• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پاکستانی انجینئرز کی دنیا بھر میں مانگ ہے، پروفیسر ڈاکٹر افتخار حسین

بات چیت: سلطان صدیقی، محمد آصف ترک

عکّاسی: فرمان اللہ جان

یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (UET)،پشاور کے وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر افتخار حسین کا تعلق ضلع نوشہرہ کے علاقے پبی سے ہے۔ انہوں نے یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ہی سےمیکینکل انجینئرنگ میں بی ایس سی اور پھر انڈسٹریل انجینئرنگ میں ماسٹرز کیا اور مزید تعلیم کے حصول کے لیے برطانیہ چلے گئے اور بریڈ فورڈ یونی ورسٹی، برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سے تاحال تدریس و تحقیق کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ قبل ازیں کنگ سعود یونی ورسٹی، سعودی عرب میں انڈسڑیل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں بھی معلمی کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ان کا شماریو ای ٹی، پشاور میں انڈسٹریل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی بنیادرکھنے والوں میںہوتا ہے، جہاں دس برس تک وہ مذکورہ ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین رہے اور اب گزشتہ دو برس سے اسی یونی ورسٹی کے سربراہ ہیں۔ گزشتہ دنوں یونی ورسٹی کی کارکردگی، شعبہ جات، اخراجات اور مسائل کے حوالے سے اُن سے سیر حاصل گفتگو ہوئی، جس کی روداد نذِر قارئین ہے۔

پاکستانی انجینئرز کی دنیا بھر میں مانگ ہے، پروفیسر ڈاکٹر افتخار حسین
نمائندگانِ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

س: سب سے پہلے تو اس اعزاز پر آپ کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ آپ نے جس مادرِ علمی سے تعلیم حاصل کی، آج اسی کے وائس چانسلر ہیں‘ کیسا محسوس کرتے ہیں اور مستقل کی کیا منصوبہ بندی رکھتے ہیں؟

ج:یقیناً یہ بات میرے لیےباعث ِاعزاز ہے کہ میں ایک ایسے اعلیٰ تعلیمی ادارے کا وائس چانسلر ہوں، جہاں سے میں نے خود بھی پروفیشنل تعلیم حاصل کی اور جو پاکستان کے معروف انجینئرنگ یونیورسٹیز میں سے ایک ہے۔ بہ طور اس ادارے کے سربراہ، میرا اوّلین مقصد یہی ہے کہ یو ای ٹی کے تدریسی، تحقیقی اور انتظامی معاملات کو باریک بینی سے دیکھوں اور اس سلسلے میں درپیش مسائل اور مشکلات کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کروں۔ یو ای ٹی کے ایک سابق طالب علم کی حیثیت میں نے انجینئرنگ تعلیم کے دوران جن مشکلات کا سامنا کیا، بہ طور وائس چانسلر میری ہر ممکن کوشش یہی ہے کہ میرے دور میں طلبہ ان مشکلات کا شکار نہ ہوں۔ اس ضمن میں ہم نے یونی ورسٹی کے زیرِتعلیم طلبہ کے لیے انٹرن شپ اور ملازمت کے مواقع پر فوکس رکھاہے اور اس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اسی طرح فائنل ائر کے طلبہ کے پراجیکٹس کی نمائش کے لیے خصوصی طور پر ملکی و غیر ملکی مندوبین کو مدعو کیا جارہا ہے، جو طلبہ کے بنائے ہوئے پراجیکٹس دل چسپی سے دیکھتے ہیں اور اکثر طلبہ کو موقعے ہی پرملازمتوں کی آفرز کردیتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں یو ای ٹی میں طلبہ کے لیے کائونسلنگ کا فقدان تھا، لیکن اب ہر شعبے میں ’’اسٹوڈنٹس کائونسلنگ‘‘ کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے، جس سے طلبہ کافی مستفید ہو رہے ہیں۔ دراصل، کیریئر اورینٹڈ تعلیم کا انتخاب ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے اور زیادہ ترطلبہ کیریئرکائونسلنگ نہ ہونے کی وجہ ہی سے پریشان رہتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے کس راستے کا انتخاب کریں۔

