• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’تبدیلی‘‘ کے علمبردار سیاستدانوں نے ایک پرانے یونانی فلسفی ارسطو کا نام ضرور سنا ہوگا اس نے کہا تھا

" The secret of change is to focus all your energy not on fighting the old but on building the new."

’’تبدیلی کا راز یہ ہے کہ اپنی تمام تر قوت پرانے کو مٹانے پر نہیں بلکہ نئے کو بنانے پر لگائیں‘‘

کیا تبدیلی کی سونامی ایسا کررہی ہے؟ نہیں ان کا فی الوقت پرانی چیزوں کو مٹانے پر زور ہے کیا یہ صحیح ہے؟

تبدیلی، پی ٹی آئی نے اس خواب کو بننے میں 22سال محنت کی ہے۔ لوگوں کی سیاسی وابستگی کسی جماعت سے بھی ہو تبدیلی چاہتے ہیں۔ نظام کی تبدیلی بدحالی کی جگہ خوشحالی، غربت کی جگہ عسرت ، ناانصافی کی جگہ انصاف، بے روزگاری کی جگہ روزگار ، جہالت کی جگہ علم بیماری کی جگہ صحت، لمبی فہرست ہے مطلب لوگ اپنی زندگیوں میں بہتری چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ لوگوں میں یہ امید پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ وہ ایسا کرسکتے ہیں لیکن بغیر پلاننگ کے بیک جنبش قلم پرانی چیزوں کو مٹانے سے کیا حاصل ہوگا۔ تبدیلی لانے کا انداز یقیناً غلط اور فیصلہ کرنے کے طریقہ کار پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

ابھی وزیر اعظم ہائوس ، گورنر ہائوس، بھینسوں اور ہیلی کاپٹرز کی کہانی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک اور بم گرا کہ پاکستان براڈکاسٹنگ ہائوس کو ریڈیو پاکستان کی اکیڈمی میں منتقل کیا جائے گا اور پی بی سی کی عمارت کو لمبی لیز پر دیا جائے گا تاکہ میڈیا یونیورسٹی بنائی جائے۔ اس فیصلے کی منطق سمجھ نہیں آرہی۔

کسی زمانے میں، نیویارک میں انٹریر ڈیزائن کی طالبہ تھی مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہمارے استاد نے ایک اسائمنٹ دی کہ ایک Residential spaceے اس کوRenovateکریں۔ پہلے ایک Clientکے لئے جو سنگر ہے پھر اسی جگہ کو ایک بوڑھے جوڑے کے لئے جو ریٹائرڈ ہیں اور جن میں سے ایک معذور ہے۔ مطلب دونوں کی ضروریات اور سہولیات مختلف ہوں گی۔ یہ بھی کہا کہ ڈیزائن پر محنت کرنے سے پہلے رہائشی جگہ سے باہر جاکر بھی معائنہ کریں ہوسکتا ہے آپ پورا ڈیزائن بنالیں۔ جہاں آپ نے کھڑکی بنائی ہے باہر جاکر دیکھیں تو وہاں سامنے تاروں کا جمگھٹا ہو اور آپ وہاں کھڑکی نہ نکال سکیں، وقت کی بچت ہوگی۔ دوسرا جو تبدیلی لانا چاہتے ہیں پہلے کاغذ پر سب Options بنائیں۔ اس پر آپ کے پیسے خرچ نہیں ہوں گے مجھے یہ دونوں نعمتیں عام زندگی میں بھی کارآمد معلوم ہوئیں۔

پی بی سی کو H9منتقل کرنے کے فیصلے کی منطق کو سمجھنے کی کوشش کررہی ہوں۔ کیا فیصلہ کرنے والوں نے کوئی تخمینہ لگایا کہ یہ تبدیلی کتنے میں پڑے گی اور کیا پی بی سی کو T/9کی اکیڈمی میں زم کرنے کی گنجائش ہے۔ اس تبدیلی کا کارکردگی پر کیا اثر پڑے گا اور اس سب کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا۔ کیا یہاں نوکریوں سے نکالے جانے والوں کو 50لاکھ گھروں کی تعمیر سے نکلنے والی ملازمتوں میں جگہ دی جائے گی اور یہاں یونیورسٹی کا کوئی سروے ا سٹڈی اس کی کتنی ضرورت ہے اس کے یہاں بننے سے ٹریفک پر کیا اثر پڑے گا اور پھر بعد میں کیا طالبعلموں اور اساتذہ کی رہائش کے لئے ایم این اے ہوسٹل، فارن آفس ہاسٹل یا کسی ہوٹل کی خدمات حاصل کی جائے گی اور پھر پی بی سی کی بلڈنگ کو یونیورسٹی بنانے کے لئے جو توڑ پھوڑ کی جائے گی اس کا کیا خرچ آئے گا کیونکہ یہ بلڈنگ ضرورت کے مطابق ڈیزائن کی جاتی ہے۔ ایک ائیر پورٹ اور اسکول میں بہت فرق ہوتا ہے،کیا کسی آرکیٹیکٹ ، کسی انٹریر ڈائزینر سے مشورہ لیا کہ اس خیال کو حقیقت بنانے میں کتنا سرمایہ خرچ ہوگا اور محکمہ تعلیم سے مشورہ کیا کہ پہلے سکولوں کی ضرورت ہے یا یونیورسٹی کی، اگروجہ یہ ہے کہ ریڈیو پاکستان خسارےمیں جارہا ہے تو ریلوے بھی خسارے میںرہی ہے۔ ریلوے کے وزیر موصوف دس ہزار فوری بھرتیوں کی بات کررہے ہیں اور یہاں ریڈیو کے قریب 2900 ملازمین کی زندگی الٹ پلٹ کرنے پر تلے ہیں یہ بھی پاکستانی ہیں۔ریڈیو کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی گنجائش یقیناً ہوگی۔ لوگوں کی صلاحیتوں سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہوگا۔ Downsizingکی گنجائش ہوگی لیکن وہ آپ کے ہر محکمے میں ہے۔ ایک اسٹینو ٹائپسٹ جو ٹائپ کرتا ہے ڈکٹیشن بنانے ایک لوئر ڈویژن کلرک جو ڈائری رجسٹرڈ کرتا ہے ایک نائب قاصد ہے جو ڈاک بھیجتا ہے یا بناتا ہے۔ باہر کے ملکوں میں اتنے لوگ نہیں ہوتے لیکن اب ان کو نکالنے سے پہلے ان کے لئے کوئی متبادل ذریعہ معاش کوئی ٹریننگ، کچھ سوچیں گے اور پھر ان کو ساتھ لگائیں گے۔ جلد بازی کے فیصلے ترقی نہیں افراتفری پھیلاتے ہیں اور وزیر اعظم جس مائنڈ سیٹ کو بدلنے کا سوچ رہے ہیں پاکستان ریڈیو اس میں بہت موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس کی آواز اس ملک کے کونے کھدرے اور بیرون ملک پہنچتی ہے اس کو تباہ کرنے کی بجائے اس کو موثر بنانے کی بات کیجئے تخریب سے تعمیر پر کام کیجئے۔

تازہ ترین