• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنوبی ایشیا میں بھارتی بالا دستی قائم کرنے کی غرض سے بھارت سبک رفتاری سے مختلف ممالک میں اپنے مفادات کو ان ممالک کے مفادات سے اس انداز میں جوڑ رہا ہے کہ اگر وہاں پر کوئی سیاسی تبدیلی وقوع پذیر ہو بھی جائے تو بھی ان کے لیے بھارتی چنگل سے آزاد ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو ۔ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال انڈیا ، بنگلہ دیش ، فرینڈ شپ پائپ لائن پراجیکٹ ہے اس پائپ لائن کے ذریعے بھارت بنگلہ دیش کو ڈیزل فراہم کرے گا اور بنگلہ دیش بڑے پیمانے پر اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر بھارت کی جانب دیکھنے پر مجبور ہوگا ۔ اور بنگلہ دیش کو اپنے زیر دست رکھنے کی وہ بھارتی خواہش جو بنگلہ دیش کے قیام کے ساتھ ہی چلی آرہی ہے پوری ہو جائے گی۔ بنگلہ دیش اپنے قیام کے ساتھ ہی بھارت کے بہت زیر اثر تھا کیونکہ اس کے قیام کی بنیادی وجوہات میں سے اہم ترین بھارت کی سابقہ مشرقی پاکستان میں براہ راست فوجی نوعیت کی امداد تھی جو اس نے مکتی باہنی، مجیب باہنی وغیرہ کو پہنچائی اور آخر میں براہ راست فوجی اقدام کر ڈالا بھارت کی یہ تن تنہا حیثیت شیخ مجیب کے قتل تک قائم رہی مگر اس کے بعد جنرل ضیاء الرحمن کے دور سے 1996تک چینی کی حیثیت بھارت سے بتدریج بنگلہ دیش میں بڑھتی چلی اس مختصر تعارف کی وجہ یہ ہے کہ اس سے یہ اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے کہ بنگلہ دیش میں کوئی بھی بھارتی اقدام جو سٹراٹیجک نوعیت کا ہو۔ 

وہ درحقیقت وہاں کے معاملات میں چین کو پیچھے دھکیلنے کے اقدام کے طور پر ہی دیکھا جا سکتا ہے شیخ حسینہ واجد کی موجودہ حکومت کے قائم رہنے کی بڑی وجوہات میں سے اہم ترین یہ تصور کی جاتی ہے کہ وہ مکمل طور پر بھارت نواز ہے اور بھارت کے پاس بھی ان کی مدد کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں ہے چین اب بھی بڑے پیمانے پر بنگلہ دیش میں موجود ہے مگر سوناڈیا کی بندرگاہ کو تعمیر کرنے کی جب چین نے خواہش کا اظہار کیا اور 2014میں شیخ حسینہ واجد نے اس ضمن میں چین کا دورہ کرنے کی بھی ٹھان لی مگر بھارت نے یہ ٹھان لیا کہ ایسا نہ ہواور وہ اتنا اس حوالے مئوثر ہے کہ اس نے آج تک شیخ حسینہ واجد کا دورہ چین اس حوالے سے نہیں ہونے دیا بنگلہ دیش نے چین سے 2017میں دوسب میرینز لی کیونکہ اس کی قیمت باقی سے مقابلاً کم ہے مگر اس حوالے سے بھارت کی جانب سے سخت ناپسندیدگی کو بھر پور انداز میں محسوس کروایا گیا اور اس کا جواب دینے کی یہ تیاری کی گئی کہ انڈیا کے نیول چیف بنگلہ دیش کے نیول چیف کے ہمراہ کارپوریٹ پٹرول کے نام سے مشترکہ بحری اقدامات کا افتتاح کیا یہ اقدام چٹاگانگ کی بندرگاہ سے کیا جائے گا اور اس کا بالکل واضح مطلب یہ ہے کہ انڈیا ، بنگلہ دیش اور اس کے پانیوں میں اپنی باقاعدہ موجودگی کو قائم کر ڈالنا چاہتا ہے ان حالات میں پائپ لائن کے افتتاح سے واضح طور پر دنیا میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ انڈیا خطے کا بالادست ملک ہے انڈیا ، بنگلہ دیش فرینڈ شپ پائپ لائن پراجیکٹ معاہدہ اپریل 2018میں ہوا تھا اور اس کا افتتا ح نریند ر موودی اور شیخ حسینہ واجد نے 18ستمبر 2018کو مشترکہ طور پر ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بنگلہ دیش کو انڈیا کی جانب سے ڈیزل کی سپلائی مارچ 2016میں شروع ہوئی تھی جو 2268میٹرک ٹن تھی اس کے بعد یہ اس رفتار سے بڑھی کے جولائی 2018تک انڈیا57ہزار میٹرک ٹن ڈیزل بنگلہ دیش کو فراہم کر چکا تھا اور اب توقع کی جارہی ہے کہ صرف جولائی 2018سے دسمبر 2018تک پچاس ہزار میٹرک ٹن ڈیزل مزید فراہم کیا جائے گا اس ڈیزل کی فراہمی میں کل سفر 510میٹر بنتا ہے اور بنیادی نقل وحمل کا ذرائع ریلوے ہے ۔ یہ چٹ گرام کی پورٹ پر اترتا ہے اور وہاں سے چٹ گرام کے ڈپو میں چلا جاتا ہے ۔ اس کے بعد ٹینکروں کے ذریعے کھلنا دولت پور بھیجا جاتا ہے اور پھر وہاں سے اپنی اصل منزل مقصود پاربتی پور ریلوے کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے ۔ لیکن اس پائپ لائن کے مکمل ہونے سے یہ فاصلہ 510کلو میٹر کی بجائے 130کلو میٹر رہ جائے گا یہ بھارت کے مغربی بنگال سیلی گری سے پاربتی پور ضلع دناج پور تک جائے گی اس میں سے 6کلو میٹر کی تعمیر نومالی گڑھ ریفائنری لمیٹڈ اور باقی کے 124کلو میٹر کی تعمیر بنگلہ دیش پٹرولیم کارپوریشن کرے گی اور یہ منصوبہ 30ماہ کی مدت میں مکمل کر دیا جائے گا اس کی صلاحیت 10لاکھ میٹرک ٹن سالانہ ہو گی ابتدا میں اس سے ڈھائی لاکھ میٹرک ٹن سالانہ ڈیزل بنگلہ دیش کو فراہم کیا جائے گا جو بعد میں 4لاکھ میٹرک ٹن تک بڑھا دیا جائے گا۔ 

اتنے بڑے پیمانے پر توانائی کی ضروریات کو بھارت سے براہ راست جوڑ دینے کے بعد شیخ حسینہ جہاں مرضی بھارت کے لیے لازم وملزوم ہو جائے گی وہاں پر وہ اپنے مخالفین کو بھی مستقبل میں بھارت کی بالا دستی کے تحت رہنے پر مجبور کر دے گی اس حوالے سے انہوں نے دوسرا افتتاح بنگلہ دیش میں ریلوے کے شعبے میں کیا ہے ڈھاکہ ڈونگی سیکشن ڈبل لائن ایک ایسا ریلوے کا پراجیکٹ ہے جس کے ذریعے بنگلہ دیش کے جنوب مغربی علاقے اور شمالی علاقے پدما پل اور بنگہ بدھو پل کے ذریعے ایک دوسرے سے باآسانی اور تیز رفتاری سے رابطے میں آجائے گااسی کے ذریعے چٹ گرام سلہٹ ، روس ڈھاکہ سے باآسانی ہو جائے گی اور ان ریلوے کے منصوبوں میں بنگلہ دیش کا پارٹنر اور اس کے سٹریٹیجک اثاثوں پر براہ راست نظر رکھنے کی بھارتی صلاحیت مزید بڑھ جائے گی 2016سے 2018تک کے ان بنگلہ دیشی اقدام کا ایک اور بھی پس منظر ہے اس سال بنگلہ دیش میں عام انتخابات منعقد ہونگے شیخ حسینہ واجد بنگالی عوام کو یہ باآور کروادینا چاہتی ہے کہ بنگلہ دیش کا گزارہ بھارت کے بغیر ممکن نہیں اور بھارت سے دوستی اور بہتر تعلقات رکھنے کی خاطر شیخ حسینہ بنگالی عوام کی ضرورت ہے کیونکہ بھارت جتنا اعتماد ان پر کرتا ہے اس حد تک اس کے مراسم کسی دوسرے صف اول کے بنگلہ دیشی رہنما سے نہیں اور اگر عام انتخابات میں حکومت کسی اور جماعت کی قائم ہو گئی تو بھارت سے تعلقات میں فرق پڑے گا اور یہ فرق بنگلہ دیش برداشت نہیں کر پائے گا اب دیکھنا یہ ہے کہ بنگلہ دیشی عوام اس تصور کا ساتھ دیتی ہے یا اس تصور کو پاش پاش کر ڈالتی ہے ۔ جو ان کی حقیقی آزادی کے لیے ناگزیر بھی ہے ۔ 

تازہ ترین