س : یو ای ٹی کے شعبہ جات کی کچھ تفصیل بتائیں؟

ج: اس یونی ورسٹی میں فی الحال 13شعبہ جات ہیں، جن میں ایگریکلچرانجینئرنگ‘ کیمیکل انجینئرنگ‘ سول انجینئرنگ‘ کمپیوٹرسسٹم انجینئرنگ‘ الیکٹریکل انجینئرنگ‘ الیکٹرانکس انجینئرنگ‘ میکینکل انجینئرنگ‘ میکا ٹرانکس انجینئرنگ‘ مائننگ انجینئرنگ‘ آرکیٹیکچر، کمپیوٹر سائنس اور بیسک سائنسز کے شعبہ جات شامل ہیں۔

س: مارکیٹ ڈیمانڈ کے مطابق آج کل کون سےمضامین زیادہ اہمیت کے حامل ہیں؟

ج: ہماری یونی ورسٹی میں موجود 13 شعبہ جات میں سے کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں، جس کی اہمیت نہ ہو۔ہمارے یہاں عمومی طور پر تعلیم حاصل کرنے کا مقصد محض نوکری کا حصول اور ریٹائرمنٹ کے بعد پینشن پر گزارا کرنا سمجھا جاتا ہے، جب کہ باہر کی دنیا میں ایسا نہیں، وہاں لوگ انٹرپرینیور شپ اور بزنس کی جانب جاتے ہیں، کیوں کہ پرائیویٹ سیکٹر میں زیادہ اچھی ملازمتیں ملتی ہیں اور میرے خیال میں تو انجینئرنگ، میڈیکل یا دیگر کسی بھی شعبے میں تعلیم کے حصول کے بعد یہ فرد ہی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ خود کو کیسے مارکیٹ میں متعارف کرواکر اپنا آپ منواتا ہے۔ تو بات یہ ہے کہ کمی تعلیم میں نہیں، افراد میں ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں جن 13 شعبہ جات میں پڑھایا، سکھایا جاتا ہے، وہ تمام ہی اپنی جگہ اہم اور ضروری ہیں۔ بہرحال، یہ بات بھی پیشِ نظر رہتی ہے کہ ملک میں زیادہ مواقع کس شعبے میں دستیاب ہیں، تو اس لحاظ سے دیکھا جائے، تو سول اور الیکٹریکل انجینئرنگ کے بعد میکنیکل انجینئرنگ وغیرہ اہم ہیں۔ تاہم، ایک بات ذہن میں رہے کہ اب انجینئرنگ کی مارکیٹ صرف ہمارے صوبے یا ملک تک محدود نہیں، اس کی ڈیمانڈ پوری دنیا میں ہے۔ اس لیے سارے مضامین اور شعبے ہی اہم ہیں اور سب ہی کی کہیں نہ کہیں ضرورت موجود ہے۔ خیبرپختون خوا کے لحاظ سے دیکھا جائے، تو یہاں مائننگ کے شعبے میں زیادہ مواقع ہیں کہ اس کے جنوبی اضلاع میں تیل و گیس ہے، تو شمالی اضلاع میں قیمتی پتھر۔ تاہم، بدقسمتی سے ہمارے یہاں تربیت کے فقدان کے باعث قیمتی پتھر انتہائی سستے داموں دوسرے ممالک کو فروخت کردیا جاتا ہے، جو وہاں پالش ہوکر پھر ہمارے ہی ملک میں مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے۔ اسی سبب ہماری یونی ورسٹی میں جم اینڈ جمالوجیکل سینٹر بھی قائم کیا گیا ہے، جہاں اس حوالے سے باقاعدہ ٹریننگ دی جارہی ہے۔ اسی طرح ایگریکلچر انجینئرنگ سمیت دیگر شعبوں میں بھی تربیت کا اہتمام کیا جارہا ہے، لیکن اگرملکی آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے، تو ملک بھر میں انجینئرز کی تعداد انتہائی قلیل ہونے کے باوجود زیادہ تر ڈگری یافتہ انجینئرز جب فیلڈ میں آتے ہیں، تو ان کی کھپت اس طرح سے نہیں ہوپاتی، جس طرح ہونی چاہیے اور یوں انجینئرز کی ایک بڑی تعداد بے روزگاری کا عذاب جھیلنے پر مجبور ہے۔ دراصل، ہماری انڈسٹریز میں ملازمت کے لیے نہ تو مطلوبہ فرد دیکھا جاتا ہے، نہ ہی عالمی مارکیٹ میں مقابلے کا رجحان، نتیجتاً انجینئرز کا کام ٹیکنیشنز سے لیا جاتا ہے، اگر ہماری انڈسٹریز، کوالٹی کے لیے عالمی معیار اپنانے پر توجّہ دیں، تو پھر کوئی انجینئر بے روزگار نہیں رہے گا۔

