• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’چین کے اسٹیل سازوں کی توجہ جنوب مشرقی ایشیا کی جانب مرکوز‘

بیجنگ: ایملی فینگ

چینی کمپنیوں نے طے کردہ اسٹیل اور کوئلہ کے منصوبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے کیونکہ وہ جنوب مشرقی ایشیا میں پیداوار منتقل کرکے نئی مارکیٹوں کے تعاقب میں ہیں۔

گزشتہ چار سال سے، چینی اسٹیل کمپنیاں انڈونیشیا اور ملائشیا میں نئے اسٹیل پروجیکٹس میں 32 ملین ٹن کی سالانہ گنجائش کیلئے فنڈ دئیے ہیں۔فنانشل تائمز کے حساب کے مطابق، ایسوسی ایشن آف ایشین نیشنز کے دس رکن ممالک کے ذریعے 2016 میں اسٹیل کی کھپت 40 فیصد سے زائد کے مساوی ہے۔

واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تجارتی جنگ بھڑکنے سے اسٹیل کی تجارت متنازع بن گئی ہے امریکا نے عالمی اسٹیل ٹیرف نافذ کرکے اسے ہدف بنایا،یہ سمجھا جاتا تھا کہ چین کے کم قیمت اسٹیل کا عالمی مارکیٹس میں سیلاب آیا ہوا ہے۔

یہ گزشتہ سال ملکی شدید طلب کے ساتھ مل کر چین کو اس کی اسٹیل کی برآمدات میں کمی کی قیادت کی۔ اس کے باوجود بنیادی طور پر جنوب مشرق وسطیٰ میں، ٹیرف کے خطرے کے بغیر تیزی سے فروغ پاتی مارکیٹوں میں فروخت اور پیداوار کے لئے چینی پرڈیوسرز موجودہ گنجائش کو منتقل کررہے ہیں اور بیرون ملک پلانٹس میں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔

جنوب مشرقی ایشیا میں تیز رفتار بڑھتی ہوئی آمدنی کا مطلب کار اور تعمیرات میں معاشی ترقی ہے اور دونوں صنعتوں میں اسٹیل کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا ابھی بھی اپنی سالانہ کھپت کا نصف سے زائد اسٹیل درآمد کرتے ہیں۔

چینی پرڈیوسرز کیلئے یہ منتقلی اجارہ داری کو برقرار رکھنے کا معاملہ ہے۔بنیادی طور پر کئی دہائیوں سے شدید ملی طلب کی وجہ سے پیداوار کے حوالے سے چین کا اسٹیل کا شعبہ دنیا میں سب سے بڑا ہے۔ یہ تبدیل ہورہا ہے کیونکہ حکام نے اسٹیل کی گنجائش کو کم کردیا اور معاشی محرک بتدریج ختم کررہے ہیں۔

انڈسٹری پبلیکیشنز کلینش کموڈیٹس میں ایشیا کے ایڈیٹر توماس گٹیریرز نے کہا کہ چین کے اندر چینی سرمایہ کاری کے مواقع کم ہوتے جارہے ہیں، اس لئے یقینا یہ بیرون ملک بہتر مواقع تلاش کرنا چاہیں گے۔

چینی کمپنیوں نے لوہے کی کچ دھات اور نکل جیسی اسٹیل سے متعلق پروڈکشن میں بھی سرمایہ لگایا ہے۔

ریاستی ملکیت قرض دہندہ چین کے ترقیات بینک سے 384 ملین ڈالر قرض حاصل کرکے انڈونیشیا میں تنگشین گروپ نے 1.5 ملین ٹنز کی سالانہ صلاحیت کے ساتھ نکل پگھلانے کے کارخانے کی توسیع کی مالی مدد کی ہے۔

چین کے ریاستی ملکیتی جائنٹ کمیوڈیٹیز منمیٹلز کے تعمیراتی ذیلی ہربی کے شنوان اسٹیل گروپ اور ایم سی سی اووورسیز 3بلین ڈالر لاگت کے نئے اسٹیل پلانٹ کے بعد ملائیشیا میں نیم سوختہ کوئلے کا پلانٹ اور سیمینٹ کا پلانٹ تعمیر کرہے ہیں۔

2016 تک، چین نےاپنے فرسودہ صنعتی شعبوں کو فروغ دینے کی کوشش میں 150 ملین ٹن کی گنجائش میں کمی اور ان کے ماحولیاتی نتائج کو کم کیا ہے۔ کچھ معاملات میں، چینی کمپنیوں نے ملک سے باہر تمیر نو کے ذریعے اپنی کھوئی ہوئی صلاحیتوں کی تلافی کی کوشش کی ہے۔

مثال کے طور پر چین کے نجی کمپنیوں پر مشتمل جیان لونگ گروپ جواسٹیل کے مرکزی علاقے ہیبی صوبے میں سب سے بڑے نجی طور پر پرڈیوسر ہیں، ہیبی کی گراں پیداواری پابندیوں سے بچنے کے لئے دیگر صوبوں اور بیرون ملک پیداوار کی صلاحیت خرید رہے ہیں۔

تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چینی اسٹیل پرڈیوسرز کی بیرون ملک تلاش کے پیچھے سب سے بڑا عنصر امریکی ٹیرف سے بچنا اور براہ راست پیداوار اور تیزی سے ترقی کرتی ہوئی مارکیٹوں میں فروخت کرنے کی خواہش ہے۔

انرجی اینڈ کموڈیٹیز انفارمیشن گروپ ایس اینڈ پی گلوبل پلیٹس میں سینئر مینیجنگ ایڈیٹر پال برتولووم کا کہنا ہے کہ جیسا کہ متعدد ترقی یافتہ ممالک خود پر انحصار کرنے والا بننا پسند کرتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ان کی اپنی اسٹیل کی صنعت ہو۔ گنجائش سے زیادہ پیدوار کے باوجود مینوفیکچرنگ خودمختاری کیلئے اس کے علاوہ کوئی محرک نہیں ہوسکتا۔

چینی اسٹیل کمپنیاں اور ٹھیکیداروں کو ملک میں ریاستی بینکوں سے سستے سرمائے کیلئے رسائی بھی حاصل ہے جو انہیں جنوب مشرقی ایشیائی منصوبوں کے لئے پرکشش کم لاگت کی بولی لگانے کی اجازت دیتا ہے ۔

جنوب مشرق قسطی ایشیا کے ملکی اسٹیل کے شعبے میں اسٹاک میں خریداری واقع ہورہی ہے جیسا کہ چینی برآمدات پہلے ہی گررہی ہیں۔ 

تازہ ترین