• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس دوران میڈیا میں ان معاملات پر زور شور سے بحث جاری ہے کہ کیا عام انتخابات وقت پر ہوں گے یا نہیں، یاان سے کیا نتائج برآمد ہوں گے، یا کیا پاکستان میں ایک مرتبہ پھر ”بدعنوان اور نااہل حکمران ٹولہ“ اقتدار میں آ جائے گا۔ پاکستان کی دونوں مرکزی جماعتوں کے رہنما آصف زرداری اور نواز شریف بڑے سکون سے پُرامن انتقال ِ اقتدار کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ یہ ایک غور طلب پیشرفت ہے۔
زرداری صاحب کو حاصل صدارتی استثنیٰ اور اس کی آئینی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے مگر سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کے سربراہ نواز شریف نے اسے درخوراعتنا نہ سمجھا۔ ایک حالیہ بیان میں نواز شریف نے نہ صرف اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ زرداری صاحب کو ہر قسم کی عدالتی کارروائی سے اُس وقت تک استثنیٰ حاصل ہے جب تک وہ صدارتی منصب پر فائز ہیں بلکہ اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا کہ زرداری صاحب اس ملک کے آئینی طور پر صدر ہیں اور اگر وہ (نوازشریف) وزیراعظم منتخب ہوتے ہیں تو اُن کو زرداری صاحب سے حلف اٹھانے میں کوئی سیاسی یا ذاتی رنجش مانع نہ ہو گی۔ یہ بات خاصی تعجب خیز ہے کیونکہ اس سے پہلے نواز شریف کا موقف کچھ اور تھا۔
اس پیشرفت کو خوش آئند قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ ماضی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بہت سے رہنما، خاص طور پر پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور پارلیمنٹ میں قائد ِ حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان ، زرداری صاحب کو سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے تھے اور بعض اوقات ان کا لہجہ غیر پارلیمانی ہو جاتا تھا۔ ایساکرتے ہوئے مسلم لیگی رہنما اس حقیقت کو فراموش کر دیتے تھے کہ ان کو پنجاب میں حکومت سازی کے لئے فیصلہ کن برتری حاصل نہیں ہے اور ان کی صوبائی حکومت کا دارومدار پی پی پی کی خیر سگالی پر ہے کہ اس نے ان کی حکومت گرانے کے لئے کبھی عدم اعتماد کی قرارداد پیش نہیں کی۔ اب نوازشریف کے نرم لہجے کے جواب میں پی پی پی کے وزیر ِ اطلاعات مسٹر قمر زماں کائرہ نے اصغر خان کیس، جس میں1990ء کے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کے لئے مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت اور بہت سے دیگر رہنماؤں پر اُس وقت کی فوجی قیادت…جنرل اسددرانی اور جنرل اسلم بیگ… سے رقم لینے کا الزام ہے، کی تحقیقات، جس کا سپریم کورٹ کی طرف سے حکم بھی آچکا ہے، کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ مسٹر کائرہ کاموقف ہے کہ پی پی پی عام انتخابات کے نزدیک سیاسی ماحول کو مکدر نہیں کرنا چاہتی۔ اس کے علاوہ وزیر ِ اطلاعات نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق دونوں سابقہ جرنیلوں کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے بھی تحمل اور بردباری کا مزید مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت ِ عظمیٰ جو ان کے افعال کو پہلے ہی غیر آئینی قرار دے چکی ہے، حکومت کو ہدایت جاری کر دے کہ ان سابقہ فوجی افسران کے خلاف آئین ِ پاکستان کی کس دفعہ کے مطابق کارروائی کی جائے۔اس کا مطلب ہے کہ فی الحال حکومت سابقہ افسران کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے فوج کے ساتھ کشیدگی پیدا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