س:ایسے مزید کون سے شعبے ہیں، جو آپ یونی ورسٹی میں شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ نیز، فیکلٹیز اور فیکلٹی ممبرز کی تعداد سے متعلق بھی بتائیں؟

ج: میری خواہش ہے کہ یونی ورسٹی میں بائیو میڈیکل اور پیٹرولیم انجینئرنگ کے شعبے بھی قائم ہوں، کیوں کہ ایک ڈاکٹر جتنے بھی طبّی آلات‘ مشینیں اور ٹولز استعمال کرتا ہے، وہ تمام میڈیکل انجینئرنگ ہی سے متعلقہ ہیں۔ اگر یہ مشینیں اور آلات بھی یہیں بننا شروع ہوجائیں، تو ہمیں مہنگے داموں باہر سے درآمد کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہمارے یہاں اس وقت سات فیکلٹیز فعال ہیں، جن میں فیکلٹی آف سول، مائننگ اینڈ ایگریکلچر انجینئرنگ، فیکلٹی آف الیکٹریکل، الیکٹرانکس اینڈ کمپیوٹر انجینئرنگ، فیکلٹی آف میکینکل، انڈسٹریل کیمیکل میکاٹرانکس انجینئرنگ اور فیکلٹی آف نان انجینئرنگ و اپلائیڈ سائنسز آرکٹیکچر و میتھس شامل ہیں۔ فیکلٹی ممبرز کی کل تعداد 400 ہے، جن میں 180 پی ایچ ڈیز ہیں، جب کہ پوسٹ گریجویٹ پروگرام کے تحت نو ہزار کے لگ بھگ طلبہ مختلف مضامین میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

س:یونی ورسٹی کے تحقیقی کام پر بھی کچھ روشنی ڈالیں؟

ج:دیکھیں، تحقیق ایک بہت وسیع فیلڈ ہے، تاہم ہماری یونی ورسٹی نے اس ضمن میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے، ان میں مختلف انٹرنیشنل جرنلز میں 500پیپرز کی اشاعت شامل ہے۔ یہ تمام ایسی ریسرچز ہیں، جنہیں کسی بھی عالمی کانفرنس میں بھیجا جاسکتا ہے۔ یہ درحقیقت ایمپیکٹس اور پیٹنٹ ہیں۔ یونی ورسٹی ہٰذا میں 1500 سے 2000 تک رجسٹرڈ طلبہ تحقیق کررہے ہیں اور یو ای ٹی نے پیسکو کے لیے اسمارٹ میٹرنگ کا سلوشن بھی تیار کرکے دیاہے۔ پھر سوئی ناردرن کو گیس چوری اور گیس لیکجز کا سسٹم بھی یو ای ٹی کے طلبہ نے فراہم کیا ہے، جو بہترین کام کررہا ہے، اس کے علاوہ پیسکو ہی کو ایک ایسا سسٹم دیا ہے، جس کی مدد سے بجلی چوری کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں ایکٹیو ریسرچ ہوتی ہے، پرابلم سلوشن، آٹو میشن پر کام ہوتا ہے۔ حال ہی میں ہم نے چین کی ایک یونی ورسٹی، شنڈانگ اکیڈمی آف سائینسز سے معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت وہاں ہم نے اپنی ایک لیب قائم کی ہے، اورعن قریب ان کابھی یہاں ایک لیب قائم کرنے کا پروگرام ہے۔ اس کے ساتھ ہم ’’روبوٹس‘‘ پر بھی کام کررہے ہیں۔ علاوہ ازیں، انڈر واٹر ریسرچ، کلائوڈ کمپیوٹنگ، بلڈنگ کوڈ اور بلڈنگ فائر سیفٹی کور پربھی تحقیقی کام جاری ہے، جب کہ زلزلے سے متعلق ہمارا ارتھ کوئیک سینٹر، عالمی سطح پر چھٹے نمبر پر اور ایشیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ پانچ اسپیشلائزڈسینٹرز ہیں، انٹرپرینیور شپ ہے، انکیوبیشن سینٹر کام کررہاہے، جہاں لوگ اپنے مختلف آئیڈیاز پیش کرتے ہیں۔ نیز، کنٹی نیویشن انجینئرنگ ٹیوشن سینٹر میں بھی مختلف انڈسٹریز سے لوگ آتے اور ٹریننگ لیتے ہیں۔

