• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان کا ذہن قدرت کا پُراسرار کارخانہ ہے، جہاں جذبات و احساسات کی حکمرانی ہے۔ سوچ، ادراک، فہم و شعور، عقل و منطق اور خیال پرستی جیسے تمام الفاظ ذہانت اور تخلیق سازی کی تشریح کرتے ہیںلیکن ذہن کے کارخانے کو مکمل طور پر دریافت نہیں کیا جا سکا۔ نیورو سائنس کے ماہرین کی تمام تر تحقیقات کا لبِ لباب یہ ہے کہ انسانی ذہن کمپیوٹر کی طرح معلومات کو برق رفتاری سے چھانٹ کر مطلوبہ معلومات کو ذہن تک پہنچاتا ہے۔ہماری یادداشت جی پی ایس سسٹم کی مانند کام کرتی ہے۔ہمارے دماغ کی رگیں ایک دوسرے سے مربوط انداز میں کام کرتے ہوئے ذہانت وفطانت کو مہمیز کرتی ہیں۔

خیال کو خیال سے تقویت ملتی ہے اور خیال اس وقت توانا ہوتا ہے جب اسے انہونی،پُراسرار، پردہ غیب میں چھپی،نامعلوم چیزوں کا پتہ چلے۔ اس کا بہترین فن انسان نے قصے کہانیوں، داستانوں، افسانوں اور ناولوں کی صورت ایجاد کیا اور تخیل سے پریوں، جنوں وغیرہ کی ایسی کہانیاں لایا کہ عقل بھی محوِ تماشا بن گئی۔ جدید تحقیق نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر آپ اپنے بچوں کو پریوں جنوں کی کہانیاں سناتے ہیں تو ان کی تخلیقی ذہانت بڑھتی ہے اور وہ تخیل کے بل بوتے پر عدم سے ایسی چیزیں وجود میں لاتے ہیں، جن کا ہم پہلے تصور ہی کیا کرتے تھے۔

جنوں پریوں کی کہانیاں

بچپن میں ہم سب کو دادا دادی یا نانا نانی جنوں اور پریوں کی کہانیاں سنایا کرتے تھے اور ایسی منظر کشی کرتے کہ ہم آنکھ جھپکے بغیر سنتے رہتے تھے۔ الٰہ دین کا چرغ، علی بابا چالیس چور، سات بونے، ٹارزن، سند باد، الف لیلہ، حاتم طائی، شیخ چلی، عمرو عیار، سنڈریلا، اسنو وائٹ، ایلس ان دی ونڈر لینڈ جیسی کہانیاں ہماری من پسند ہوا کرتی تھیں۔ کوہ قاف کی پریوں کا تو جواب نہیں تھا۔ ان تخیلاتی قصوں کو لیکر ہمارے ذہن میں کئی خیالات آتے تھے۔ اب جدید تحقیق نے بھی اس بات کی توثیق کردی ہے کہ تخیلاتی کہانیاں بچوں کے ذہن پر دیرپا اثرات مرتب کرتے ہوئے تخیل کو حقیقت میں بدلنے کی طرف مائل کرتی ہیں، ورنہ اڑن قالین آج طیارے کی صورت نہ ڈھلتا۔

بولتی کتابیں

پہلے جو قصے کہانیاں ہم اپنے بزرگوں سے سنتے تھے، آج کل کے والدین کے پاس شاید اتنا وقت نہیں بچتا کہ وہ راتوں کو جاگ کر اپنے بچوں کو قصے کہانیاں سنائیں۔ اب آڈیو، ویڈیو کی صورت بولتی کتابیں موجود ہیں۔ ساتھ ہی کارٹون چینلزنے بچوں کو مکی ماؤس اور ڈزنی لینڈ تک اتنی آسان رسائی دے دی ہے کہ ہم اپنے دور میں اس کا خواب ہی دیکھا کرتے۔ ٹی وی پر جب مکی ماؤس یا پوپائے دی سیلر آتا تھا تو ہماری باچھیں کھل جاتی تھیں اور اب یہ سہولت یو ٹیوب نے ایک کلک کے فاصلے پر مہیا کردی ہے، تاہم ہمیں جو تخیل سازی کے مواقع کہانی سنتے وقت مہیا ہوتے ان کی بات ہی کچھ اور تھی۔ اس لیے یہ بات مت بھولیے کہ آپ کا لختِ جگر آپ کی توجہ چاہتا ہے۔ زمانہ خواہ کتنی بھی ترقی کرجائے! بھلے سے لاکھ گیجٹس موجود ہوں لیکن جو بات کتاب کے مطالعے اور کہانی سننے میں ہے، وہ کسی اور میڈیم میں نہیں۔ قدیم یونان کے عظیم فلسفی سقراط سوالات در سوالات پوچھتے، حظ اٹھاتے اور شکوک وشبہات دور کرتے تھے۔ وہ تعلیم و تربیت کو زبانی و کلامی مبلغِ علم جانتے اور تحریر سے زیادہ تقریر کے قائل تھے۔ ایک انسان کا دوسرے انسان سے رابطہ اور گفتگو اہمیت رکھتا ہے۔

افسانوی کہانیاں کیوں ضروری ہیں؟

دنیا بھر کے قدیم اساطیری ادب کو ملاحظہ کریں تو انسان کی تخیل ساز تاریخ طاقتور دیوتاؤں اور دیویوں پر مبنی رہی ہے۔یونان اور روم کے دیوتا ہوں یا پاک و ہند کا اساطیری ادب، کیلٹک تہذیب کے اساطیری قصےہوں یا قدیم عراق و مصر اور وادی سندھ کالوک ادب،ان سب کا واضح حصہ آپ کو انتہائی طاقت ور جنوں،پریوں اور دیوتاؤں کے محیر العقول قصوں سے بھرا نظر آئے گا۔اسے انسان کے تخیل ساز ذہن کی خامہ فرسائی کہیے یا کچھ اور ،صدیوں کے اس تہذیبی ورثے نے جب سائنس کے خد و خال وضع کیے تو انہی کہانیوں کے بطن سے ایجادات و اختراع نے جنم لیا۔ بیسویں صدی کی ابتدا ہی طیارے کی اہم ایجاد سے ہوئی، پھر ایڈیسن جیسے باوقار موجد نے ایک

ساتھ سینما پروجیکٹر اور بلب جیسی اہم ایجادات متعارف کرائیں۔ گراہم بیل نے دور دراز رابطے کو ٹیلی فون کے ذریعے ممکن بنایا، پھر وائرلیس اور ٹیلی کمیونیکیشن انقلاب کے بطن سے کمپیوٹر جیسی ایجاد سامنے آئیں۔ ٹی وی آیا اور اب اسمارٹ ٹی وی بیک وقت کمپیوٹر اورسینما اسکرین بھی بن گیا ہے۔ یاد کیجیے جادوگر سامری کے پاس شیشے کا مرتبان ہوا کرتا تھا، جس میں دنیا بھر کے مناظر ہوتے۔ اس طرح جادو سے سائنس نے جنم لیا۔ انسانی تخیل سوالات کی صورت فلسفے کے روپ میں سامنے آیا۔ تخیل کا یہ پورا سفر جادوئی قصے کہانیوں کی بدولت ممکن ہوا اور آج اکیسویں صدی میں ورچوئل ریئلٹی کی صورت ایک طلسمی دنیا ہمارے پاس آگئی ہے۔جن بچوں کو والدین اور اساتذہ جادوئی کہانیوں کے ساتھ ان سے وابستہ ایجادات کی کہانیاں سناتے ہیں وہ جینئس ہوتے ہیں۔

تازہ ترین