• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان نے بڑے بڑے وعوے کئے تھے لیکن اب انہوں نے کیا کیا ؟ یہ وہ سوال ہے ، جسے کچھ سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کچھ مخصوص حلقوں سے وابستہ افراد ایک عمومی سوال کے طور پرر ائج کر نے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اسکے ساتھ ساتھ اگر یہ سوال بھی پوچھا جائے کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو کتنے دن ہوئے ہیں اور اس مختصر عرصے میں کسی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا کیا مناسب ہے ؟ تو محسوس ہو گا کہ پہلا سوال صرف سیاسی نوعیت کا ہے ۔

اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے جمہوریت کی بقااور جمہوری عمل کو جاری رکھنے کیلئے ان انتخابی نتائج کو تسلیم کیا ہے ، جو انکے بقول دھاندلی والے نتائج ہیں ۔ اگر اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کی خاطر یہ سب کچھ کیا ہے تو جمہوریت کے تقاضوں کے مطابق وہ عمران خان کی حکومت کو وقت دیں۔ حکومت کو کم از کم اتنا وقت ضرور دیا جائے کہ اس کی کارکردگی کے بارے میں فیصلہ یا تنقید غیر منطقی محسوس نہ ہو ۔ اس تحریر کی اشاعت والے دن عمران خان کی حکومت 43 دن پورے کر چکی ہو گی ۔ یعنی ڈیڑھ ماہ بھی مکمل نہیں ہوئے ۔ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ حکومت کی کارکردگی کو جانچا جائے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ عمران خان سے لوگوں کو بہت زیادہ توقعات ہیں اور لوگوں کی ان توقعات کو عمران خان نے خود بھڑکایا ہے ۔ 25جولائی کے عام انتخابات سے قبل 20مئی 2018ء کو عمران خان نے اپنی حکومت کے پہلے 100دن کے ایجنڈے کا اعلان کیا تھا ۔ اس ایجنڈے نے بھی لوگوں کی امیدوں اور توقعات کو مزید بھڑکایا ۔ خواہشات پر مبنی یہ ایجنڈا دراصل پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی منشور بن گیا ۔ عام انتخابات میں لوگوں کی طرف سے جس طرح پاکستان تحریک انصاف کو مینڈیٹ دیا گیا ، اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ 100 دن کے ایجنڈے کو قبولیت عام ملی ہے ۔ 100دنوں میں اس ایجنڈے پر عملدرآمد کسی بھی طرح ممکن نہیں ۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں بھی اس حقیقت کا ادراک رکھتی ہیں اور انہیں حکومتی امور کا تجربہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت سے زیادہ ہے ۔ اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ جمہوری اور حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرےاور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے اسے کام کرنے کا وقت اور موقع فراہم کرے ۔ جمہوریت کا تقاضا تو یہ ہے کہ منتخب حکومت کیساتھ تعاون بھی کیا جائے ۔ سیاسی جماعتوں سے زیادہ اب غیر سیاسی ادارے اور لوگ اجتماعی یا انفرادی طور پر حکومت کی کارکردگی کو مانیٹر کرتے ہیں ۔ زمانہ بدل چکا ہے ۔ جیسا کہ میں اپنے کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ ہم ’’ ففتھ اسٹیٹ انفارمیشن ‘‘ کے دور میں ہیں ۔ اخبارات ، ریڈیو ، ٹی وی اور دیگر ذرائع ابلاغ ’’ فورتھ اسٹیٹ میڈیا ‘‘ ہیں ۔ ہم اس سے اگلے دور میں ہیں ۔ سوشل میڈیا اور نیٹ ورک سوسائٹی نے انقلاب برپا کر دیا ہے اور حکومت کی کارکردگی کو جانچنے اور اس کے احتساب کا ایک نیا نظام وضع ہو چکا ہے ، جو فورتھ اسٹیٹ میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے نظام سے زیادہ موثر اور بہت حد تک غیر جانبدار ہے ۔ عمران خان کی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے ویب سائٹس بھی بن چکی ہیں ، جو حکومت کے اقدامات کی ٹریکنگ کر رہی ہیں ۔ ان میں ایک قابل ذکر ویب سائٹ ’’ خان میٹر ‘‘ کے نام سے ہے ۔

