اسلام آباد(ایجنسیاں ) سپریم کورٹ نے گیس اور پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس سے متعلق درخواست کی سماعت کرتے ہوئے پی ایس او میں تعیناتیوں اور ایل این جی معاہدے کے حوالے سے رپورٹ طلب کرلی‘ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ احتساب کا صرف نعرہ لگایاگیا نتیجہ کوئی نہیں نکلا ‘ہم نے نیب کو بہت سپورٹ کیا‘نیب سوائے آنے جانے کے کرہی کیارہاہے‘ کیا نیب کا گند اب عدالت کو صاف کرنا ہے؟ نیب کا ڈھانچہ تبدیل کرنا ہوگا‘پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے میں بدنیتی نظرآرہی ہے‘ معاملہ نیب کو بھجوادیں گے‘عوام کومہنگائی کا جواب حکومت نے دینا ہے‘ہم صرف کرپشن کے معاملات دیکھ رہے ہیں‘بتایا جائے کہ قطر سے معاہدہ کرتے وقت شفافیت کو مدنظر رکھا گیا یا نہیں ۔اس موقع پرنیب کی جانب سے انکوائریز رپورٹ پیش کرنے کے لیے 3 ہفتے کی مہلت کی استدعا کی گئی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔جمعہ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے درخواست کی سماعت کی ۔سماعت کے دوران عدالت کے طلب کیے جانے پر وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان پیش ہوئے۔پی ایس او کے وکیل محمودمرزا نے عدالت میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق رپورٹ جمع کرائی اور کہا کہ انتظامی اور خریداری امور کی وجہ سے قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں۔چیف جسٹس نے وزیر پٹرولیم غلام سرور خان سے متعلق کہا کہ اگر وہ ادھر ہیں تو انہیں بلائیں اور کدھر گئے وہ 37 لاکھ والے سی ای او جس پر وکیل پی ایس او نے کہا کہ وہ ریٹائر ہو گئے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کھا پی کے چلے گئے ۔ اسپیشل پراسیکیوٹر نیب اکبرتارڑنے عدالت کو بتایا کہ سابقہ دور میں ایم ڈی پی ایس او کی تعیناتی ایک فرد کو نوازنے کے لیے کی گئی جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا بلائیں شاہد خاقان عباسی کو اور پوچھیں ان سے کہ ایسا کیوں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیب اس طرح کے مقدمات پکڑے چھوڑ دیں تحصیلداروں کو، اس قوم کو بتائیں ان کے ساتھ کیا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ احد چیمہ اور فواد حسن فواد کے مقدمے کا کیا ہوا، نیب نے عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔نیب کے وکیل نے بتایا کہ ریفرنس فائل کیا گیا ہے۔عدالت نے سماعت کے دوران نیب کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ نیب نے اب تک کیا کیا، کتنی انکوائریاں مکمل کیں، چیئرمین نیب کو کہیں چیمبر میں آکر بریفنگ دیں‘چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پی ایس او کی جانب سے پرائیویٹ وکیل ہائر کرنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے وکیل محمود مرزا سے استفسار کیا کتنی فیس لی ہے آپ نے جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ 15 لاکھ روپے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سرکاری اداروں کی حالت پہلے ہی پتلی ہے پھر پرائیویٹ وکیل کی خدمات لے لیتے ہیں، پی ایس او کی نمائندگی اٹارنی جنرل آفس کو کرنی چاہیے تھی۔ان کا کہنا تھا کہ نیب کی تحقیقات میں کوئی غفلت نہیں ہونی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ پھر کہا جائے عدالت نے ملزمان کو چھوڑ دیا۔اس موقع پر غلام سرور خان نے کہا کہ ایل این جی معاہدہ بادی النظر میں شفاف نہیں تھا ۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اس معاملے کو بھی دیکھیں گے۔ سماعت کے دوران چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ مختار کاظمی نے پیٹرولیم مصنو عا ت کی قیمتوں پر بریفنگ دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ 61 روپے امپورٹ پرائس ہے جس پر اضافی ایک روپے 32 پیسے فی لیٹر چارج لیا جاتا ہے اور اس اضافی پیسوں میں فریٹ اور انشورنس شامل ہے جب کہ پی ایس او ایک روپے 32 پیسے کا پیپرا رولز کیمطابق پابند ہے۔مختار کاظمی نے بتایا کہ 10 روپے 17 پیسے ڈو میسٹک کاسٹ ہے جس میں 3 روپے فریٹ چارج ہے اور یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ ملک بھر میں پیٹرول کی قیمت ایک ہو۔چارٹرڈ اکانٹینٹ نے کہا 3 روپے 47 پیسے ڈیلر کمیشن ہے اس کا تعین بھی حکومت کرتی ہے اور 27 روپے ٹیکسز ہیں اس میں کسٹم ڈیوٹی فکس ہے جبکہ جی ایس ٹی فی لیٹر کا تعین ایف بی آر کرتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا پی ایس او کا قیمت کے تعین سے کوئی تعلق نہیں تو 37 لاکھ روپے ایم ڈی کو تنخواہ کیوں دی، ایم ڈی ارسطو کاری کرتا ہے جو اتنی تنخواہ لے رہا ہے۔چیف جسٹس جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ذرا بتائیں پی ایس او والوں کے پاس کتنی گاڑیاں ہیں، ہر ایک کے پاس فور بائی فور ہوگی اور شاید بلٹ پروف بھی ہوں، ہمیں کفایت شعاری سے چلنا ہے، غیر ترقیاتی اخراجات کیوں بڑھائے گئے اس پر سابق ایم ڈی کو بلائیں۔