لندن (مرتضیٰ علی شاہ) میٹرو پولیٹن پولیس نے بتایا ہے کہ ایم کیو ایم کے بانی کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کی از سرنو تفتیش شروع کرنے کیلئے پاکستانی پولیس کی جانب سے برطانوی پولیس کو بھیجے جانے والے ڈاکومنٹس کے تجزیئے سے منی لانڈرنگ کی تحقیقات دوبارہ شروع کرنے کیلئے کوئی نئی بات یا ثبوت نہیں مل سکا۔ میٹروپولیٹن پولیس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اکتوبر 2016 میں تفتیش بند کرنے کے اعلان کے بعد پاکستانی حکام کی جانب سے بھیجے گئے میٹریل کا جائزہ لینے کے بعد پولیس کے نیشنل ٹیرارسٹ فنانشل یونٹ (این ٹی ایف یو) کے حکام اس نتیجے پر پہنچے کہ اس میں تفتیش دوبارہ شروع کرنے کیلئے کوئی نئی بات یا ثبوت موجود نہیں ہے۔ پولیس نے بتایا کہ الطاف حسین اور اس وقت کے ان کے ساتھیوں طارق میر، سرفراز مرچنٹ، محمد انور، افتخار قریشی، سرفراز احمد اور دیگر کو یہ بتائے جانے کے بعد کہ ان کے خلاف بین الاقوامی سطح پر تفتیش سمیت تمام انکوائریاں مکمل ہوچکی ہیں اور پولیس کی تفتیش اور کرائون پراسیکیوشن سروس کی ہدایت کے بعد اب ان کے خلاف کوئی کرمنل پراسیکیوشن نہیں ہورہی، پاکستان نے پولیس کو یہ ڈاکومنٹس بھیجے تھے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب برطانوی پولیس ایم کیو ایم کے رہنما کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمے کی تفتیش کر رہی تھی، اس وقت پاکستانی حکام نے برطانوی پولیس کو کوئی معلومات فراہم نہیں کی تھیں، پولیس نے ایم کیو ایم کے رہنما اور ان کے ساتھیوں کے خلاف3 سال تک تفتیش اور کرائون پراسیکیوشن سروس کی جانب سے پولیس کو دی جانے والی اس ہدایت کے بعد کہ پولیس کے پاس ملزمان کو چارج کرنے کیلئے مناسب شواہد نہیں ہیں، پولیس نے یہ مقدمہ داخل دفتر کردیا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ پولیس نے ملزمان کو چارج کرنے کیلئے کرائون پراسیکیوشن سروس کے سامنے3 مرتبہ فائل پیش کیں لیکن کرائون پراسیکیوشن سروس کا تجزیہ یہ تھا کہ ملزمان کو سزا دلانے کے امکانات بہت کم ہیں اور میٹروپولیٹن پولیس نے یہ تسلیم کیا تھا کہ یہ ثابت کرنے کیلئے کہ ضبط کی گئی رقم جرائم کے ذریعہ حاصل کی گئی یا غیرقانونی کارروائیوں کیلئے استعمال کی جانی تھی، ثبوت کافی نہیں ہیں۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ اکتوبر2016 میں کیس داخل دفتر کئے جانے کے بعد پاکستان کی ایف آئی اے نے منی لانڈرنگ کے الزامات کے حوالے سے نیا میٹریل بھیجا تھا لیکن پولیس کو اس میں کوئی نئی بات نہیں ملی، پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس نے اکتوبر2016 کے بعد مختلف قسطوں میں پاکستانی حکام سے میٹریل وصول کیا تھا۔ پاکستانی حکام نے برطانوی حکام سے درخواست کی تھی کہ نئے میٹریل کا جائزہ لے کر اسے پرانی فائل میں شامل کر لیا جائے۔ پولیس کے نیشنل ٹیرارسٹ فنانشل یونٹ کے حکام نے اس کا پوری طرح جائزہ لیا لیکن انھیں اس میں کوئی نئی بات نہیں مل سکی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ میٹروپولیٹن پولیس منی لانڈرنگ کے حوالے سے ملنے والی نئی معلومات کو دیکھنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ رقم حاصل کرنے کے ذرائع کے حوالے سے اصل تفتیش کے دوران دونوں ملکوں نے ایک دوسرے سے تعاون نہیں کیا، جس سے اس معاملے سے نمٹنے میں بڑا دھچکہ لگا اور پولیس اس نتیجے پر پہنچی کہ وہ ناکافی شواہد کی وجہ سے مفاد عامہ کے تحت مزید تفتیش جاری نہیں رکھ سکتی۔ ایم کیو ایم کے بانی کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ2012 میں سکاٹ لینڈ یارڈ کی جانب سے ایج ویئر میں ایم کیو ایم کے دفاتر پر چھاپوں اور الماریوں میں چھپائے گئے 2لاکھ پونڈ سے زیادہ برآمد ہونے کے بعد شروع کی گئی تھی اور جون2014 میں الطاف حسین کے مکان پر چھاپے کے دوران ان کے بیڈروم، الماریوں اور دیگر مقامات سے چوتھائی ملین پونڈ برآمد کئے گئے تھے۔ یہ رقم پروسیڈس آف کرائم ایکٹ2002 کے تحت ضبط کرلی گئی تھی۔