مذکورہ ویب سائٹ کی مانیٹرنگ اور ٹریکنگ کا جائزہ لیا جائے تو ان 43دنوں میں عمران خان کی حکومت کی کارکردگی ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے ۔ ویب سائٹ کے مطابق 20 مئی 2018 کو اپنی حکومت کے 100ایجنڈے کا اعلان کرتے ہوئے عمران خان نے 41وعدے کیے تھے ، جو گورننس ، وفاق کی مضبوطی ، معیشت ، زراعت ، پانی ، سوشل سیکٹر اور سکیورٹی کے شعبوں سے متعلق تھے ۔ 41 دن میں عمران خان کی حکومت نے 35 میں سے 14 وعدوں پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا ہے جبکہ ایک وعدے کی تکمیل بھی کر دی ہے ، جس کے تحت 10 ارب درخت سونامی مہم شروع کر دی گئی ہے ۔ 2 ستمبر کو پورے ملک میں 15 لاکھ پودے لگائے گئے اور اس حوالے سے گرین گروتھ ٹاسک فورس بھی قائم کر دی گئی ، جو 10 ارب درخت لگانے کے عمل کی نگرانی کرے گی ۔ 14 وعدوں پر کام کا آغاز کر دیا گیا ہے ۔ قومی احتساب بیورو ( نیب ) کو زیادہ بااختیار بنانے اور ملک کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے وعدے کی تکمیل کیلئے وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ نے اپنے پہلے اجلاس میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب کی سربراہی میں ٹاسک فورس قائم کر دی ۔ ایف بی آر میں اصلاحات کیلئے ٹیم بھی تشکیل دی گئی ۔ بلدیاتی اداروں کو زیادہ موثر بنانے کے وعدے کی تکمیل کیلئے نیا بلدیاتی نظام تجویز کرنے کی غرض سے کمیٹی تشکیل دیدی گئی ۔ پولیس میں اصلاحات کیلئے سابق آئی جی خیبر پختونخوا ناصر درانی کو پنجاب پولیس میں اصلاحات کا کام سونپا گیا ۔ عدالتی اصلاحات کیلئے وزیر قانون کی سربراہی میں ٹاسک فورس قائم کی گئی ، جو ضابطہ ہائے فوجداری اور دیوانی ، انسداد دہشت گردی ایکٹ اور نیب آرڈی ننس میں ترمیم کیلئے سفارشات پیش کر یگی ۔ سول سروسز ریفارمز کیلئے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں ٹاسک فورس بنائی گئی ہے ۔ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کیلئے ارباب شہزاد کی سربراہی میں قائم ٹاسک فورس سفارشات مرتب کر رہی ہے ۔ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے وعدے کی تکمیل کیلئے پاکستان تحریک انصاف کے رکن پنجاب اسمبلی سردار محسن لغاری نے پنجاب اسمبلی میں قرار داد جمع کرا دی ہے ۔ غربت کے خاتمے اور لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے کچی آبادیوں کو اپ گریڈ کرنے کی غرض سے بھی ٹاسک فورس بنا دی گئی ۔ ایک کروڑ نوکریوں اور 50لاکھ گھروں کی تعمیر کیلئے بھی ٹاسک فورسز کے 90دنوں کے پلان کا انتظارم کیا جا رہا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان آئندہ چند روز میں 50لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے کا خود افتتاح کرنیوالے ہیں ۔ پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کو ’’ گیم چینجر ‘‘ منصوبہ بنانے کیلئے اسپیشل اکنامک زونز بنانے کے کام کو تیز کر دیا گیا ہے ۔ لوگوں کو سماجی تحفظ فراہم کرنے کیلئے خیبرپختونخوا میں صحت سہولت پروگرام شروع کیا گیا ہے ۔ اور وزیر اعظم عمران خان نے ملک بھر میں صحت کے شعبے میں اصلاحات لانے کی غرض سے ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے متعلقہ قوانین میں ترامیم پر بھی کام شروع ہو چکا ہے ۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان 43 دنوں میں وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کے جتنے اجلاس منعقد کیے ، یہ اتنی مدت کیلئے ایک ریکارڈ ہو گا ۔ انہوں نے فوری طور پر مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی ) کا اجلاس منعقد کیا ۔ کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کو کئی ٹاسک دے دیئے ۔ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں زیادہ سے زیادہ شرکت کی ۔ ان کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے سادگی اور بچت کیلئے اقدامات کیے اور ان کے کام کی رفتار بہت زیادہ ہے ۔ اس کے باوجود کارکردگی جانچنے کیلئے حکومت کو وقت دینا ہو گا ۔ مختصر وقت میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے ۔ ہم ففتھ اسٹیٹ میڈیا کے دور میں رہتے ہیں ۔ لوگ خود بھی کارکردگی مانیٹر کر رہے ہیں ۔ ان مختصر دنوں میں اگر کوئی بات کہی جا سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کی کام کی رفتار بہت اچھی ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین