ناظم آبا دکے گورنمنٹ کالج کی یادوں میںبس این سی سی کی ٹریننگ ہی رہ گئی ہے، جب ہم نے فرسٹ ایئر میں برّی تربیت اور سیکنڈ ایئر میں امریکن کیلیبر ایم ون گرانڈ سے نشانہ بازی کی تھی۔ اس وقت ہم ذہنی طور پر تیار تھے کہ اگر دشمن ملک حملہ کرے گا ، تو ہم سرحد پر جا کر سردھڑکی بازی لگا دیں گے لیکن ایسی نوبت کبھی نہ آئی۔ ہمارے زمانے میں نیشنل کیڈٹ کور (این سی سی) کے نام سے ایک فوجی تربیت کالجز کے طلبہ کی زندگی کا حصہ تھی۔ فوجی لباس میں ملبوس کالجز کے طلبہ اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ بیس سے تیس دن اس تربیت میں حصہ لیا کرتے تھے۔ اس تربیت کا مقصد اپنے دفاع، ابتدائی طبی امداد، جنگی حالات میں بہتر نظم و نسق اور ہتھیار چلانے کی بنیادی مہارت ہوا کرتا تھا۔ یہ تربیت لازمی تو نہ تھی، پھر بھی طلبہ کی اکثریت اس میں حصہ لیا کرتی تھی کیونکہ90کی دہائی کے وسط تک نوجوان نسل کیلئے یہ بہت پُرکشش تجربہ ہوتا تھا۔ جب وہ خاکی وردی پہن کر باہر نکلتے تو ہماری چال ڈھال ہی الگ ہوتی تھی۔
کالج کے پیچھے رینجرز کی چوکیوں کے پاس پریڈ گراؤنڈ میں لیفٹ رائٹ، دس قدم مار، دائیں مڑ، بائیں مڑ کی گونجتی ریٹائرڈ فوجیوں کی گرجتی برستی آوازیں ، ایک ساتھ بازو اور قدم ملانے کی جستجو، ابتدائی طبی امداد کے سبق، رینکنگ ، ہنسی مذاق اور سزا کے طورپر کندھوں پر گن رکھ کر پورے گرائونڈ کا چکر لگانا، ڈرامے بازی میں بے ہوش ہوجانا، غرض خاکی وردی والے وہ لمحے آج بھی یاد آتے ہیں تو ہم کالج کے دنوں میں واپس چلے جاتے ہیں۔
این سی سی دراصل سول ڈیفنس کے سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہی ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں اسکاؤٹنگ اور سول ڈیفنس کی تربیت دی جانے لگی، جس میں نوجوان بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ سرکاری اداروں کے ملازمین کو بھی ابتدائی طبی امداد، بم ڈسپوزل، نشانہ بازی اور آگ پر قابو پانے کی ٹریننگ دی جاتی تھی۔ حکومتی سطح پر1951ء میں محکمہ شہری دفاع کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کے زیر اہتمام لاہور، کراچی، پشاور ، کوئٹہ اور مظفرآباد میں مختلف تربیتی کورسز کرائے جانے لگے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران جو لوگ سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر تھے ان کی بحفاظت منتقلی پاک فوج کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تھی۔ اس معاملہ میں مقامی نوجوانوں کی ٹیموں نے اپنی مدد آپ کے تحت نہ صرف شہریوں کی بحفاظت منتقلی کو یقینی بنایا بلکہ اندرونِ شہر لوگوں کا حوصلہ بلند کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ 1970ء کی دہائی میں کالج کے طلبہ کے لئے این سی سی اور طالبات کے لئے ویمن گارڈ کی ٹریننگ شروع کی گئی، جس کے خاطرخواہ نتائج حاصل ہوئے لیکن نوجوانوں کو نیم فوجی تربیت دینے کا یہ سلسلہ 1997ء میں ختم کر دیا گیا۔
شہری دفاع یا سول ڈیفنس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو زمانۂ جنگ میں وطن ِ عزیز کے دفاع کیلئے نکلناہے بلکہ اس کا مقصد حادثات اور ناگہانی آفات سے نمٹنے کیلئے شہریوں کی تربیت سے متعلق شعور پیدا کرنا ہے۔ شہری دفاع کی تربیت سے شہری ہنگامی حالات سے بطریق احسن نمٹنے کی صلاحیت حاصل کرسکتے ہیں۔ شہری دفاع کی تربیت نہ صرف جنگ کے دوران پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے بلکہ زمانہ امن میں اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ زلزلہ، سیلاب، طوفان، خشک سالی، ٹریفک حادثات، آگ لگنا اور صنعتی حادثات سے نمٹنے کے لیے شہری دفاع کی تربیت اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں شہری دفاع کے لیے خطیر بجٹ مختص کیا جاتا ہے اور نوجوانوں کے لیے اس تربیت کے حصو ل کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ ہمیں ایسی تربیت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اور ایسی تربیت دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کے لیے کچھ نئی بات نہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی کینیڈا کی فوج کی طرف سے ملٹری کا بنیادی کورس کرنے والے طلبہ کو دو تعلیمی کریڈٹ دینے کا اعلان کیا گیا۔اسی طرح برطانیہ بھی یونیورسٹی طلبہ کے لیے عملی فوجی تربیت اور ان کو ریزرو فورس کے طور پر استعمال کیے جانے کو پُر کشش بناتا ہے۔ہندوستان میں پہلے سے ہی بنیادی فوجی تربیت، کالجز کی تعلیم کا حصہ رہی ہے اور پچھلے کچھ برسوں میں اس کو سیاستدانوں کی طرف سے مزید پذیرائی بھی ملی ہے۔ اسرائیل ایسی تربیت میں سب سے آگے ہے جہاں ہر 18سالہ نوجوان پر لازم ہے کہ وہ بنیادی فوجی تربیت حاصل کرے۔
اب ہمیں موجودہ حالات کے تناظر میں شہری دفاع کے فروغ کے لیے طویل المیعاد حکمت عملی وضع کرتے ہوئے ا س بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ شہری دفاع کی تربیت ہرپاکستانی کے لئے لازمی ہونی چاہیے تاکہ وہ کسی بھی قسم کے ہنگامی حالات سے بطریق احسن نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس مقصد کے لیے ادارہ شہری دفاع اور مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے تعاون سے اسکاؤٹنگ اور شہری دفاع کی تربیت کو ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں قابلِ عمل بنانا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے مختلف سماجی تنظیموں کے ذریعے تربیتی ورکشاپس اور عملی کلاسز کا انعقاد مفید ثابت ہوسکتا ہے۔