• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے حکمرانوں کی اپنی دلچسپیاں اور اہم ذاتی مسائل ہیں جن کی وجہ سے وہ عوامی مسائل حل کرنے کیلئے وقت نہیں نکال پا رہے۔ ایک عوام ہیں جنہیں ہر وقت مہنگائی، بیروزگاری کی پڑی رہتی ہے ان کیلئے یہ بہت بڑا مسئلہ ہے کہ چوہے اسپتالوں میں معصوم بچوں کو نوچ رہے ہیں۔ کھانسی کا شربت پی لیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ موت واقع ہوگئی۔ حکمرانوں کو کھانسی نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ شربت پی کر موت کی نیند سوتے ہیں۔ کسی کتے ، بلی اور چوہے کی کیا مجال کہ ان کے دفتروں کا رخ کرسکیں۔ عوام کیلئے پٹرول مہنگا ہونا یا سی این جی نہ ملنا آج سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ یہ تو حکمران طبقہ ہی ہے جس نے عوام کیلئے ملک بھر میں سی این جی اسٹیشن قائم کئے ہیں۔ اب بھلا عوام کہیں کہ مفت سی این جی مل جائے تو کیسے ممکن ہے ۔ ان سرمایہ داروں کے قریب نہ تو سپریم کورٹ کا 25/اکتوبر والا فیصلہ کوئی اہمیت رکھتا ہے اور نہ ہی حکمرانوں کی جرأت ہے کہ وہ انہیں کہیں کہ سی این جی اسٹیشن کھولیں۔ عوام کو کس نے کہا ہے کہ وہ رکشے، ٹیکسی اور پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کریں اللہ نے انہیں پیدل چلنے کیلئے دو دو پاؤں دے رکھے ہیں پھر بھی وہ میل میل لمبی لائنوں میں لگے سی این جی کے حصول کیلئے ٹکریں مار رہے ہیں ۔ آج کے کالم میں ایسے ہی چند مسائل۔
یہ کیسا ریکارڈ ہے:موجودہ حکومت کی خواہش ہے کہ دہری شہریت بحال ہو اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ لیکر اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا جا سکے لیکن کبھی بھی کسی حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کو وہاں درپیش مسائل کی طرف توجہ نہیں دی ۔ وہاں کے سفارتخانوں نے اپنی اپنی حکومتیں قائم کر رکھی ہیں۔ میں آپ کو گزشتہ مہینے کے حوالے سے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی رپورٹ کے بارے میں بتاتا ہوں کہ بیرون ملک پاکستانیوں نے اکتوبر2012 ء کے مہینے کے دوران ایک ارب36کروڑ 51لاکھ ڈالر کا ریکارڈ تاریخی زرمبادلہ بھیجا ہے ۔ اس میں سے سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے35 کروڑ 75لاکھ ڈالر، یو اے ای سے29کروڑ 37لاکھ ڈالر، امریکہ سے21کروڑ 75 لاکھ ڈالر ، برطانیہ سے 19کروڑ 71لاکھ ڈالر ، خلیج تعاون کونسل کے ممالک سے16کروڑ 33لاکھ ڈالر اور یورپین ممالک سے 3کروڑ 74لاکھ ڈالر کا زرمبادلہ وطن بھیجا جو اکتوبر2011ء کے مقابلے میں 34.11 فیصد زیادہ ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چار مہینے میں بیرون ملک مقیم پاکستانی 4/ارب 96کروڑ 42لاکھ ڈالر کا زرمبادلہ بھیج چکے ہیں۔ یہاں اسٹیٹ بنک کی رپورٹ سے متعارف کرانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ پاکستانی اتنے ہی بڑے مسائل سے دوچار ہیں لیکن ایک اہم ترین مسئلہ جو اس وقت مختلف ممالک خصوصاً دبئی میں مقیم پاکستانیوں کو درپیش ہے وہ مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ کا ہے کیونکہ اکثر ممالک نے یہ شرط لگا دی ہے کہ ویزہ میں اس وقت تک توسیع نہیں ہو سکتی یا نیا ویزہ نہیں لگ سکتا جب تک مشین ریڈایبل پاسپورٹ نہ ہو۔ اس وقت ہزاروں پاکستانی ایسے ہیں جن کے ویزوں کی تاریخیں ختم ہو رہی ہیں یا جنہیں ایمرجنسی کی صورت میں سفر کی ضرورت پیش آ سکتی ہے مگر ان کے پاس پاسپورٹ نہیں کیونکہ وہ نئے بننے کیلئے قونصلیٹ میں جمع کرا رکھے ہیں۔ پاسپورٹ پہلے ارجنٹ 7دن ، نارمل 15دنوں میں بن جاتا تھا اب ارجنٹ کیلئے25دن اور نارمل پاسپورٹ کیلئے 60دن دیئے گئے ہیں لیکن یہ بھی نہیں مل رہے۔ گلف نیوز میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق پاکستانی پاسپورٹ کے حصول کیلئے سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ قونصلیٹ نے پاسپورٹ بنانے کیلئے نئی درخواستیں لینے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستانیوں نے قونصلیٹ کے سامنے احتجاج کیا اور کہا کہ ہمارے پاکستانی لیڈر کرپٹ ہیں اور انہیں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا کوئی احترام نہیں ۔ قونصلیٹ کا کہنا ہے کہ اس وقت7ہزار درخواستیں پاسپورٹ بنانے کیلئے اکٹھی ہوگئی ہیں جبکہ 10 ہزار پاسپورٹ کی ڈلیوری زیر التواہے۔ پاسپورٹ بنانے کی ذمہ دار وزارتِ داخلہ ہے ۔ گلف نیوز کے مطابق وزیر داخلہ رحمن ملک کے حکم پر پاسپورٹ بنانے والے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو اچانک ستمبر میں یہاں سے ٹرانسفر کر دیا گیا جو 24گھنٹے کے اندر چارج چھوڑ کر پاکستان چلا گیا۔ اب اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے بغیر کوئی بھی مجاز نہیں کہ درخواستوں کو پراسیس کر کے ڈیٹا اسلام آباد بھیج سکے ۔ نہ ہی کسی کے پاس ” پاس ورڈ“ ہے کیونکہ یہ پاسپورٹ اسلام آباد میں پرنٹ ہو کر آفیشل کوریئر کے ذریعے واپس آتے ہیں لیکن افسوس کہ ان کو تو دہشت گردی کی وارداتوں کی پیشگوئیاں کرنے سے ہی فرصت نہیں کہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ ان کی حکومت کے اخراجات جن پاکستانیوں کے زرِمبادلہ سے پورے ہوتے ہیں وہ کس حالت میں ہیں۔ بیرون ملک مقیم بہت سے پاکستانیوں نے ای میلز کے ذریعے احتجاج کیا ہے کہ ہماری حکومت کو کب شرم آئے گی کہ وہ بیرون ملک مقیم محب وطن پاکستانیوں کے مسائل کی طرف توجہ دیں گے۔پنجاب پبلک سروس کمیشن کا کارنامہ: جون 2010ء کو پنجاب پبلک سروس کمیشن نے محکمہ تعلیم میں ایسوسی ایٹ اور اسسٹنٹ پروفیسر کی خالی اسامیوں کیلئے اخبارات میں اشتہار دیا ۔ اسسٹنٹ پروفیسر کی اسامی کیلئے تجربہ سات سال رکھا گیا تھا۔ اسی کی بنیاد پر درخواستوں کی اسکروٹنی کی گئی مگر اس کمیٹی نے مبینہ طور پر بھاری رشوت کے عوض ایک شخص جس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں 2009ء میں ماسٹر کیا اسے ایک سال کے تجربہ کی بنیاد پر نہ صرف اہل قرار دیا بلکہ سروس کمیشن نے بطور اسسٹنٹ پروفیسر تعینات کر دیا۔ اسی طرح ایسوسی ایٹ پروفیسرزکی اسامی کیلئے مبینہ طور پرپسند اور نا پسند کی بنیاد پر اہل قرار دیکر رولز کو تار تار کیا گیا۔ محب میرٹ خادم اعلیٰ سے درخواست ہے کہ سخت ایکشن لیا جائے، نہیں تو اس ادارہ سے کوئی شخص میرٹ کی بنیاد پر بھرتی نہیں ہو سکے گا!
بابا ہمیں قتل کر دو! کرنل شیر خان کلے ضلع صوابی صوبہ خیبر پختونخوا سے راج ولی نے لکھا ہے کہ میرے دو بیٹے جن کی عمر 9سال اور 7سال ہے ۔ جو تھیلے سیمیا کا شکار ہیں گزشتہ نوبرس سے اپنی جمع پونجی بیچ کر اور تین مرلے کا گھر گروی رکھ کر ان کا علاج کرارہا تھا اب میں خود فالج میں مبتلا ہوکر دونوں پاؤں سے معذور ہو چکاہوں ۔ مجھ میں نہ سکت ہے نہ ہی پیسہ کہ ان کا علاج جاری رکھ سکوں ڈاکٹروں نے XELOBAانجکشن تجویز کیا ہے اور ایک بچے کو مہینے میں 5/انجکشن لگنا ضروری ہیں جبکہ فی انجکشن 52سو روپے ہے میرے بچے مجھے بار بار کہتے ہیں کہ بابا ہم سے آپ کا دکھ نہیں دیکھا جاتا ہمیں قتل کر دو ، ہمیں قتل کر دو لیکن میں تو خدا ترس لوگوں سے اپیل کروں گا کہ میرے بچوں کا علاج کروا دو اس کا خدا تعالیٰ ہی اجر دے گا۔
تازہ ترین