• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہادت گاہِ حق کے امام، حسین عالی مقامؓ

جنت کے جوانوں کی سرداری سے پہلے راہِ حق کے شہیدوں کی سرداری پائی، موروثیت کے پہلے مورث نااہل حکمران کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے بجائے اسلامی جمہوریت کی خشت اول رکھنے والے سید الشہداء حسینؓ ابن علیؓ رہتی دنیا تک کیلئے یہ سبق دے گئے کہ حق حکمرانی کی بنیاد میرٹ ہے، ان کا مشن صرف یہ تھا کہ فاسق، فاجر، ظالم، جابر حکمران کو تسلیم کرنا انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ مسلمان کسی بھی باکردار شخص کو اپنا خلیفہ بنا لیتے تو امام عالی مقامؓ مدینہ منورہ میں ہی اسلام کی حفاظت کرتے رہتے، مگر جب یزید نے بیعت لینے پر مجبور کرنا چاہا تو آپؓ نے اس خدشے کے تحت انکار کر دیا کہ آج اگر پروردئہ رسولؐ ہو کر انہوں نے بیعت کر لی تو مسلمانوں میں ایک غیر جمہوری روایت چل پڑے گی یہاں تک کہ کوئی اسے برا بھی نہیں سمجھے گا۔ کوفہ، شام، الغرض پورے عراق میں یزید کے منصب خلافت سنبھالنے کے حوالے سے غم و غصہ پایا جاتا تھا، کوفہ اس لحاظ سے آگے آگے تھا، وہاں سے ہزاروں خطوط، پیغامات حضرت حسینؓ کو موصول ہوئے کہ آپؓ آئیں پورا عراق آپؓ کے ساتھ ہے، آپؓ قیادت فرمائیں۔ مگر یزید اور اس کے حواریوں نے پیش بندی کر رکھی تھی یہی وجہ تھی کہ آپؓ کے پہنچنے پر کوئی بھی گھر سے نہ نکلا۔ آپؓ نے واپس جانا چاہا تو یزیدی لشکر نے راہ روک لی۔ آپؓ نے یزید کو اطلاع بھی کر دی کہ ہمیں واپس جانے دیا جائے لیکن چاروں طرف سے محاصرہ کر کے آپؓ پر جنگ مسلط کر دی گئی اور آپؓ کو تنہا کلمہ حق کو بلند رکھنے کا یہ معرکہ سر کرنا پڑا۔ آپؓ کے خانوادے کو شہید کر دیا گیا اور بالآخر آپؓ کے خون سے بھی یزید نے ہاتھ رنگ لئے۔ آج کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اسلام میں ملوکیت کی اجازت نہیں اور اس طرح خلافت اسلامیہ میں ملوکیت کا پیوند لگ گیا مگر یہ ثابت ہو گیا کہ مسلمانوں کی زمام میرٹ پر ہی کسی کے ہاتھ میں دی جا سکتی ہے۔ ایک ایسا مرد صالح جو مسلمانوں کی صالح قیادت کرسکے سب اسی کو منتخب کریں۔ جب کوئی فاسق، فاجر، جبر و ظلم کے ذریعے دین اسلام کے بنیادی اصولوں کو روندتا ہوا حق حکمرانی پر غاصبانہ قبضہ کرتا ہے تو وہ اپنے اقتدار کی خاطر کسی بھی آخری حد تک جا سکتا ہے۔ یہی یزید نے بھی کیا مگر حسینؓ ابن علیؓ نے شہادتیں پیش کر کے اسلام کو زندہ کر دیا اور اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

قانون و عدل اپنا راستہ خود بنائیں گے

نواز شریف، مریم صفدر اور کیپٹن (ر)صفدر کی ضمانت پر رہائی ہو گئی۔ بڑی خوش آئند بات ہے کہ عدالتیں آزادانہ قانون کے مطابق فیصلے دے رہی ہیں، ان پر کوئی دبائو نہیں کہیں رکاوٹ نہیں، عدل و قانون کی عملداری سب سقم دور کر دے گی۔ آخر قانون نے راہ دی ہے تو یہ رہائی عمل میں آئی ہے۔ اگرچہ اب بھی مشکل مقام آنا باقی ہیں تاہم وہی ہو گا جو ملک و قوم کے لئے بہتر ہو گا مگر قانون کی چھتری کے نیچے، حکومت اپنا کام کر رہی ہے عدلیہ اپنا، اس سے زیادہ بہتر ماحول کیا ہو سکتا ہے۔ حکمران جماعت کے پاس وقت ہے موقع ہے، طرز حکمرانی کی اچھی مثال قائم کرے، نظام کو درست کرنا ہوگا اور جہاں جہاں چند دنوں میں میرٹ کا خیال نہیں رکھا گیا وہاں معاملات میرٹ پر حل کئے جائیں، نظرثانی کرنے، غلطی ماننے اور اصلاح کرنے میں حکومت کی کوئی سبکی نہیں۔ اپوزیشن کا کام ہے حکومت کو پٹڑی سے نہ اترنے دے، پارلیمنٹ کی بالادستی کو سب تسلیم کریں، قانون سازی کا عمل باہمی مشاورت سے آگے بڑھایا جائے کیونکہ ہمارا قانونی ڈھانچہ بہت پرانا ہو چکا، عصری تقاضوں اور ملکی حالات کے مطابق بنایا جائے، اب عدالتوں میں جو کارروائی چل رہی ہیں ان کو موضوع بحث بنانے پر وقت ضائع کرنے کے بجائے ہر ادارہ، محکمہ، فرد اپنی ذمہ داری نبھائے۔ حکومت کو وقت دیا جائے البتہ تعمیری تنقید جاری رہنی چاہئے۔ آج ملک پوری آزادی سے چل رہا ہے، صرف غلطیوں کے ارتکاب سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرنے میں حق پر ہے تو اس کو مطمئن کیا جائے مگر عمل کے ساتھ، زبانی جمع خرچ کی سیاست نہ کی جائے۔ حکومت عوام پر اتنا بوجھ ڈالے جو وہ اٹھا سکیں، بیورو کریسی ہو یا دیگر بڑی تعیناتیاں میرٹ سے سرمو انحراف نہ ہو تو سب اچھا کی تصویر دیکھی جا سکتی ہے، جو حکم شبہات پیدا کرے صادر نہ کیا جائے، ہر کام کے لئے مکمل غور و خوض لازم ہے، الل ٹپ اقدامات یو ٹرنز جنم دیتے ہیں، اس سے حکومت کی رٹ برباد ہوتی ہے۔ اب بھی بعض کاموں میں میرٹ پر سوالیہ نشان ہے، منی بجٹ نے عوام کی روزمرہ زندگی کو متاثر کیا ہے، اسے ایک نظر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں، فوری نوعیت کی ضرورتیں پورا کرنے کو پہلی ترجیح دی جائے اس کے بعد بڑے کاموں منصوبوں پر کام کیا جائے۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

دورہ

دورہ کرنا اچھی بات ہے دورہ پڑنا باعث نقصان ہے، وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داریاں ہیں، سعودی عرب اور امارات کا دورہ اچھا اقدام ہے، ہمیں وزیر اعظم کا یہ جملہ بہت اچھا لگا ’’سعودی عرب نے مشکل وقت میں ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے، ہم بھی ان کے ساتھ رہے ہیں اور رہیں گے‘‘ جملہ ہمیں تو کافی زرخیز لگا اور آئی ایم ایف کا در بہت دور ہوتا نظر آیا۔ معاشرہ، محکمہ، ادارہ، افراد کوئی بھی ان میں سے برا نہیں ہوتا، برا تو وہ رنگ ہے جو کسی ایک کے پٹڑی سے اترنے اور اسے نہ روکنے کے نتیجے میں دوسرے، تیسرے یہاں تک کہ کھیت کے ہر خربوزے پر چڑھنے لگتا ہے اور یوں یہ سرطان کی طرح پھیلتا جاتا ہے۔ بہتر ہے کہ پہلی اسٹیج پر ہی اس پر قابو پا لیا جائے۔ ساری ٹیم کو دنیا کے عظیم ایڈمنسٹریٹر حضرت عمر فاروقؓ کا یہ جملہ بار بار سنایا جائے اور اس پر عمل کی تلقین کی جائے کہ جو شخص کسی عہدے کا طلبگار ہو وہ اس کے لئے نااہل ہو جاتا ہے۔ خان صاحب اس لائن کو لے لیں اللہ بھلی کرے گا۔ سیاست کاروبارنہیں ہوسِ اقتدار نہیں، شان و شوکت کا اظہار نہیں، فقط خدمت ِخلق ہے۔ ہم دور کیا جائیں اپنے ہی قبیلے کے بڑے بڑے کالم نگار ہم جیسے معمولی کالم نگاروں کو گھاس نہیں ڈالتے، ڈی جی پی آر نے تو گویا ہمارا نام ہی مدعوئین کی فہرست سے کاٹ دیا ہے، بہرحال ہمیں چونکہ کالم لکھنے کی ہوس نہ تھی اس لئے تکلیف بھی نہیں ہوتی مگر گلہ تو بنتا ہے، روکے رکھتے تو منافقت ہوتی، کہہ ڈالا، لکھ دیا بس غبار اتر گیا؎

پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں

کالم گھسیٹنے میں عزت سادات بھی گئی

میرؔ سے معذرت کہ انہیں اپنے لئے استعمال کر لیا، واللہ یہ تضمین ہرگز نہیں، بہرصورت عمران نے تو دورہ کیا ہمیں اپنی ذات کا دورہ پڑ گیا، دوا نہیں لیں گے نہ ہی عطار کی دکان پر جائینگے ۔ وزیر اعظم پاکستان سے بڑھ کر اب ہمیں دوست اسلامی ملکوں کے ان دوروں سے توقعات ہیں جنکا ایک دور تو ہو چکا، ہمارے پائوں کمزور اور باقی دھڑ بھاری اور مضبوط ہے اسلئے پائے نازک میں ذرا سی معاشی موچ آ گئی ہے۔

ست بسم اللہ

٭ رہائی کا فیصلہ سن کر مریم اورنگزیب کے آنسو نکل آئے۔

ہم کو تو گردش حالات پہ رونا آیا

رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا؟

٭ اسحاق ڈار ہیلتھ سائنسز یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز کی چیئرمین شپ سے فارغ۔

ادھر سے دمادم صدا آ رہی ہے؎

قشقہ کھینچا لندن بیٹھے

خود کو خود گمنام کیا

٭ نواز شریف، مریم، صفدر رہا۔

اچھا ہے دردناک فلم میں انٹرول تو آیا، کوئی پتہ نہیں انٹرول ہی اختتام ہو جائے۔

٭ تجزیہ کار:مریم کے لئے فی الوقت سیاست کے دروازے کھل گئے۔

اللہ کرے گا یہ ’’فی الوقت‘‘ بھی حذف ہو جائے گا۔

٭ کائرہ:نواز شریف کو ہمیشہ ریلیف ملتا رہا ہے۔

میں تو ہر دم روتا ہی رہا ہوں۔

٭ خورشید شاہ:ریلیف ملنا اچھی بات ہے۔

شاہوں کی بات، باتوں کی شاہ ہوتی ہے۔

٭ شاہ سلمان نے پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت قبول کر لی۔

جی آیاں نوں ست بسم اللہ یا حبیبی !

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین