• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمد صادق کھوکھر…لیسٹر
دور غلامی میں مسلمانوں کی پستی کا یہ عالم تھا کہ عام لوگ تو کجا پڑھے لکھے لوگ بھی مغربی افکار و نظریات کے سامنے ڈھیر ہوگے تھے۔ وہ ہر معاملے کو استعماری عینک سے دیکھنے لگے طرز معاشرت ہو یا نظام معیشت قانون وسیاست ہو یا تمدنی اور تہذیبی اصول و ضوابط سب کی بنیادیں تہذیب مغرب کے مطابق استوار کی جانے لگیں۔ مسلمان اپنے دین، اپنی روایات اور اپنی تہذیب و تمدن سے دور ہونے لگے۔ جدید تہذیب نے ان کے ذہنوں کو شکوک و شبہات سے بھر دیا تھا۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے ایسی شخصیات پیدا کیں۔ جنہوں نے حالات کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔ ان میں علامہ اقبال، جمال الدین افغانی، امام حسن البنا، سید قطب، محمد اسد اور سید ابو اعلیٰ مودودی نمایاں ہیں۔ ان حضرات نے امت مسلمہ کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے کی عظیم جدوجہد کی۔ جو کام علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے کیا۔ اسی کام کو سید مودودی نے اپنی نثرسے سر انجام دیا۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے پڑھے لکھے طبقے کو انہوں نے بے حد متاثر کیا۔ ان کی تحریریں ایسی پر اثر اور دلائل سے مسلح ہوتیں جسے پڑھ کر اسلام کے متعلق پھیلائے ہوئے تمام شکوک و شبہات خود بخود دور ہو جاتے ہیں۔ ان کا اسلوبِ نگارش قاری کو اپنے اندر جزب کر لیتا ہے۔سید مودودی نے جدید مادی افکار و نظریات پرجس انداز سے تنقید کی ہے۔ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان نظریات نے انسان کو مقام انسانیت سے گرا کر درندہ صفت حیوانوں کے برابر کر دیا ہے۔ بلکہ اس سے بھی کم تر۔ چونکہ اس تہذیب کی اساس خدا، وحی اور آخرت کے تصور سے بے نیازی اور انکار پر مبنی ہے۔ اس لئے ان نظریات پر عمل پیرا ہونے کا مطلب صرف خواہشات نفس کی غلامی، جنسی انارکی، عیاشی و بدمستی اور لالچ و خود غرضی کا حصول ہی رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے سید مودودی جدید تہذیبی افکارکو جدید جاہلیت قرار دیتے ہیں۔ اس جاہلیت کے اثرات اسلامی معاشرے پر بھی پڑے ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق سیاسی غلبے کا اگلا ہدف تہذیبی غلبہ ہوتا ہے۔ کیونکہ غالب اقوام اپنے غلبے کو برقراررکھنے کی خاطر ایسے اقدامات کرتی ہیں جس سے اس غلبے کو مزید تقویت ملے۔ اور مفتوع اقوام دل و جان سے غلامی کو قبول کرلیں۔ اپنے مقصد کے حصول کے لئے عسکری قوت کے استعمال کے بعد نظام تعلیم اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے قوموں کو غلامی کا خوگر بنایا جاتا ہے۔ جس سے وہ مفتوع قوم کو اپنے رنگ میں رنگنے لگتے ہیں۔ غلام اقوام رفتہ رفتہ ذہنی غلامی میں مبتلا ہوتی جاتی ہیں۔ جب قومیں اس حد تک ذہنی غلام بن جاتی ہیں تو حقیقی ترقی اور فلاح کے راستے مفقود ہو جاتے ہیں۔ سید مودوی کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے اس غلامی کا تاروپود بکھیر کر رکھ دیا تھا۔ اور ایسا لٹریچر تیار کیا جو ایک طرف اسلامی تصورات کو واضح کرتا ہے اور دوسری طرف ان شبہات کا ازالہ کرتا ہے جو تہذیبِ مغرب کے باعث ذہنوں میں رچ بس گئے ہوتے ہیں۔ ان کو قرآن کی صداقت پر اتنا یقین تھا کہ وہ اسے شاہ کلید قرار دیتے ہیں۔ یعنی ایسی چابی جس سے مسائل حاضرہ پر پڑا ہوا ہر قفل بآسانی کھل جائے اور حقیقت واضح ہو جائے۔
خود ان کی زبانی سنیے:"جاہلیت کے زمانے میں میں نے بہت کچھ پڑھا قدیم اور جدید فلسفہ سیاسیات وغیرہ پر اچھی خاصی لائبریری دماغ میں اتار چکا تھا۔ مگر جب آنکھ کھول کر قرآن پڑھا تو یوں محسوس ہوا کہ جو کچھ پڑھا تھا سب ہیج تھا علم کی جڑ اب ہاتھ آئی ہے۔ کانٹ، ہیگل ، نشطے، مارکس اور دنیا کے تمام بڑے بڑے مفکرین اب مجھے بچے نظر آتے تھے۔ بے چاروں پر ترس آتا ہے کہ ساری عمرجن گھتیوں کو سلجھانے میں الجھتے رہے اور جن مسائل پر بڑی بڑی کتابیں تصنیف کر ڈالیں پھر بھی حل نہ کر سکے۔ ان کو اس کتاب نے ایک ایک دو دو فقروں میں حل کر کے رکھ دیا۔۔۔۔۔ میرے لیے یہ قرآن شاہِ کلید ہے۔ مسائل حیات کے جس قفل پر لگاتا ہوں کھل جاتا ہے۔" مولانا مودودی نے دور غلامی میں اقامت دین کی تحریک کا آغاز کیا لوگوں کی فکری اصلاح کی۔ قرآن و سنت کو مرکزی اہمیت دی۔ فرقہ بندی سے بالاتر ہو کرپورے دین کا دفاع کیا۔ اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر متعارف کرایا۔ انہوں نے اسلام کے مختلف پہلوؤں مثلاً اسلامی معیشت، سیاست ، معاشرت، اخلاقیات قانون و دستور، عائلی زندگی اور اسلامی تہذیب و تمدن اور اس کے اصول مبادی پر گراں قدر کتب تصنیف کیں۔ جدید نظریات پر قلم اٹھایا اور ان کمزوریوں کو واضح کیا۔ ان کے مقابلے میں اسلامی نظریہ حیات کو اس طرح پیش کیا۔ جس سے اسلام کی حقانیت اور برتری ثابت ہوتی ہے۔ اور دل و دماغ پوری طرح مطمئن ہوتے ہیں۔ انہوں نے تقریباً ایک سو کتب لکھیں۔ اس کے علاوہ قرآن کی شاہکار تفسیر بھی لکھی۔ جو اب تک لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوچکی ہے۔ ان کی کتب کے تراجم دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ یہ کتب آج بھی دنیا کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ نوجوان نسل کو ان کتب سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
تازہ ترین