• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑے عظیم لوگ تھے، جنہوںنے جدید آلات اور کمپیوٹر کے بغیر کارہائے نمایاں انجام دیے اور زمین سے متعلق تقریباً درست پیمائشیں، کیمیا گری کے فارمولے اور ریاضی کے اصول وضع کیے، جن کی بنیاد پر آج سائنس کی عمارت کھڑی ہے۔ حیرت کی بات ہے آج ناسا اپنے خلائی سیارے اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے زمین کا رداس یعنی ریڈیئس6371کلومیٹر بتا تاہے، جو ابو ریحان البیرونی نے آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل حیرت انگیز درستگی کےساتھ ناپ لیا تھا، جو کہ6335کلومیٹربنتاہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ البیرونی نے یہ پیمائش کیسے کی؟ البیرونی سے پہلے مامون الرشید نے ماہرین کے دو گروپوں کو زمین کی پیمائش کا کام سونپا۔ ان ماہرین نے صحرا میں شمال اور جنوب کی طرف سفر کیا اور دوپہر کے وقت سورج کے زاویے کی بار بار پیمائش کر کے زمین کا ریڈیئس معلوم کیا۔

البیرونی بھی ان ماہرین کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتا تھا اور زمین کی پیمائس مزید صحت اور درستگی کے ساتھ کرنا چاہتا تھا لیکن سرمایے کی کمی اور صحرا میں سفر جیسے مشکل اور خطرناک کام کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکا۔ تب الیبرونی نے الجبرا اور جیومیٹری کا استعمال کرتے ہوئے زمین کی پیمائش کی اور ایک ایسے طریقے کا کھوج لگایا جو نسبتاً آسان اور نتائج کے حوالے سے انتہائی کارگر تھا۔

البیرونی نے افق کا زاویہ ناپنے کے لیےپہاڑی کا انتخاب کیا۔پہاڑی کے انتخاب کے بعد دوسرا مرحلہ پہاڑی کی بلندی ناپنے کا تھا۔ اس کے لیے البیرونی نے پہاڑی سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کر زمین سے پہاڑی کی چوٹی کا پہلا زاویہ (θ 1) معلوم کیا، پھر فاصلہ d طے کیا اور دوسرا زاویہ (θ 2) معلوم کیا، پھر ان دونوں معلوم شدہ زاویوں اور ان کے درمیان طے شدہ فاصلے d کی قیمت متعلقہ فارمولے میں دے کر پہاڑی کی بلندی معلوم کر لی۔ زاویے معلوم کر نے کے لیے البیرونی نے اسطرلاب (Astrolabe) نامی آلہ استعمال کیا۔

اسطرلاب ایک بڑے سے ڈائل والا آلہ ہے، جس کے درمیان گھڑی کی سوئی جیسی ناب لگی ہوئی ہوتی ہے۔ زمین سے پہاڑی کی چوٹی کا زاویہ معلوم کرنے کے لیے البیرونی نے سوئی نما ناب کے دونوں سروں اور پہاڑی کی چوٹی کو ایک سیدھ میں کر کے دیکھا۔ جس طرح بندوق کی شست دیکھ کر نشانہ لیا جاتا ہے، جب تینوں ایک سیدھ میں نظر آنے لگے تو ڈائل پر لکھے درجے دیکھ کر زاویہ نوٹ کر لیا۔

پہاڑی کی بلندی معلوم کرنے کے بعد البیرونی نے پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر آلے کی مدد سے دور نظر آنے والے افق( وہ جگہ جہاں زمین و آسمان ملتے ہوئے نظر آتے ہیں) کا زاویہ معلوم کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس پیمائش کے لیے البیرونی کافی عرصہ تک نندنہ کے قلعے( نندنہ کے قلعے کے کھنڈرات پنڈ دادنخاں سے22کلومیٹر دور اب بھی موجود ہیں) میں قیام پذیر رہا اور جب اسے لگتا کہ فضا صاف ہے تو وہ پہاڑی پر چڑھ کر یہ پیمائش کرتا۔ درست نتائج کے لیے اس نے کئی بار یہ عمل دہرایا۔ افق کا زاویہ معلوم کر لینے کے بعد البیرونی نے حساب کتاب کیا اور اسے زمین کا رداس یا ریڈیئس معلوم ہو گیا۔ اس سارے عمل میں البیرونی نے کل چار قیمتیں معلوم کیں، اسطرلاب کا استعمال کر کے تین زاویے، اور ایک فاصلہ۔ دو زاویے اور ایک فاصلہ پہاڑی کی بلندی معلوم کرنے کے لیے اور پھر افق کا زاویہ آخری نتیجہ حاصل کرنے کے لیے۔

