• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کو میک ان پاکستان طرز معیشت کی ضرورت ہے، شبر زیدی

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں میزبان محمد جنید سے گفتگو کرتے ہوئے ٹیکس امور کے ماہرشبر زیدی نے کہا ہے کہ ٹرانسپورٹ میں سبسیڈی ہونی چاہئے لیکن کتنی اور کہاں دی جائے یہ الگ سوال ہے،کوئی بھی ملک 16ارب کے خسارے پر زندہ نہیں رہ سکتا، انڈسٹری چلانا وفاق کا کام نہیں صوبوں کا ہے ،پچھلے چالیس سال سے پاکستان کو ٹریڈنگ اسٹیٹ بنادیا گیا ہے،کیاوجہ ہے کہ ہردس سال بعد ہمارا کشکول خالی ہو جاتا ہے،درآمدی معیشت کےنظام نے مقامی مارکیٹ تباہ کردی،ملک کو میک ان پاکستان طرز کی معیشت کی ضرورت ہے،عام انڈسٹری کی تباہی کا تعلق ایک حکومت سے نہیں ،چالیس سال کی کہانی ہے،ن لیگ کے رہنما خرم دستگیر خان نے کہاکہ میٹرو بس خراب آئیڈیا تھا تو پشاور میں ستر ارب کا میٹرو منصوبہ کیوں بنایا گیا،حکومت نے سی پیک کو مشکل میں ڈال دیا،اللہ جانے مستقبل کیا ہوگا،پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ حکومت کے اقدامات سے زیادہ بوجھ غریب پر آرہا ہے،تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز نے کہا کہ عوام کو سچ بتائیں گے، پشاور میٹرو میں سبسڈی دینی پڑی تو کم ترین سطح پر لائینگے،جو قانون پاکستان کے لئے ہوگا وہی خیبر پختوتنخوا پر لاگو ہوگا۔ میزبان محمد جنید نے کہا کہ وفاقی حکومت کے بڑے بڑے فیصلے ایک طرف وہ فیصلے جن سے عوام میں تشویش پھیل رہی ہے اور کچھ نئی مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں اور دوسری طرف وہ فیصلے ہیں جس میں شاید عوام کی بھلائی نظر آرہی ہے کیونکہ یہ فیصلے کئے جارہے ہیں کہ جو سرکاری رہائش گاہیں ہیں وزیراعظم ہاؤس سمیت گور نرہاؤسز اور دیگر مہمان خانے ان سے متعلق اہم فیصلے کرلئے گئے ہیں ا ور وفاقی وزیر شفقت محمود صاحب کی جانب سے اس کی تفصیل بھی بیان کردی گئی ہے لیکن طرف وہ معاملہ ہے جس میں ٹیکس رعایتیں ختم کی جارہی ہیں سبسڈی جو پبلک پراجیکٹس میں دی جارہی ہے اس کو بھی ختم کیاجاسکتا ہے کیونکہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اہم فیصلے ہوئے ہیں اس کی تفصیل سامنے آگئی ہے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری صاحب نے کافی تفصیلی طور پر بیان کیا کہ کتنے اخراجات آرہے تھے وزیراعلی ہاؤس پر ایوان صدر پر وزیراعظم ہاؤس پر گورنر ہاؤسز پر اور پھر انہو ں نے میٹروپراجیکٹس یعنی بسز کا جو پراجیکٹ ہے پنڈی اسلام آباد ملتان لاہور اس کی سبسڈی کی تفصیل بھی بتادی ہے آگے اس پر فیصلہ کیاکیا جائے گا کیا عوام ان وعدوں پر ذہن میں رکھے جو تحریک انصاف کی طرف سے کئے گئے پبلک کو ریلیف دینے کے یا پھر اس چیز کو سوچے کہ تحریک انصاف بھی انہی سمجھوتوں کے تحت فیصلے کررہی ہے جس سمجھوتوں کا شکار ہر حکومت ہوتی ہے۔ ہم بات کریں گے تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر شبلی فراز صاحب سینیٹ میں قائد ایوان ہیں ہمارے پروگرام میں موجود ہیں پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما نوید قمر صاحب رکن قومی اسمبلی ہمارے ساتھ موجود ہیں خرم دستگیر خان صاحب رکن قومی اسمبلی مسلم لیگ ن ہمیں جوائن کررہے ہیں اور ٹیکس امور کے ماہرشبر زیدی صاحب بھی ہمارے ساتھ اس پروگرام میں شامل ہوں گے شبلی فراز صاحب سے ہی پہلے بات کر لیتے ہیں شبلی صاحب جو پبلک پراجیکٹس ہیں پوری دنیا میں یہ ایسے ہوتا ہے کہیں بھی شاید ٹرین یا بس کے پراجیکٹس پروفٹ میں نہیں جاتے حکومت ٹیکس کے ریونیو سے سہولت دیتی ہے اپنے ملک کے عوام کو اپنے شہر کے لوگوں کو تحریک انصاف کیا واپس لے لے گی سبسڈی تمام پبلک پراجیکٹس سے خاص طور پر میٹرو بسز سے ؟ شبلی فراز: … دیکھئے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کی تفصیلات ابھی نہیں معلوم کہ اس کی کیا طریقہ کار کیا ہوگا کس حد تک سبسڈی کو کیا جائے گا واپس لیاجائے گا لیکن آپ نے جن ملکوں کا حوالہ دیا ہے بنیادی طورپر ان کے جو فزکل ڈیفی سیٹ یا ان کی جو قرضہ جات ہیں Versus there earningsوہ بہت بہتر ہوتے ہیں ٹھیک ہے تو وہ تو سبسڈی دے سکتے ہیں یہاں پر جب سارا سسٹم ہی فراڈ ہے جوکہ ایک اس پر بنیاد پر ایک پاپولسٹ بنیاد پر ایک پراجیکٹ شروع کئے جائیں اور Expensiveپراجیکٹس ہوں اور Prioritiesنہ ہوں تو پھر یہی ہوتا ہے کہ ان پراجیکٹس کو چلانے کے لئے پھر آپ مسلسل سبسڈی دیتے ہیں ہم نے دیکھا ہے ہمارے سارے ادارے سبسڈی پر چل رہے ہیں آپ کوئی سیکٹر لے لیں آپ بجلی کا سیکٹر لے لیں وہ سبسڈی پر ہے گیس کا لے لیں سبسڈی پر ہے آپ جتنی پبلک سیکٹر کے اور کمپنیز ہیں ہر چیز سبسڈی پر ہے اس ملک میں ریونیو جنریشن ہوتی نہیں ہے او ر سبسڈی ہم ایسے دےئے جاتے ہیں یعنی کہ آپ ہر ادار ے کو یا ہر اس محکمے کو بیساکھیوں پر چلاتے رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے پاؤں میں چلنے کی سکت ہی ختم ہوگئی ہے ہم نے اگر چیزوں کو آگے لے جانا ہے تو اس میں ہمیں اپنی چادر دیکھ کے پاؤں پھیلانے ہیں ہم نے وہ والے پراجیکٹس کرنے ہیں جو کہ SustainableہوںSelf sustainableہوں ٹھیک ہے اور ملکوں میں ہوتا ہے کہ جو ٹرانسپورٹ کی یا کچھ چیزوں کی سبسڈی ہوتی ہے لیکن ان کی مالی حالت اتنی خراب نہیں ہوتی جتنی کہ ہماری ہے ہمیں تو آپ دیکھئے نا کہ جتنے ہمارے قرضہ جات جس رفتار سے بڑھ رہے ہیں کہ ہمیں قرضے دینے کے لئے بھی اتنا ہی قرضہ لینا پڑتا ہے تو ظاہر ہے کہ سبسڈی دینا اس میں سبسڈی یا تو ہو کہ ٹارگٹڈ سبسڈی ہو اور یا جو ہے تو بالکل ہی نہ ہو ۔ محمد جنید : …یہ اس لئے سب سے پہلے آپ سے شبلی صاحب اس لئے پوچھا کہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے لوگ روز مرہ استعمال کررہے ہیں بسز کیونکہ خیبر پختونخوا کی حکومت بھی بنارہی ہے بس ٹریول پراجیکٹس تو اب سبسڈی اتنی بڑی رقم ہے اربوں روپے کا ہے اور انہوں نے ملتا ن میٹرو کی تفصیل نکال کے کہا کہ 2.1 ارب روپے سبسڈی ہے یہ اگر ہٹا لی تو یہ تو پراجیکٹ بند نہیں ہوجائیں گے کیا آپ کی حکومت سوچ رہی ہے فیصلہ کررہی ہے کہ کسی تھرڈ پارٹی کو دینا ہے پرائیویٹائز کرنا ہے کس طرح سے چلانا ہے بند تو نہیں کرسکتے؟ شبلی فراز : …میں نے تو اسی لئے یہی کہا کہ مجھے ابھی یہ کیبنٹ میٹنگ ابھی ختم ہوئی ہے اور ظاہر ہے یہ جو ہمارے انفارمیشن منسٹر کی پریس کانفرنس تھی میں نے دیکھی نہیں Becauseمیں راستے میں آرہا تھا تو اس کی جب تفصیلات مجھے ملیں گی تو شاید میں اس پر پھر کمنٹ کرسکوں ۔ محمد جنید: … نوید صاحب یہ صحیح فیصلہ ہوگا کہ اگر حکومت وہ کہہ رہے ہیں ٹیکس اسٹرکچر ریونیو ٹھیک نہیں ہے اس کو ٹھیک کرنے کے بجائے فوراً سے سبسڈی نکال لینا جو عوام کے روزانہ استعمال کی سروس ہے بہت زیادہ تکلیف دہ اور مشکلات نہیں کھڑے کردے گا یہ فیصلہ تحریک انصاف کا ؟ نوید قمر : …دیکھئے یہ آئیسولیشن میں صرف اس ایک چیز کو نہ دیکھیں کہ میٹرو کو واقعی جو ہے فنانشلی Viableبنانا چاہیے تھا It was executedاور صرف اس کو اتنی بڑی سبسڈی کے بیسز پر بنانا مناسب نہیں تھا But اب جب کہ بن گیا ہے جب آپریشنل ہے تو اب Suddenlyپوری سبسڈی اس سے ہٹا دینا اور پراجیکٹ کو پھر سے Unviableکر کے اور Almostبند کردینا جو ہے وہ بھی تو کوئی Solutionنہیں ہے اس ساری چیز کا So I donʼt knowکہ گورنمنٹ اس کا کیا ڈائریکشن دے گی اور پھر اس کو جو ہے صرف یہ ایک ایریا نہیں ہے جہاں پبلک ایڈلارج کو جیب سے زیادہ پیسے دینا پڑیں گے دیکھیں اگر آپ گیس کی قیمتیں بڑھاتے ہیں اگر آپ بجلی کی Simultaneouslyقیمتیں بڑھاتے ہیں آپ ٹرانسپورٹ کی قیمتیں اسی وقت بڑھارہے ہیں آپ ٹیکسیشن کو جو ہے Both direct and indirectآپ امپورٹس کو جو کہ Ultimatelyپھر جو ہے کامن مین کی استعمال میں آتا ہے تو ادھر بھی بڑھارہے ہیں اور اب جو ٹیکس کنسیشنز ہیں انکم ٹیکس سائیڈ پر اس کو بھی جو ہے ختم کررہے ہیں تو …بندہ ہے جو ہے جوکہ اپنے گھرکا بجٹ بناتا ہے آپ دیکھئے تو صحیح اس کی حالت ایک دن میں یا ایک ہفتے یا پندرہ دن میں کہاں سے کہاں چلی جائے گی ‘ ہاں تبدیلی ‘ تبدیلی کا کیا مطلب یہ ہے کہ بندے سارے کے سارے جو ہیں وہ Hand to mouthہوجائیں اور ان کو یہ بھی نہ پتا چلے کہ ہم مہینے کا خرچہ ہمارے گھر کا کیسے چلائیں گے۔ محمد جنید : …آپ نے ایک بات کی کہ Profitableبنانا چاہیے تھا پراجیکٹس کو خرم صاحب مسلم لیگ ن کی حکومت کی یہ فلیگ شپ شوکیس پراجیکٹس تھے میٹروبسز لاہور سے شروع ہوئی پھر پنڈی اسلام آباد ملتان یہ کہہ رہے ہیں نوید صاحب کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو ہی پلاننگ صحیح کرنی چاہیے تھی کہ ان کی کسی حد تک تو ان کو منافع بخش بنایاجاتا اب تحریک انصاف انہی کی سبسڈی کے پیچھے جاتی نظر آ رہی ہے فوراً؟ خرم دستگیر :…سب سے پہلے بات تو یہ ہے کہ اگر میٹرو بس اتنا ہی خراب آئیڈیا تھا تو پشاور میں 70ارب روپے کی کیوں بن رہی ہے میٹرو بس کیا وجہ ہے یا اس کو فزیبل بنالیاگیا ہے یا وہ ہمیں کہتے جی ہمارے پاس اس قسم کے چمتکار ہیں کہ ہم نے یہ فارمولا پشاور میٹرو کو Profitableبنانے کا ہم نے حاصل کرلیا ہے نسخہ کیمیااور لہذا جو ہے اب ہم اس کو استعمال کر کے تو باقی میٹرو کو بھی ہم لیکن سبسڈی ہٹانا تو آپ دیکھیں نا اس گورنمنٹ کی جو ابھی تک ان چند تین ہفتے سے اوپر چوتھا ہفتہ جارہا ہے کہ کیا اکنامک پالیسی باہر آئی ہے کہ ہم نے چندے سے پراجیکٹس بنانے ہیں ڈیم بنانے ہیں ہم نے سبسڈی ہٹانی ہے ہم نے یوٹیلیٹز کی قیمتیں بڑھانی ہیں گیس کی اور بجلی کی اور یہ بھی ایک عجیب مذاق ہے کہ بھینسیں تک بیچنی ہیں I mean یہ کس قسم کی پالیسی ہے جو ہمیں نظر آرہی ہے اس میں ہمارا تو خیال تھا کہ شاید ایک افکار تازہ نظر آئیں گے تحریک انصاف کی گورنمنٹ میں لیکن یہ تو تازہ دودھ اور پنیر کے پیچھے پڑ گئے ہیں کہ جی پنیر بند کریں گے تو شاید پاکستان کی اکانومی کھڑی ہوجائے گی میری ان سے استدعا ہوگی یہ سبسڈی Withdrawکرنے سے پہلے اس بات کو سوچیں کہ جب پاکستان مسلم لیگ ن میں پانچ سال پہلے 2013ء میں پراجیکٹ شروع کیا تھا میٹرو بس کا مکمل کیا تھا اس سے پچھلے 50 سال میں پاکستان کے کسی بھی صوبائی اور فیڈرل گورنمنٹ نے اربن پبلک ٹرانسپورٹ میں انویسٹ کرنا بند کردیا تھا 50 سالوں سے اب اگر انویسٹمنٹ ہوئی ہے اور جس طرح آپ نے درست کہا کہ پوری دنیا میں جہاں ڈیڑھ ڈیڑھ سو سال سے Undergroundاور میٹروز چل رہی ہیں تو آج بھی ان کو گورنمنٹ سبسڈائز کرتی ہے کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ ایک ایسا Collective public goodہے جس کو گورنمنٹ کی طرف سے بجٹ جانا چاہیے اوریہ پھر میں یہی کہوں گا کہ جو نسخہ کیمیا اگر انہو ں نے پشاور میں جو ہے دریافت کر لیا ہے 70ارب روپے کی لاہور میٹرو بنی ہے 69 ارب کچھ روپے کی پشاور میٹرو 70کی بن رہی ہے تو اگر اس کو انہوں نے Profitableبنانے کا فارمولا حاصل کر لیا ہے تو ذرا ان کی حکومتیں اس کے اوپر اپلائی کردیں۔ محمد جنید : …یہ دو باتیں ہیں آپ کی آگئیں امریکا میں بھی ٹیکس ریبیٹ ملتا ہے پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے سے اور برطانیہ میں بھی ہے انڈر گراؤنڈ بس کے ٹرین کے پراجیکٹ پر اس پر بھی 70 فیصد سے زیادہ سبسڈی دی جاتی ہے لیکن شبلی صاحب کہہ رہے ہیں وہ امیر حکومتیں ہیں؟ خرم دستگیر :…یہ غریب ترین لوگوں کے لئے ہے جو گاڑیاں Affordنہیں کرسکتے اور اس کے اب اس دور میں آکے Environmentalبینی فٹس لوگوں نے حاصل کئے ہیں It is a public good which is work spending money on محمد جنید :…اس کا تو جواب شبلی صاحب نے دیا ہے وہ امیر حکومتیں ہیں برداشت کرسکتی ہیں یہاں پر ابھی ریونیو کے بڑے مسئلے ہیں لیکن آپ کا جو سوال ہے پشاور میں کیوں بنارہے ہیں شبلی صاحب ۔ خرم دستگیر : …نہیں نہیں امیر حکومتوں کی بات ترجیح کرنے کی احتیاط میں ترجیح جو ہے وہ لوگ جو بڑی بڑی گاڑیاں چلارہے ہیں ان کو دینی ہے یا ان کو ترجیح دینی ہے جو غریب لوگ ہیں اور چند روپے میں اپنے گھروں سے اپنے کام تک جارہے ہیں۔ محمد جنید :…مجھے ذرا شبر صاحب کے پاس جانا ہے لیکن شبلی صاحب اگر یہ پراجیکٹس Viableنہیں ہیں یہ کہہ رہے ہیں فواد چوہدری کہ پنجاب سبسڈی دینے سے آج انکار کردے تو یہ میٹرو پراجیکٹ بند ہوجائے گا تو پھر پشاور میں 70ارب کی میٹرو کیسے چلے گی بننے کے بعد؟ شبلی فراز : …دیکھیں پہلی بات تو یہ ہے کہ اس میں یہ بھی ہوسکتاہے جس طرح میں نے اس میں کہا کہ ڈیبٹیلز نہیں پتا لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ سبسڈی کو فیز آؤٹ کریں گے it put be immediateمیرا نہیں خیال ہے کہ اس کو فیز آؤٹ کرتے ہوئے ایک Graduallyاس کو کم کریں گے اور دوسری بات ہے کہ جو اپلائی پاکستان میں ہوگا وہ خیبر پختونخوا کے لئے بھی اپلائی کرے گا یہ نہیں ہے کہ خیبر پختونخوا کے لئے کوئی اور لاء بنے گا اور یہاں کے لئے کوئی اور ہوگا یہ تو یہ ایک نیشنل پالیسی ہے دوسری بات یہ ہے کہ جی دیکھیں بات یہ ہے کہ آپ نے یہ ضرور دیکھنا ہے کہ ہم کس کس چیز پر سبسڈی دیتے ہیں ٹھیک ہے امریکا میں جو ایگری کلچر ہے اس کو بھی سبسڈی ملتی ہے لیکن ان کی اکانومی بڑی روبٹزاکانومیز ہیں ہماری اکانومی میں ابھی شبر صاحب آپ کو بتائیں گے کہ ہماری ریونیو کی پوزیشن کیا ہے ہم کیسے ہم بجلی کے لئے اگر یہ انہوں نے ڈیلے کیا ہوا تھا ٹیرف ڈیبٹرمنیشن 2016ء سے اس کی وجہ سے وہ ایک پہاڑ بنتا رہا بنتا رہا یہ الیکشن کی وجہ سے انہوں نے وقت میں فیصلے نہیں دےئے ان کو پتا تھا کہ یہ بجلی مہنگی بن رہی ہے اور ہم سستی بیچ رہے ہیں جس کی وجہ سے سرکلر ڈیبٹ ساڑھے تین سو ارب کا ان کے پچھلے سات مہینوں میں یہ کھڑا ہوگیا اس وجہ سے یہی چیز ڈسائیڈ کرنی ہے کہ ہم آیا ہم نے ایسی حکومت کرنی ہے جس میں کہ ہم قرضوں کے پہاڑ کھڑے کردیں جو کہ ہماری اگلی آنے والی جنریشن کہ جی آج کا فیصلہ کرلو کل کی کل کا دیکھا جائے گا جو بھی حکومت آئے گی وہ سنبھالے گی یہ اپروچ بنائی ہے انہو ں نے ۔ محمد جنید :…شبلی صاحبI agree مجھے پتا ہے آپ کی اکانومی میں دلچسپی بھی بہت ہے آپ کمیٹیز کو بھی بڑا مس کررہے ہیں لیکن یہ بات آپ لوگوں نے ہی کہی تھی کہ ہم بوجھ نہیں ڈالیں گے عوام کو ریلیف دیں گے اب اس کے اوپر ٹیکس کے اوپر سوال بنا ہوا ہے نہیں ہوا فیصلہ یہ بات صحیح ہے شبر صاحب فواد چوہدری صاحب یہ کہہ رہے ہیں وفاقی وزیر اطلاعات کابینہ کے اجلاس کے حوالے سے کہ جو Speculationsہیں تنخواہ دار طبقے کے اوپر ٹیکس رعایت ختم کرنے کا جو غالباً آخری حکومت جاتے ہوئے دے گئی تھی 12لاکھ تک کی سلب پر رعایت تھی وہ نہیں ڈالیں گے اس پر بوجھ ابھی اس طرح کا کوئی فیصلہ کیا نہیں جارہا تو پھر ریونیو کیسے بڑھے گا ٹیکس ریٹ میں کیسے لائے جائیں گے لوگ اولین اس کے لئے ترجیح اور منصوبہ کیا ہوناچاہیے؟ شبر زیدی : …دیکھیں میں ایک بات Clarifyکردوں یہ صبح سے یہ بات چل رہی ہے کہ سیلری کا ٹیکس ریٹ کا کوئی ترمیم آگیا ہے اور جو پرانا ٹیکس ریٹ Deductionکیاگیا تھا وہ واپس لے لیاگیا ہے میں بات کلےئر کروں Clarify کردیتا ہوں کہ ایسا نہ کوئی قانون آیا ہے نہ کوئی ایسی ترمیم آئی ہے اور میرے ذہن میں اور میری تجویز یہ ہوگی کہ یہ قانون سیلریز میں نہیں لایاجائے جو کنفیوژن آیا ہے وہ اس لئے آئی ہے کہ آج سی بی آر نے پچھلے والے ایکٹ کے بارے میں ایک سرکلر ایشو کیا ہے اس کو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ ترمیم آئی ہے یہ ترمیم نہیں ہے بلکہ یہ پچھلا لاء تھا اس کے … ایشو کیا ہے جس کو ترمیم سمجھا جارہا ہے تو پہلی بات تو یہ ہوگئی مگر دوسری بات جو میں بہت اہم کرناچاہتا ہوں کہ جو پاکستان کی معاشی حالت… حالت ہے 2018ء میں یا 17ء میں وہ انتہائی خراب ہے اور میں یہاں شبلی فراز صاحب کی ایک بات سے سو فیصد Agreeکرتا ہوں کہ سب سے زیادہ مس مینج جو سیکٹر ہے وہ انرجی سیکٹر ہے انرجی سیکٹر کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی کی جو ہماری سرکلر ڈیبٹ جسے ہم کہتے ہیں وہ سرکلر ڈیبٹ نہیں ہے بلکہ سرکلر سبسڈی ہے وہ سرکلر سبسڈی ہے مطلب ہماری کوسٹ آف پروڈکشن زیادہ ہے اور سیلڈ پرائز کم ہیں تو ہم سبسڈی دیتے ہیں پر کہتے نہیں ہیں مطلب ہم سچ بولنے سے گھبرارہے ہیں ہر سال بجٹ میں ہم سبسڈی کا نام نہیں دیتے مگر ہمیں ہر سال 1ہزار بلین تقریباً دینا پڑتا ہے سبسڈی کی شکل میں بجلی کی مد میں تو یہ سوال سچ اور جھوٹ بولنے کا ہے یہ سرکلر ڈیبٹ سرکلرڈیبٹ نہیں ہے یہ سرکلر سبسڈی ہے اب یہ ایک الگ سوال ہے کہ سبسڈی کتنی دینی ہے پانچ سو دینا ہے 250دینی ہے 3سو دینی ہے یا چار سو دینی ہے یہ ایک Separateسوال ہے مگر یہ بات بالکل کلےئر ہوجائے قوم کے سامنے کہ سرکلر ڈیبٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے یہ سرکلر سبسڈی ہے جو پاکستان میں بجلی کی مد میں دی جارہی ہے اب میں As a economicsیہ کہہ سکتا ہوں کہ کنزیومر کو اور انڈسٹری کو آپ سبسڈی دیں اور تجارتوں کو کم دیں تو یہ ایک مکینکس ہے جو گورنمنٹ ڈسائیڈ کرے گی مگر سبسڈی موجود رہے گی اور نہیں بھی موجود رہے گی مگر ہمیں سبسڈی کے بارے میں ایک صحیح فیصلہ کرنا ہے یہی بات سبسڈی کی بات جو ہے یہی بات آئے گی ٹرانسپورٹ کے اوپر بھی ٹرانسپورٹ میں سبسڈی عوام کی سہولت کے لئے ہونی چاہیے مگر کتنی سبسڈی ہوگی کہاں ہوگی یہ ایک Separate سوال ہے اور میرا ذاتی ویو ہے کہ گورنمنٹ یہ فیصلہ نہیں کرنے جارہی سبسڈی ختم ہورہی ہے بلکہ گورنمنٹ سبسڈی کو Rationalizeکرنے جارہی ہے اب جب ڈیٹیلز آئیں گی Then he will be able to knowکہ کہاں سبسڈی ختم ہورہی ہے اور کہاں سبسڈی بڑھائی جارہی ہے مگر جو بات عام آدمی کے ذہن میں یہ بات آنی چاہیے کہ پاکستان کے معاشی حالات آج اس قابل نہیں ہیں کہ ہم سبسڈی کو چھپا کر اور غیر چھپا کر دیں جو کچھ بھی ہو وہ سامنے ہو اس لئے پاکستان کے جو قرض بڑھ رہے ہیں جب تک وہ ختم نہیں ہوں گے جب تک ہم پاکستان کی معیشت کو عوام کے سامنے بالکل کھلی کتاب کی شکل میں نہیں لائیں گے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ آج پاکستان کی معیشت کے حالات اچھے نہیں ہیں نہ Fiscalاکاؤنٹ کے ہیں اور نہ کرنٹ اکاؤنٹ کے حوالے سے ہیں ۔ محمد جنید : …اچھا شبر صاحب آپ کے پاس دوبارہ آئیں گے آپ کی گفتگو سے ایک سوال بن رہا ہے ذہن میں کہ حکومت کی نیت اچھی ہوگی عوام پر بوجھ ڈالنا نہیں چاہتی لیکن آمدنی کے ذرائع محدود ہیں یہ گاڑی چلانی بھی تو ہے نا یہ کشمکش میں تو نہیں رہ سکتے ؟ شبلی فراز :…دیکھیں ہم نے جب کہا تھا کہ جب ہم الیکشن میں ہم نے یہ کہا تھا کہ ہم جس طرح شبر صاحب نے کہا کہ ہم عوام سے سچ بولیں گے ہم عوام سے جھوٹ نہیں بولیں گےBecauseاب آپ عوام کو اگر اندھیرے میں رکھیں گے تو کوئی ایک ایسا دن آئے گا کہ وہ جھوٹ نے سامنے آنا ہے اور وہ اسی صورت میں جب کہ آپ چیزوں کو رئیلٹی لوگوں کو نہ بتائیں کیونکہ یہ رئیلٹی بتاتے کیوں نہیں ہیں بتاتے اس وجہ سے نہیں ہیں کہ یہ صرف کوئی ایک حادثاتی چیز نہیں ہوتی ہے یہ سرکلر ڈیبٹ ہے یہ حادثاتی طور پر نہیں بنا ہے یا پبلک سیکٹر انٹرپرائزہے اس میں یہ حادثاتی طور پر نہیں یہ Because of poor governance through corruption through miss management to inefficiency through all sort of the western interest like in the case of electricityکہ آپ 63 فیصد آپ تھرمل پر ہیں تو اگر ایک روپیہ بڑھتا ہے آئل کی پرائز تو آپ کا کس طرح سے اوپر جاتا ہے سرکلر ڈیبٹ اس طرح کی اور کئی چیزیں ہیں بات یہ ہے کہ ہم یہی تو کہہ رہے ہیں کہ کوئی ادارہ تو ہو جو پیسے بنارہا ہو اس طرح جب ہم باتیں کرتے تھے اداروں کی کہ مفلوج ہوچکے ہیں Because یہ کام اداروں کا ہے سیکورٹی ایکسچینج کمیشن ‘ ایف بی آر اور جتنے بھی ادارے ہیں جو فنانشل ادارے ہیں جن کا کام ہے جو کہ ریگولیٹرز ہیں چاہے وہ نیپرا ہو چاہے وہ اوگرا ہو لیکن اس میں جو حکومتوں کی گرفت رہی ہے اپنا بندہ بٹھانا اپنی پالیسز کو لے کے چلنا حکومت کے لئے لوگ کام کرتے رہے ہیں ملک کے لئے نہیں کام کرتے رہے اسی وجہ سے آج ہم ایک ایسے Situationمیں آگئے ہیں جہاں پر کہ ہمیں عوام کو سچ بتانا ہوگا کہ جی یہ ہماری حیثیت یہ ہے ہمیں اس کو دیکھ کے آگے چلنا ہوگا ہم نہیں Affordکرسکتے سبسڈی آپ کس وقت دیں گے جب آپ کے پاس کچھ ہو تو صحیح جس طرح میں آپ کی مدد کرنا چاہوں جب میری جیب میں ہی کچھ پیسہ نہیں ہے خود میں قرض دار ہوں میں آپ کو کیا آپ کی Help کرسکتا ہوں تو یہ بنیادی ایشوز ہیں جس میں کہ میرا خیال ہے سب سے بڑی ہماری حکومت کی جو وہ ہونی چاہیے کہ ہم ایک بینچ مارک بتادیں کہ جی ہماری Fiscalجو چاہے وہ ہماری فزیکل پوزیشن ہو چاہے جس طرح کرنٹ اکاؤنٹ ہو ہماری امپورٹس ہوں ایکسپورٹس ہوں یہ سارے میجر لینے پڑیں گے اور دیکھیں اس میں جو مراعات یافتہ طبقہ ہے اس پر زیادہ بوجھ ڈالنا چاہیے ناکہ غریب عوام پر ۔ محمد جنید :…بہت اچھی بات ہے مراعات یافتہ طبقے کی طرف آئیں گے لیکن آپ کی سب باتیں اس سپرٹ میں ہیں کہ مسئلے کا حل نکالا جائے اب جو پشاور میں میٹرو کے متعلق وفاقی وزیر اطلاعات کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنا خرچہ خود نکال لے گی یہ Possible ہے جیسے لاہور جوکہ ایک بہتر ایڈوانس شہر ہے اسلام آباد وہاں اگر یہ ممکن نہیں ہوسکا تو اسلام آباد اور لاہور کے علاوہ پشاور میں کیسے ممکن ہوگا کہ وہاں کی میٹرو بس اپنا خرچہ خود سے پورا کرلے؟ شبلی فراز : …دیکھیں ہر شہر کے اپنے ڈائنامکس ہوتے ہیں یہ ضروری نہیں ہے کہ جو لاہور میں مسئلہ آئے تو پشاور میں بھی آئے یا جو پشاور میں آئے تو وہ لاہور میں بھی آئے ہم امید کرتے ہیں کہ It should be manageableکہ ہم سبسڈی Minimumترین پہلے تو دیں نہ لیکن اگر دیں بھی تو اس میں جو اس کا جو ریٹ آف ریٹرن ہے وہ سارا Calculateہوا وا ہے اب مجھے نہیں پتا پرائز ایزکلیشن جو ہوئی ہے اس کی وجہ سے اس کی فزیبلیٹی کا کیا کیا ہوا لیکن دیکھیں What is to KPK is part of Pakistanاگر غلط بات ہوئی ہے تو وہاں پر بھی غلط بات ہوئی ہے ۔ محمد جنید : …لیکن یہ سوال ہے آپ نے اس کا ایک جواب دیا کہ شروع میں اگر دیں نوید صاحب ممکن ہے کہ صوبائی دارالحکومت اور پشاور بھی خیبر پختونخوا کا کہ وہاں کی میٹرو بس خود ہی اپنا خرچہ پورا کرلے باقی بڑے شہروں میں نہیں کرسکتی ؟ نوید قمر : …نہیں Obviouslyجس کوسٹ پر یہ بن رہی ہے اس پر تو Is almost impossibleکہ یہ جو ہے وہ فنانشلی Viableہو اور بغیر سبسڈی کے چلے جیسے آپ نے کہا یا تو ٹکٹ اتنا مہنگا کردیں کہ اس میں کوئی چڑھے گا نہیں As it isوہ بھی سیلف ڈیفٹنگ ایک ایکسرسائز ہوجائے گی تو یہ کہہ دینا بہت آسان ہوتا ہے کہ جی ہم خود ہی فنانشلی Viable کریں گے اس سے بہتر ہے کہ جیسے اگر کہہ رہے ہیں کہ جی ہم ہر چیز میں سچ بولیں گے تو اس پر بھی سچ بولیں کہ ہم بغیر سبسڈی کے اس کو نہیں چلاسکتے اس کو بھی ہم سبسڈائز کریں گے وہ بتادیں گے کہ کتنی سبسڈی ہوگی ۔ محمد جنید : …نوید صاحب آپ کے پاس میں آؤں گا واپس کھاد کے معاملے پر کیونکہ اس پر کسان کو فائدہ دینے کی بات ہورہی ہے لیکن اس تک پہنچے گا یا نہیں اس پر آپ سے سوال کرنا چاہتے ہیں لیکن خرم صاحب جو گیس کا قیمتوں کا معاملہ ہے پھر اس میں جو خسارہ ہے اس کی فواد چوہدری صاحب نے بات کی کہ156ارب روپے سالانہ خسارہ ہے گیس کے شعبے میں اچھی خبر آئی بلوم برگ کے حوالے سے کہ شاہد خاقان عباسی صاحب کا جو فیصلہ تھا ایل این جی کے اوپر اس میں 75ارب کی بچت ہوئی لیکن جو خسارہ ہے وہ تو وہاں موجود ہے اس کی وجہ سے وہ گیس کی قیمتیں بڑھانے پر مجبور ہورہے ہیں تو اس میں تو قصور ن لیگ کا نہیں ہے؟ دیکھئے کیونکہ ایک حکومت نئی آئی ہے کٹ پتلی وہ ایک الٹرنیٹ آف رئیلٹی میں آپ کے سامنے رکھتے ہیں دیکھیں فیکٹ یہ ہیں حقائق پرنہ بات کرنی نہ سچ بولنے کی کہ پچھلے سال پاکستان کا گروتھ … پچھلے پندرہ سال میں سب سے زیادہ تھا ہم نے اپنے دور میں Lowestمہنگائی کے نمبرز جو ہیں انفلویشنز کے نمبر جو ہیں قوم کو دےئے ہیں کم سے کم مہنگائی ہمارے دور میں رہی ہے اور ہر چیز میں امپرومنٹ کی گنجائش ہوسکتی ہے لیکن … کہ آر ایم ایم جی لاکے پاکستان انڈسٹری کو دوبارہ چلادیا پاکستان کی گیس کی کمی کو پورا کیا ہے اور اب یہ کہہ دینا کہ جی ہمارے پاس کیوں کہ اور … نہیں ہیں نا کہ ہم کہیں کہ جی دیکھیں ہم اس طرح ٹھیک کردیں گے قیمت بڑھانا بھی بڑا آسان ہے یوٹیلٹی کی قیمتیں بڑھانا بڑا آسان ہے ہم اس کو … کرنے کے باوجود یہ یاد رکھیں کہ پچھلے پانچ سال میں بارہ ہزار میگاواٹ سیٹ کئے ہیں اور وہ ظاہر ہے مفت تو نہیں لگے ہیں نا اس میں پیسہ خرچ ہوا ہے اگر نیلم جہلم کمپلیٹ ہوا ہے اس کے اوپر پیسہ خرچ ہوا ہے اسی طرح اگر آر ایم جی کے یونٹس جو ہیں وہ اس کا پورا اسٹرکچر سیٹ اپ ہوا ہے اس پر پیسہ لگا ہے لیکن پاکستان کو پہلے …کی ہے اس کو آگے لے کر گئے ہیں انرجی حوالے سے … کی ہے اور ان کا کام یہ ہے کہ … مینج کریں ان سے جو ہم بارہ ہزار میگاواٹ ایڈٹریڈیشنل جنریشن کیپسٹی کم … آر ایم ایم جی والی اب لگاکے گئے ہیں اب جو نیلم جہلم ہے وہ ہائیڈ… ان سے یہ مینج نہیں ہورہی ان سے بجلی نہیں بن رہی۔ محمد جنید :… خرم صاحب میں سمجھ رہا ہوں آپ کی بات انرجی سیکٹر میں کام ہوا لیکن آپ نے جب وہ کہا کہ مہنگائی کم سطح پر رہی اس پر شبلی صاحب مسکرارہے تھے آپ اتفاق نہیں کرتے آپ ۔ شبلی فراز : … میں نمبرز پر چیلنج کرتا ہوں آپ کو میں اگر آپ نے اس کو بات شروع کیا ہے تو پھر سنیں Letʼs talk of numbers let not of theoryنمبر ون پہلی بات ہے انہوں نے کہا ہے کہ بارہ ہزار میگاواٹ کی بجلی جنریشن کی دس ہزار کچھ کی اس میں کوئی شک نہیں ہے میری بات سنیں اب ہوا کیا ہے کہ انہوں نے یہ بھی دیکھیں کہ انہوں نے اس دوران میں سرکلر ڈیبٹ کتنا بڑھایا Historicallyکتنا بڑھا تھا پیپلزپارٹی کی حکومت میں جب پیپلزپارٹی کی حکومت گئی اس وقت آئل کی پرائسز ایک سو چالیس ڈالر تک تھیں اور میں یہ ان کے ساتھ ہمدردی کرتا ہوں یہ جو ابھی کہہ رہے ہیں نا کہ ہماری حکومت میں سب سے کم انفیشن تھی یہ شکر کریں اللہ تعالی کا وہ قسم کا کہ سارے پٹرول کی پرائسز 28ڈالرز تک آگئی تھیں کموڈیٹی پرائسز نیچے تھیں جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا لیکن ملک کے لئے نہیں اٹھایا دوسری بات ایل این جی کی اور بجلی کی بات کرتے ہیں انہوں نے آیا بجلی میں کوئی ریفارمز کیں آیا ان کو یہ پتا ہے کہ 63 فیصد ہمارا جو ہے وہ جو ہے تو ہمارے آئل کا وہ ہے فرنس آئل کی جو ہے نا وہ کھپت ہے آپ کو پتا ہے کہ آپ کی ٹوٹل آئل امپورٹ 18.1بلین ڈالر زہے آپ کو پتا ہے کہ اس میں سے جو پاور سیکٹر ہے وہ اس پر کتنا آئل امپورٹ ہوتا ہے it closed to 7 ٹو 8بلین ڈالرز It closed to 7 to 8 billion dollers like or more then 50 percentانہوں نے مہنگی بجلی پروڈیوز کی انہوں نے ایل این جی کو بھی 63 فیصد پر رکھا کہ کم از کم 66فیصد یوز ہوگی اگر یوز ہو یا نہ ہو آپ کو 66 فیصد پیسے دینے پڑیں گے اسی وجہ سے یہ سرکلر ڈیبٹ بنا ہے اسی وجہ سے یہ بجلی مہنگی ہوئی ہے جو کہ آپ کی ایکسپورٹس کو بھی ہرٹ کیا اس نے ایکسپورٹ نہیں بڑھ رہی تھی Becauseآپ کی امپورٹ کاز بڑھ گئی اور عام لوگوں کو بجلی مہنگی پڑنی پڑی اور اسی وجہ سے On last commentمیرا خیال ہے کہ یہ انہو ں نے بنیادی طور پر جو ایک جو کوشش کی وہ یہی تھی کہ یہ جتنی بھی رئیلٹی ہے وہ قوم کو پتا نہ چل سکے اس کی وجہ سے یہ سارے پہاڑ چاہے وہ گیس ہو اس کی بھی انہون نے ٹیرف ڈیٹرمنیشن لیٹ کی مہنگی خرید رہے تھے سستی بیچ رہے تھے اس کا ایک علیحدہ سرکلر ڈیبٹ 120 بلین روپے کا کھڑا ہوگیا۔ محمد جنید : …اچھا خرم صاحب سے ان کا موقف لے لیتے ہیں نوید صاحب آپ بھی ان اہم وزارتوں پر رہے ہیں جو تھوڑا سا ان کے حق میں جاتی تھی پی ایم ایل این کے دس ہزار میگاواٹ سے کچھ زیادہ بجلی پیدا ہوئی وہ شبلی صاحب نے سب سے آہستہ آواز میں کہی اور اس کے بعد پھر خوب سخت بولے ٹھیک نہیں ہے اگر یہ کریڈٹ تو جاتا ہے انہیں؟ نوید قمر :…دیکھیں کریڈٹ ضرور دیں لیکن ایک مسئلہ ہے اس پوری Unfortunatelyہمارے ہاں Overall governmentمیں دیکھیں میگاواٹ ایڈ کرنا سسٹم میں بہت آسان کام ہے ایک ساؤنڈ Very charmingآپ جاکے فیتے کاٹ رہے ہوتے ہیں آپ بتارہے ہوتے ہیں جو اصل کام کرنے کا ہے جہاں سرکلر ڈیبٹ آپ کا پیدا ہورہا ہے وہ ہے آپ کا ڈسٹربیوشن سسٹم اس میں کہیں ریفارمز نہیں آیا اور Attemptبھی نہیں ہوا To be honestاگر لائن لاسز ہیں تو ہیں اگر جو ہے بل کلیکشن نہیں ہوتا ہے تو نہیں ہوگا اور وہ بڑھتے بڑھتے اب جو ہے وہ 1000بلین تک پہنچ گیا ہے یہی بیسک کاز ہے اگر اس کو نہیں آپ Tackleکریں گے اور اس گورنمنٹ کے لئے بھی یہ وارننگ ہے اگر اس کو نہیں Tackleکئے آپ یہاں۔ محمدجنید : …ٹھیک ہے اچھا پوائنٹ ہے ہم خرم صاحب سے اس پر بات کریں گے میگاواٹ ایڈ کرنا لیکن جو سرکلر ڈیبٹ ہے اس کا بھی تو کوئی علاج کرنا ہے اور شبر صاحب کی رائے کیا ہے اور پھر وہ سب اقدامات جو حکومت کررہی ہے جس سے بتایاجارہا ہے کہ بچت ہوگی سرکاری رہائش گاہوں کو عوام کے استعمال کے لئے کھولنے سے گاڑیاں نیلام کرنے سے واقعی ایسا ہوسکے گا یا نہیں اس پر بھی رائے لیں گے ایک بریک کے بعد ہمارے ساتھ رہئے ۔ محمد جنید .....مہنگائی ہوگی تو عوام کے لئے مشکلات کھڑی ہونگی لیکن حکومت چلانی ہے تو ریوینیو بڑھانا ہے اگر معاملات بہتر کرنے ہیں تو لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لے کر آنا ہے سبسڈیز کم خرنی ہے جو بوجھ ہے اس کو کم کرنا ہے نوید قمر صاحب نے کہا کے میگا واٹ شامل کرنا آسان ہوتا ہے لیکن سر کل ڈیٹ کی بھی کوئی ابت ہو جو کے ہزار ارب سے بھی اوپر جا چکا ہے۔ خرام صاحب یہ جو ہے سوچا ہوگا ن لیگ نے کے جو سرکر دیٹ کی صورتحال ہے وہ بھی ایک مصیبت بن کر کھڑی رہے گی بے شک بجلی شامل ہوری ہے دس ہزار میگاواٹ سے اوپر بجلی چامل ہوئی بہر حال دوسرا مسئلہ بھی تو برقرار ہے اپنی جگہ دیکھیں سب سے پہلی بات آپ نے کہا ریوینیو یہ بھی ایک وجہ ہے مسلم لیگ ن کی حکومت نے پانچ سالوں میں ٹیکس ریوینیو سات فیصد بڑھایا ہم اسے اس سے انیس سو ارب ملا تھا محمد جنید .....شبلی صاحب پھر مسکرا رہے ہیں لیکن ان کے پاس بعد میں آئیں گے خرم دستگیر....دیکھیں مسکرئیں لیکن وہ ٹیکس تو بڑھا نہ وہ شرح تو سامنے ہے وہ کہیں کے آپ جو اتنے پیسے نہیں کٹیں گے سچ تو یہ ہے کے ساٹھ فیصد ٹیکس ریوینیو جو ہے وہ بڑھالہذا حکومت پاکستان بھی اور جی ڈی پی بھی بڑھا ہےgrowth rate بڑھنا شروع ہوا ہے محمد جنید .....ایف بی آر کی رپورٹ میں بھی ہے ٹھیک ہے خرم دستگیر....اب مسئلہ یہ ہے کے جی یہ کہتے ہیں کے یہ فیصلہ ضرور کرنا پڑے گا کے ہم نے اس پاور سیکٹر کی کی جو پوری مینجمنٹ ہے وہ کس طرح کرنی ہے میں کہہ رہا ہوں جس کے اوپر بار بار شبر زید ی صاحب نے بھی اشارہ کیا کے لیکن انہوں نے بات نہیں کی کے جی زیادہ سے زیادہ سبسڈی میرے ان پاکستانی غریب ترین بھائیوں اور بہنوں کو جاتی ہے جو مہینے میں 200 سے کم یونٹ استعمال کرتے ہیں اور اگر آپنے ان کے اوپر کوئی بوجھ ڈالنا ہے تو یہ بڑا سنگین فیصلہ نہیں ہے میں پی ٹی آئی گورنمنٹ سے متقف نہیں ہوں بلکہ سچ یہ ہے کے یہ غریب ترین لوگوں پرزیادہ سے زیادہ پاور کی جو ہے وہ جاتی ہے اور اس میں فیصلہ کرنا پڑے گا کیونکہ اس سے اوپر کے اوپر ہم نے جو ہے وہ پہلے سے مسلم لیگ ن حکومت جو ہے وہ ٹیرف ریٹ کر کے چلی گئی ہے تین سے اوپر کا جو ٹیرف ہے وہ بہت زیادہ ہے اور اس سے اوپر جائیں گے تو اور زیادہ ٹیرف ہے اور جہان کم سے کم ریٹ ہے وہا ں سب سے زیادہ سبسڈی بھی ہے یہ ایک مسئلہ بھی ہے ۔ واسل جو ہے وہ میں پی ٹی آئی حکومت سے کرنا چاہتا ہوں کے ان کی جو ہے وہ تمام جو اس وقت سوچ ہے وہ پاکستان کا growth rate اور سرمایہ بڑھانے کے لئے نہیں ہے ان کا یہ ہے کے ہمارے اوپر جو ہے وہ مصیبت آئی ہے تو غریبوں پر بوجھ ڈال کر کسی طرح نکل جائیں چیزیں روک دیں بھینسیں بیچ دیں اس سے نہیں ہوگا کے جی یہ جو طریقہ کار ہے سرکاری اثاثوں کو زمینوں کو بیچ کر پورا کریں گے پاکستان کے اندر جو مسئلے ہیں جس کو ہم نے حل کرنا شروع کیا تھا وہ یہی ہے کے ہمیںgrowth rateبڑھانا ہے تب ہی اس ملک میں نیا روزگار پیدا ہوگا جو ہم نے کوشش کی کے پاکستان کے جو سب سے سنجیدہ مسئلے تھے جو بجلی اک فقدان تھا اس کو اللہ کے فضل سے ختم کیا پاکستان میں سی پیک لے کر آئی اب سی پیک کو بھی اگر انہوں نے شک میں ڈال دیا ہے کے خدا جانے سی پیک کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور پچھلے تین دنوں سے اس کی وضاحتیں دیئے جا رہے ہیں ہر طرف سے وضاحتیں خود آرہی ہیں ابھی تک وہ مسئلہ حل نہیں ہوا کے سی پیک کے بارے میں ان کی پالیسی کیا کیا یہ واقعی اس ہی طرح فیصلہ کن ہیں بات ہے growth rateبڑھانے کی ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کی محمد جنید .....آپ نے اپنی تجویز دے دی ہے اور سی پیک پر وضاحت بھی آئی نوید قمر....یہاں پر مجھے ایک پوائنٹ کا اضافہ کرنے دیں اس سے پہلے کے آپ وہاں جائیں دیکھیں شبلی صاحب جو ہیں وہ کہہ رہے ہیں کے ہم جو ہے وہ نچلے طبقے پر بوجھ نہیں ڈال رہے وجہ یہ کے گیس کی جو قیمت میں اضافہ جو ہے وہ بار بار موٴخر کرتے رہیں ہیں یہ مجھے سمجھ نہیں آتا کے میٹنگ کیوں نہیں ہو سکتی اس میں تو ایک سو چھیاسی فیصد اضافہ تھا لوئسٹ لیپ اب لو ئسٹ لیپ پچاس یونٹ استعمال کرنے والاایک سو چھیاسی یہ اس کا جو اگلی لیپ تھا اس پر بھی اچھا ٹرپل فیگر میں اضافہ ہے ہمیشہ سبسڈی لوئسٹ پر ہی ہوتی ہے نا؟ تو آپ سب کو ایک ہی طرح کر کے سب کو ایک پرائز دینا چاہتے ہیں تو اس طرح دنیا میں کہیں نہیں پایا جاتاآپ ایک طرف تو کہتے ہیں کے جی غریب پر بوجھ نہیں ڈالیں گے دوسری طرف آپ جو بھی فیصلہ لے رہے ہیں ان سب میں آپ کا جو زیادہ سے زیادہ بوجھ جو ہے وہ غریب پر آرہا ہے۔

تازہ ترین