اس کے علاوہ پی پی پی حکومت نے جسٹس(ر) فخر الدین جی ابراہیم کو اس حقیقت کے باوجود کہ وہ پی پی پی مخالف سوچ رکھتے ہیں اور ایک سے زیادہ کیسز میں نواز شریف کے وکیل رہ چکے ہیں اور ان کا نام بھی اپوزیشن نے ہی تجویز کیا تھا، چیف الیکشن کمشنر مقرر کر دیا ہے۔ خیر سگالی کے ان مظاہروں کے بعد اب ایک اور مشکل مرحلہ درپیش ہے اور وہ کسی ایسے غیر جانبدار اور متفقہ طور پر قابل ِ قبول شخصیت کا چناؤ ہے جسے نگران وزیر ِ اعظم بنایا جا سکے تاکہ وہ منصفانہ اور پُرامن انتخابات کا انعقاد ممکن بنا کر اقتدار نئی منتخب حکومت کو سونپ سکے۔ اس وقت تک پاکستان مسلم لیگ (ن) نے حکومت اور عوامی ردعمل کا جائزہ لینے کے لئے جو نام میڈیا کے سامنے رکھے ہیں (اگرچہ ان کو ابھی باضابطہ طور پر نامزد نہیں کیا گیا ہے) ان میں دو نام انتہائی معتبر ہیں ایک مسٹر جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد اور دوسرا انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر صاحبہ۔ تاہم حتمی اور قابل ِ قبول شخصیت کا چناؤ کرتے ہوئے بہت سے عوامل کا جائزہ لیا جائے گا۔
دونوں مرکزی جماعتوں کی قیادت کو یہ تشویش بھی لاحق ہے کہ کوئی ”تیسری قوت“ نگران حکومت کے دور میں کسی ”ناگہانی آفت “ کا جواز بنا کر انتخابات کو یرغمال نہ بنا لے یا طویل مدت کے لئے ان کا انعقاد ملتوی نہ کردے۔ چنانچہ اُن کو کسی مضبوط امیدوار، جو جمہوری قدروں اور آئین اور قانون سے بخوبی واقف ہو تاکہ وہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے دباؤ کو برداشت کر سکے، کی تلاش ہے۔ مذکورہ بالا دونوں امیدوار کس حد تک اس پرکھ پر پورا اترتے ہیں ۔ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد ایک غیر متنازع اور ٹھوس کردار کے مالک ہیں جبکہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ بے باک اور دوٹوک بات کرنے والی لبرل شخصیت کے طور پر اندرون اور بیرون ملک پہچانی جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک اور معاملے کو نمٹانا بھی ضروری ہے اور وہ انتخابات کے حتمی وقت کے حوالے سے ہے۔ مسٹر شریف انتخابات مارچ یا اپریل میں چاہتے ہیں جبکہ زرداری صاحب کا خیال ہے کہ ان کا انعقاد مئی میں ہو۔ چنانچہ ان کو انتخابات کے حتمی وقت پر اتفاق کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ اس سے کم از کم دو ماہ پہلے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو تحلیل کر دیا جائے۔ یہاں ایک پیچیدگی پائی جاتی ہے کہ پنجاب اسمبلی کا آغاز قومی اسمبلی اور دیگر صوبائی اسمبلیوں سے ایک ماہ تاخیر سے ہوا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ زرداری صاحب مرکز ،سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تو اپنی مرضی سے حکومتوں کو تحلیل کرنے اور انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کر سکتے ہیں مگر پنجاب میں اُن کی مرضی نہیں چلے گی۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) صوبائی اسمبلیوں کے خاتمے اور عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ پر متفق ہوں۔ اگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا تو زرداری صاحب سب سے پہلے سندھ اسمبلی کے انتخابات کرا لیں گے کیونکہ وہاں سے پی پی پی کی کامیابی یقینی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ پی ایم ایل (ن) پر دباؤ ڈال سکیں گے۔ تاہم بہتر ہے کہ انتخابات کشیدگی کی بجائے افہام و تفہیم کے ماحول میں ہوں چنانچہ اگلے سال جنوری کے اختتام تک اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا جائے ورنہ موسم کے ساتھ سیاسی ماحول میں بھی گرمی آجائے گی۔
تازہ ترین