• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ باتیں تری

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا ہے:باتیں بنانے کا وقت گیا، اب کام کا دور عام شہری کو ریلیف دیں گے۔ باتیں بنانے کا وقت تو اس وقت بھی نہیں تھا جب باتیں بنائی جاتی تھیں کام نہیں کیا جاتا تھا، تب بھی اسی طرح نئی حکومت آتی اور ایسی ہی باتیں کی جاتی تھیں کہ اب اللے تللے نہیں ہوں گے کام ہو گا اور اپنا کام کر گئے کام کے عوام کا کام تمام کر گئے حق حلال کی کمائی خود ایک پیمانہ ہے جو حرام خوروں کا تعین کرتا ہے، اگر کسی کے پاس اس کے وسائل سے زیادہ دولت آ رہی ہے تو چشمہ حرام سے آ رہی ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ سنا ہے سیدھے سادے اور کم گو افراد بڑے کام کے لوگ ہوتے ہیں، اگر بزدار صاحب پنجاب کے بگاڑ میں دراڑ ڈال دیں تو ہم انہیں عثمان دلدار کہیں گے، اور شکر گزار ہوں گے، پنجاب کے دریائوں میں اتنا پانی نہیں جتنے یہاں کے مسائل ہیں، ایلیٹ کلاس تو خود کفیل و جنتی ہے، اپنی ساختہ جنتوں میں خوش ہیں اور لاہور کی چار سڑکوں کے آس پاس رہتے ہیں، آپ پورہ کلچر کو وزٹ کریں مثلاً مغلپورہ، باغبانپورہ، ہربنس پورہ وغیرہ، پی ٹی سی ایل سے لے کر بجلی کے نظام تک مسائل لیسکو کی تاروں کے گچھوں کی طرح آویزاں ہیں، مغلپورہ سے واہگہ تک آپٹک فائبر وائر نہیں بچھائی گئی جس کے باعث نہر کے دونوں اطراف کی رہائشی بستیوں میں انٹرنیٹ نام کی حد تک ہے۔ اسمارٹ ٹی وی اور فونز آن آف رہتے ہیں اور بجلی کا بحران تو ہمیں جہیز میں ملا ہے۔ اس کے علاوہ کبھی صبح صبح اگر نہر کے پلوں پر بیٹھے مزدوروں، مستریوں رنگسازوں کا دیدار کرنا ہو تو دیکھنے لائق ہوتا ہے ضرور دیکھ کر ان سے تعمیر کا نہیں تو تجاوزات کی توڑ پھوڑ کا کام ہی لے لیں، وہ جس طرح آس امید لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں انہیں ہم جیسے بے دست و پا دیکھتے ہیں تو غالبؔ کا یہ شعر پڑھتے ہوئے گزر جاتے ہیں؎

نا دیدنی کی دید سے ہوتا ہے خونِ دل

بے دست و پا کو دیدئہ بینا نہ چاہئے

ہر دکان کا اپنا ریٹ ہے ان کو یکساں بھی آپ ہی نے بنانا ہے، ہم نے جستہ جستہ صرف اس لاہور کا احوال بیان کیا ہے جہاں عوام اور مویشی ایک ساتھ رہائش پذیر ہیں، باقی پنجاب کا حال یہ ہے کہ لاہور کے حالات و مسائل سے اس کے مسائل کو جتنی بڑی ضرب دے دیں کم ہے یہ سب آپ کی حکومت نے کرنا ہے کیونکہ اب باتوں کا وقت گزر گیا۔

٭٭٭٭

سو بنگلوں کا ایک بنگلہ

پنجاب 8:ہزار 975کنال پر 403ارب کے سرکاری بنگلے، دیکھ بھال پر سالانہ 10ارب سے زیادہ خرچہ، 19ہزار سے زائد ملازمین تعینات، کمشنر سرگودھا کی رہائش گاہ 104کنال پر محیط، جس پر 10مرلے کے 208بنگلے تعمیر ہو سکتے ہیں، اور 208 افسران وہاں رہ سکتے ہیں، افسران کی رہائش گاہیں ہی اگر شاہی محلات کے بجائے پورے پنجاب میں 10مرلے تک محدود کر دی جائیں، تو ہم پر خدا کی زمین بہت وسیع ہو سکتی ہے، یہ ملک ہم سب کا ہے ہم سب افسر ہیں اور افسر ہمارے خادم، اگر افسروں کو اس نکتے کی سمجھ آ جائے تو وہ مخدوم ہو جائیں گے۔ دولت، زمین، پانی، دھوپ، ہوا اللہ تعالیٰ کی بے پناہ نعمتیں ہیں ان کو آپس میں برابر تقسیم کر لیں تو تمام روحانی جسمانی امراض اور جرائم میں بے تحاشا کمی آ سکتی ہے، 8ہزار 975کنال اراضی پر پنجاب کے تمام افسروں کے معقول مکانات بھی بن سکتے ہیں اور وافر زمین بچا کر بیچی بھی جا سکتی ہے اور قومی خزانے کو بھرا جا سکتا ہے مگر پہلے خزانے کے تمام سوراخ بند کرنا ہوں گے، خوشحالی مساوات سے آتی ہے، اگر ایک انسان 10انسانوں کے حصے پر قابض ہو گا تو 9انسان کسی بھی غلط راستے پر چل سکتے ہیں، اسی طرح ہی معاشرے میں انتقامی جذبے بڑھتے اور بڑے جرائم کی شکل اختیار کر جاتے ہیں، افسری اصولوں کی غلامی اور قانون کی عملداری ہے، یہ بات غلط ہے کہ پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب، البتہ صحیح یہ ہے کہ پڑھنے لکھنے سے انسان بنو گے، بچپن سے بچے کے ذہن میں حکمرانی کا شوق بٹھانا غلط تربیت ہے خدمت کا جذبہ ذہن نشین کرنا چاہئے، ہمارے ہاں امیری اور غریبی رہے گی دونوں میں بہت بڑا فرق ہے جو اس وقت 95فیصد عوام بھگت رہے ہیں، 5فیصد وہ ہیں جو 95فیصد کے حصے میں سے لے کر کھا رہے ہیں پیٹ بھر جائے تو کھانا بند کر دینا چاہئے ورنہ دوسروں کا حصہ بم بن کر بلاسٹ ہو گا۔ روز و شب ہمارے سامنے ایسے مناظر آتے ہیں مگر ہم عبرت نہیں پکڑتے ہوس کو گلے لگا لیتے ہیں اور وہ گلے کا پھندا بن جاتی ہے، پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے مگر یہاں ہر ضرورت زندگی کی تقسیم بیڈ گورننس نے بگاڑ دی ہے۔

٭٭٭٭

برطانوی ہائوس آف کامنز کا شیر خوار رکن

برطانوی رکن پارلیمنٹ اپنے شیر خوار بچے کے ہمراہ دارالعوام پہنچ گئیں ان کا کہنا تھا یہ جدت پسندی کی طرف ایک قدم ہے، برطانوی ہائوس آف کامنز کو اب جا کر اس کا حقیقی مفہوم مل گیا کیونکہ دارالعوام ہی دارالاطفال بھی ہوتا ہے، ہائوس آف کامنز (عام لوگوں کا گھر) سے یاد آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے ’’عام لوگوں کیلئے جو پہلا گھر بنایا گیا وہ مکہ مکرمہ میں ہے‘‘ حیرانی ہے کہ حرم شریف کو اللہ کا گھر کیوں کہا جاتا ہے؟ یقین نہیں آتا تو تیسرے پارے کے شروع میں خود پڑھ لیجئے، اللہ تعالیٰ تو ویسے بھی کسی گھر، مکان سے پاک ہے، وہ کسی مکان میں نہیں مگر کوئی مکان اس سے خالی نہیں، برطانوی ہائوس آف کامنز کی طرح شیر خوار بچوں کو بھی مسجد الحرام میں لیجانے کی اجازت ہے، یقین نہ آئے تو حج کے ایام میں خود جا کر دیکھ لیں، ممکن ہے ہائوس آف کامنز کا نام قرآن حکیم سے لیا گیا ہو مگر تحقیق شرط ہے، ہائوس آف کامنز میں جب شیر خوار بچے نے رو رو کر اپنی رائے دی ہو گی تو برطانوی دارالعوام کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ برطانیہ میں سب اچھا نہیں، بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں بھلا ہائوس آف کامنز ان کے نمائندے کی فریاد کیسے نظر انداز کر سکتا ہے، اس برطانوی خبر کے ساتھ ہی ایک پاکستانی خبر ہے کہ ڈیرہ غازی خان اسپتال کے عملے کی مبینہ غفلت، سڑک پر ایک اور زچگی، بچہ جاں بحق، برطانیہ کا شیر خوار بچہ اسمبلی پہنچ گیا اور ہمارا نومولود سڑک پر دم توڑ گیا، یہ ہے دو ملکوں کے جمہوری ایوانوں میں فرق ،اسے مٹانے کیلئے ہماری خواتین ارکان اسمبلی بھی اپنے شیر خوار بچے ساتھ لیجا کر جدت کی طرف قدم بڑھا سکتی ہیں ورنہ اسی طرح سڑکوں پر قاتل اسپتالوں کے ہاتھوں بچوں کا قتل ہوتا رہے گا۔

٭٭٭٭

چمڑے کا سکہ

....Oوزیراعظم عمران خان:ملک چلانے کیلئے پیسہ نہیں ۔

تمام ماشکیوں کی مشکیں بحق سرکار ضبط کر کے چمڑے کا سکہ چلا دیں۔

....Oصدر عارف علوی بغیر پروٹوکول عام پرواز کے ذریعے کراچی پہنچ گئے سامان بھی خود اٹھایا۔

ابھی تک تو پی ٹی آئی اپنا وزن اٹھا رہی ہے قوم کا وزن کب سے اٹھانا شروع کرے گی ویسے صدر پاکستان نے ایک اعلیٰ مثال قائم کر دی ہے اب پوری ٹیم ان کی پیروی کرے۔

....Oشیخ رشید آئندہ ماہ سندھ میں دو نئی ٹرینیں چلائی جائیں گی۔

شیخ صاحب نے پاکستان کو ٹرینوں میں خود کفیل بنا دینا ہے۔

وہ اتنی ٹرینیں خریدنے کیلئے پیسہ کہاں سے لا رہے ہیں، یا پاکستان ریلویز نے چند دنوں میں اربوں کما لئے۔

....Oلاہور کے سوا کسی شہر میں فضائی آلودگی جانچنے کیلئے مانیٹرنگ اسٹیشن نہ بننے کا انکشاف۔

وزیر اعلیٰ پنجاب توجہ فرمائیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین