• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں روزنامہ جنگ کے صفحہ ادارت پر ایک مضمون بعنوان ”کراچی، ایک نہیں چار آپریشنز درکار ہیں“ نظر سے گزرا جس میں کالم نگار رقم طراز ہیں کہ ”کراچی کا مسئلہ نہ تو اتنا سادہ ہے اور نہ ہی اس کا حل اتنا سادہ ہوسکتا ہے “ لیکن قلم آرائی فرماتے ہوئے انہوں نے دوسری سانس میں گورنر راج کو کراچی کے مسئلے کا حل تجویز فرمایا۔ مزید لکھتے ہیں کہ کراچی میں امن وامان کی بہتری کے لیے سب سے پہلے ایک منتخب جمہوری حکومت کو تین ماہ قبل رخصت کرکے ایک غیر متنازعہ شخص کو گورنر نامزد کرنے کے بعد سیاسی جماعتوں کے عسکری بازوؤں کے خلاف آپریشن کرکے انہیں غیر مسلح کیاجائے۔ موصوف کی تجویز بنیادی طور پر ان کی اپنی بات سے متصادم ہے جو انہوں نے کالم کے شروع میں رقم کی تھی۔ گورنر کو ہٹانے کی تجویز دیتے وقت وہ ایسا جواب بتانے میں ناکام رہے جس کی بنیاد پر وہ انہیں ہٹا کر ایک غیر متنازعہ شخص کو گورنر بنانے کی بات کررہے ہیں۔ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب ہم فخر الدین جی ابراہیم کی شکل میں ایک متفقہ چیف الیکشن کمشنر لاسکتے ہیں تو سندھ بھی اہل اور غیرجانبدار لوگوں سے خالی نہیں ہے۔ان کی اس تجویز کو اگر ہم مسلمہ جمہوری اصولوں کے تناظر میں دیکھیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مدت سے تین ماہ قبل کسی منتخب جمہوری حکومت کو بے دخل کرنے کا جواز نظر نہیں آتا کیونکہ جو تجویز انہوں نے دی ہے آنے والی منتخب حکومت بھی اگر ضروری سمجھے گی تو اس پر عمل کرسکتی ہے۔ ووٹ کی طاقت ہی اصلاحات کا پرامن جمہوری ذریعہ ہے۔ گو کہ دستورِ پاکستان میں گورنر راج کی گنجائش موجود ہے لیکن اس کے لیے جو حالات درج کیے گئے ہیں وہ ابھی کراچی میں نظر نہیں آتے۔ گو کہ انسانی جانوں کے ضیاع ، جرائم کے تناسب کو دیکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتا ہے کہ حالات ناگفتہ بہ ہیں لیکن جن عسکری بازوؤں کا ذکر کالم نگار فرماتے ہیں اگر سیاسی جماعتیں اسے تسلیم کرلیں اور اس کی کارروائیوں کو بھی تسلیم کریں تو پھر گورنر راج جیسے آپشن کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ بصورتِ دیگر اگر شہرکراچی میں انارکی ہو، غیر ملکی مداخلت ہو تو ہنگامی صورتحال کے پیش نظر وفاقی حکومت اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے گورنر راج نافذ کرکے کارروائی کرسکتی ہے۔ جس تناظر میں معزز کالم نگار نے یہ تجویز دی ہے، وہ مناسب نظر نہیں آتی۔ سیاست میں سیاسی جماعتیں معاملات پر اتفاق بھی کرتی ہیں اور اختلاف بھی۔ اتحادی ہونے کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ وہ ہر مرحلے پر ایک دوسرے کے ہم نوا ہوں گے۔ میاں بیوی بھی اگر گھر کے معاملات چلاتے ہیں تو ایک دوسرے سے اختلاف کرجاتے ہیں یہ تو پھر مختلف نظریات کی حامل سیاسی جماعتیں ہیں جن کا اختلاف جمہوریت کاحسن ہے۔ کوشش تو یہ ہونی چاہئے تھی کہ ہم ان سیاسی جماعتوں پر اخلاقی دباؤ بڑھاتے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔ یا آنے والے انتخابات ان جماعتوں کا محاسبہ کریں گے اور ووٹ کے ذریعے عوام اپنی رائے کا اظہار کریں گے کہ آیا ان جماعتوں نے اپنی نمائندگی کا حق ادا کیا یا نہیں۔
چند ماہ رہ گئے ہیں جس میں حکومتوں کے ختم ہوجانے سے آسمان نہیں گرے گا لیکن ایسا ممکن ہے کہ ہم اس کے ذریعے سے کسی کو ہیرو اور کسی کو زیرو بنا ڈالیں۔ اگر ہم مبینہ طور پر کوئی غیر جانبدار گورنر لے بھی آئیں اور وہ کارروائی بھی کرے اور بعد ازاں اسی کو ہم نگراں حکومت کا ذمہ دار بنا دیں تو اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ اس پورے عرصے میں جو متعدد آپریشنز کا عرصہ ہوگا ، اس میں وہ غیر متنازعہ ہی رہے گا؟ انتظامیہ کی کارروائی سے معاشرہ تین طبقوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ ایک وہ جو انتظامیہ کے حق میں ہوتا ہے۔ دوسرا اس کے خلاف ہوتا ہے اور تیسرا غیر جانبدار رہتا ہے۔ اس صورت میں یہ غیر جانبدار اور غیر متنازعہ گورنر اپنی حیثیت بھی کھو سکتا ہے۔ لہٰذا دانش کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ووٹ کی طاقت کاسہارا لیں نہ کہ انتظامی طاقت کا۔ کراچی وہ شہر ہے جو ساٹھ کی دہائی سے مضطرب ہے۔ لیکن سلام ہے اس کے پوٹینشل پر کہ یہ آج بھی پاکستان کی معاشی، اقتصادی شہ رگ ہے۔ پاکستان کی ترقی کی بنیاد ہے۔ ہمیں اس امر پر بھی توجہ رکھنی ہوگی کہ وہ کون سی سیاسی جماعتیں ہیں جو خراب ترین حالات میں بھی میدان عمل میں موجود ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی، لسانی تفریق کے خاتمے اور نسلی نفرت کو مٹانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی فرقہ وارانہ کشیدگی کی زد میں رہا لیکن اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ وہ کون سے سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے عوام سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم رکھنے کی اپیل کی ہو اور اپنی علاقائی قیادت کو اس مقصد کے لیے سرگرم رکھا ہو۔
آخر میں انتہائی ادب کے ساتھ راقم یہ عرض کرنا چاہے گا کہ ووٹ کی طاقت ہی اصلاحات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور اس کے ذریعے ہی ہم گندگی کو صاف کرسکتے ہیں۔ معاشرے کو بہتری کی جانب لا سکتے ہیں۔ ماضی میں طاقت کے استعمال کے منفی نتائج ہم بھگت چکے ہیں۔ 1998ء میں بھی سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کا تجربہ کیاجاچکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایسی تجاویز سامنے لائیں جن کی مدد سے انتظامیہ بھی اپنی استعداد کو بڑھائے۔ سیاسی اور جمہوری طاقت کے ذریعے گندگی کا خاتمہ ہوسکے۔
تازہ ترین