میرے لئے خفگی کا باعث اور کوفی عنان کا دلی شکریہ ادا کرنے کا باعث بنی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)