ابتدائی حالات

مشہور محقق و سائنسدان ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی المعروف البیرونی4ستمبر 973ء کو خوارزم کے مضافات میں ایک قریہ، بیرون میں پیدا ہوئے اور اسی کی نسبت سے البیرونی کہلائے۔البیرونی بو علی سینا کے ہم عصر تھے۔ خوارزم میں البیرونی کے سرپرستوں یعنی آلِ عراق کی حکومت ختم ہوئی تو اس نے جرجان کی جانب رخت سفر باندھا، وہیں اپنی عظیم کتاب "آثار الباقیہ" مکمل کی۔ حالات سازگار ہونے پر البیرونی دوبارہ وطن لوٹے اور وہاں دربار میں عظیم بو علی سینا سے ملاقات ہوئی۔

البیرونی شروع ہی سے قدرتی مناظر کے دلدادہ تھے۔ پھول پودے جمع کرنا ان کا مشغلہ تھا، اسی لئے ان کی والدہ انہیںابو ریحان کہہ کر پکارتی تھیں۔ البیرونی کے والد ایک چھوٹا سا کاروبار کرتے تھے لیکن ان کی ناگہانی موت کی وجہ سے البیرونی کی ماں اپنے لیے اور اپنے بیٹے کے لیے جنگل سے لکڑیاں جمع کرکے روزی کمانے پر مجبور ہو گئیں۔ اس کام میں البیرونی اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتےتھے۔ البیرونی نے 14رس کی عمر میں یونانی اور سریانی زبانوں پر مہارت حاصل کرلی اور یونانی علم سے پودوں کی دنیا کے بارے میں بہت کچھ سیکھ لیا۔ طبعی علوم کے بارے میں ان کا شوق اور بڑھ گیا۔ یونانی عالم، اپنے وطن یونان لوٹنے سے پہلے البیرونی کو فلکیات و ریاضی کے عالم ابو نصر منصور علی کی خدمت میں(جو خوارزمی خاندان کا شہزادہ تھا) لے گیا۔ ابو نصر نے البیرونی کے لیے الگ گھر تعمیر کرایا اور وظیفہ بھی مقرر کیا۔ ابو نصر ہر روز البیرونی کو فلکیات اور ریاضی کے علوم سکھاتا رہا۔ ابو نصر نے البیرونی کو مشہور ریاضی دان اور ماہر عبد الصمد کی شاگردی میں دے دیا۔

البیرونی کی عظمت

البیرونی نے ریاضی، علم ہیئت، تاریخ اور جغرافیہ میں ایسی عمدہ کتابیں لکھیں، جو اب تک پڑھی جاتی ہیں۔ ان میں مشہور ایک ”کتاب الہند“ بھی ہے، جس میں البیرونی نے ہندو‎ؤں کے مذہبی عقائد، ان کی تاریخ اور برصغیر پاک و ہند کے جغرافیائی حالات بڑی تحقیق سے لکھے ہیں۔ انہوں نے ریاضی، علم ہیئت، طبیعیات، تاریخ، تمدن، مذاہب عالم، ارضیات، کیمیا اور جغرافیہ وغیرہ پر ڈیڑھ سو سے زائد کتابیں اور مقالہ جات لکھے۔ البیرونی کے کارناموں کے پیش نظر چاند کے ایک دہانے کا نام "البیرونی کریٹر" رکھا گیا ہے۔

تازہ ترین