س:یونی ورسٹی کے اخراجات اور مالی پوزیشن کے بارے میں کچھ بتائیے؟

ج: ہائر ایجوکیشن کمیشن سے ہمیں 845 ملین روپے کی گرانٹ ملتی ہے۔ اور تقریباً اتنی ہی ہم خود جنریٹ کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود یونی ورسٹی خسارے میں ہے۔ دراصل ایچ ای سی سے ملنے والے فنڈز، اساتذہ اور ملازمین کو دی جانے والی تن خواہوں کی مَد میں چلے جاتے ہیں، جب کہ حکومتی اعلانات کے مطابق تن خواہوں میں اضافے کے لیے سپلیمنٹری گرانٹ یامیچنگ گرانٹ نہیں مل رہی، تو ادارہ خسارے میں جارہا ہے۔

س: یو ای ٹی کی تعلیم اور ڈگری کو عالمی معیار کے مطابق لانے کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟

ج: یونی ورسٹی کے تعلیمی معیار اور ڈگری کو بین الاقوامی سطح تک لانا ہماری ترجیحات میں سرِفہرست ہے۔ بہ طور وائس چانسلر، میں نے چارج لینے کے بعد ہی سے اس سلسلے میں اپنی تمام تر کوششوں کا آغاز کردیا تھا۔ یو ای ٹی میں بہت جلد آئوٹ کم بیسڈ ایجوکیشن (او بی ای) سسٹم نافذ کیا جارہا ہے، جس سے ہماری تعلیم و تحقیق عالمی معیار کے مطابق ہوجائے گی۔ دراصل اس سسٹم کے نفاذ سے طلبہ کی تعلیمی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت اور سماجی رویوں کو جانچنے میں بھی مدد ملے گی۔اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ آج کے اس جدید دور میں انجینئرز کے ہاتھ میں محض ڈگری ہی نہیں ہونی چاہیے، ان کے رویّے اور کمیونیکیشن اِسکلز کا بہتر ہونا بھی ضروری ہے۔اس آئوٹ کم بیسڈ ایجوکیشن سسٹم سے ہمارا معیارِ تعلیم عالمی سطح کے برابر ہوجائےگا اور پھر ہماری یونی ورسٹی کی ڈگری دنیا بھر میں تسلیم کی جائے گی، جس سے ہمارے گریجویٹس کی توقیر میں بھی اضافہ ہوگا۔نیز،پاکستان انجینئرنگ کائونسل (پی ای سی) کی کوششوں سے یو ای ٹی کے گریجویٹس کے لیے ایک خصوصی تربیتی پروگرام بھی شروع ہورہا ہے، جس کا امتحان پاس کرنے کے بعد انجینئرز کو انٹرنیشنل پروفیشنل انجینئر (ای پی ای) کا لائسنس دیا جائےگا اور اس کی بدولت وہ دنیا بھر میں کہیں بھی اچھا روزگار حاصل کرسکیں گے۔ اس خصوصی تربیت کا سہرا پاکستان انجینئرنگ کائونسل کے سر جاتا ہے کہ جس نے پاکستان کو واشنگٹن ریکارڈ کا ممبر بنایا۔یاد رہے، پاکستان دنیا کا 17 واں ملک ہے، جسے یہ اسٹیٹس دیاگیا ہے۔

س: یو ای ٹی میں حصولِ تعلیم کے دوران طلبہ کو عموماً کن مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ نیز، انہیں دور کرنے کے لیے آپ نے کیا اقدامات کیے ہیں؟

ج: جہاں تک یو ای ٹی کے نظامِ تعلیم کی بات ہے، تو میں مکمل ذمّے داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہمارا معیار بہت بلند ہے۔ ہم معاشرے کو بہت باصلاحیت انجینئرز فراہم کررہے ہیں۔ تاہم، بہتری کی گنجائش تو موجود رہتی ہے۔ سو، یہاں بھی اصلاحات کا سلسلہ جاری ہے۔ بدقسمتی سے ہماری ابتدائی اور ثانوی تعلیم کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے، جس کے باعث یونی ورسٹی لیول تک پہنچنے والے اکثر طلبہ مختلف مسائل کا شکار نظرآتے ہیں اور بڑی مشکل سے خود کو پروفیشنل ایجوکیشن کے ماحول میں ایڈجسٹ کرپاتے ہیں ۔ اگرچہ یو ای ٹی میں طلبہ کی ہر طرح سے رہنمائی کا انتظام موجود ہے، ان کی کمیونیکیشن اسکلز اور رویوں کو بہتر کرنے کے ساتھ ان کی کائونسلنگ بھی کی جاتی ہے، جس کے بہت مثبت نتائج سامنے آتے ہیں۔ تاہم، ابھی پورے ایجوکیشن سسٹم میں بہت بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ پرائمری سطح سے اصلاحات کرنا ہوں گی، تب ہی کہیں جاکر معیارِ تعلیم بلند ہوسکے گا۔

س:میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم میں داخلوں کے لیے ایٹا (ETEA)کی جانب سے لیے جانے والے اینٹری ٹیسٹ میں اصلاحات کی کتنی گنجائش ہے؟

ج: ایٹا کا نظام اگرچہ بہت بہتر ہے۔اس کے تحت بہ یک وقت ہزاروں طلبہ کے لیے اینٹری ٹیسٹ کا اہتمام ہوتا ہے۔ تاہم، بہتری کی گنجائش اس میں بھی موجود ہے۔ پچھلے سال سے امیدواروں کو آن لائن رجسٹریشن کی سہولت فراہم کردی گئی ہے، لیکن اگر یہ ٹیسٹ کمپیوٹر کے ذریعے لیا جائے، تواس طرح کم جگہ پر ائر کنڈیشنڈ ماحول میں ہزاروں طلبہ کا امتحان بہ آسانی یقینی بنایا جاسکتا ہے اور اس میں کسی غلطی کی گنجائش کا امکان بھی نہیں رہے گا۔مزید برآں، انٹری ٹیسٹ کے موجودہ نظام میں ایک پرچہ 200 سوالات پر مشتمل ہوتا ہے اور وقت صرف تین گھنٹے ہوتا ہے، جو ایک ایف ایس سی کے طالب علم کے لیے تھوڑا مشکل ہے، اس لیے اگر اس سلسلے میں بھی مناسب اور موثر اصلاحات کردی جائیں، تو طلبہ کو بڑی آسانی ہوسکتی ہے۔

س: یونی ورسٹی کی رینکنگ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

ج:دیکھیں، رینکنگ سِرے سے کوئی معیار ہی نہیں، امریکا میں لاتعداد یونی ورسٹیز ہیں، جن کےنام رینکنگ میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے، جب کہ ہمارے ملک میں اٹامک انرجی، کے آرایل، واہ انڈسٹریز وغیرہ میں زیادہ تر انجینئرز خیبر پختون خوا سے ہیں۔ پھرآپ دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں، وہاں کوئی بھی بڑی کمپنی پاکستانی انجینئرز، خصوصاً یو ای ٹی کے انجینئرزٹاپ پر ہوں گے، تو میرے خیال میں تو اصل رینکنگ یہی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین