• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسی صورت حال جبکہ افغانستان میں فسادی و جنگی ماحول ہے اور شام میں ایک سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے ، نویں ورلڈ وائڈ سیکورٹی کانفرنس ایسٹ ویسٹ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے برسلز میں ورلڈ کسٹم آرگنائزیشن کے تعاون سے منعقد ہوئی۔اس کانفرنس میں دنیا بھرسے تقریباً 300 پالیسی ساز، بزنس مین اور عوامی رائے عامہ کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ جنہوں نے خطے میں معاشی سیکورٹی کو درپیش مسائل پر غور و فکر کیا جس میں پانی ،خوراک اور توانائی کے تعلق سے خاص توجہ مرکوز رکھی گئی۔ مسائل بہت سے ہیں ، جن میں 2014ء میں افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد اس خطے میں کیا اثرات ہوں گے، اسی خطے میں آنے والے وقت میں لیڈر شپ کی تبدیلی ، مواقع اور نئی سوچ کے ساتھ نیٹ ورک کے پھیلاؤ، رکاوٹوں کو دور کرکے نئے چیلنجز کا سامنا ایک نئے عزم کے ساتھ کرنے کے ارادے وغیرہ جیسے بہت سے امور زیر بحث رہے۔
ڈبلیو سی او کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر Kunio Mikuriyaنے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء میں معاشی ترقی اور سیکورٹی پر خصوصی توجہ دلانے کے لئے اس کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔ فن لینڈ کے سابق صدر اور نوبل لاریٹ مارتی احتساری نے اس خطے میں تنازعات کو حل کرنے کی اپیل کی۔ ان کے مطابق ”اقوام عالم کو ایک دوسرے کے ساتھ اچھے روابط قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے“۔ اس کانفرنس میں شرکاء کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ کراس بارڈر انفرااسٹرکچر اور پانی، توانائی اور خوراک کے سلسلے، نوجوانوں میں بے روزگاری اور سماجی گنجائش کے حوالے سے خصوصی سفارشات مرتب کریں۔ احتساری نے کہا کہ ”مشرق وسطیٰ میں اس وقت تک امن قائم نہیں کیا جاسکتا جب تک فلسطین اور اسرائیل تنازعہ حل نہیں کیا جاتا۔ امن کا تعلق ایک سیاسی قوت ارادی سے ہے، تنازعات میں کمی کرنے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے اپنی سرحدوں کو مزید کھولنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ دیگر بڑے مسئلے حل کرنے کی بھی ضرورت ہے جیسے ایران کا نیوکلیئر پروگرام کا تنازعہ۔ احتساری نے بہت سے بڑے بڑے چیلنجز کے بارے میں خبردار بھی کیا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ خطہ ٹینشن، تنازعات اور جنگ کا گھر رہا ہے جہاں اس 21ویں صدی میں بھی بیرونی مفادات کے لئے عالمی سیاست کی جاتی رہی ہے۔ صرف ہماری ترقی اور سمت کا تعین ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ ہم 21 ویں صدی میں کس مقام پر کھڑے ہیں۔ اس خطے میں عالمی کمیونٹی کا اعتبار خطرے میں ہے۔ احتساری کی سفارشات نے موجودہ مردہ حماس ، اسرائیل تنازعہ کے کسی حل کی طرف ایک اہمیت اجاگر کر دی ہے۔ عرب لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری سفارتکار ہیشام یوسف نے کہا کہ ”بدقسمتی سے ہم اپنے معاشی مفادات کو سیاسی مشکلات سے دور نہیں رکھ سکے۔2011ء میں غیر ملکی سرمایہ کاری 38 فیصد کم ہوگئی۔ دنیا کی 5فیصد آبادی رکھنے والی عرب دنیا کو 0.7 فیصد پینے کا پانی میسر ہے۔ بڑے تنازعات ہیں اورکم وسائل ان میں خصوصاً پانی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ میںآ ئندہ جنگ پانی کے مسئلے پر ہی ہوگی۔
ڈاکٹر خالد ملک UNDP کے ہیڈ کی ”ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ“ ( اس رپورٹ کو 1994ء میں مشہور شخصیت ڈاکٹر محبوب الحق نے تحریر کیا) میں کہا گیا ہے کہ اب فوج کی سرحدی سیکورٹی کا تصور بدل گیا ہے اور اب سیکورٹی سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کے مسائل کا حل، لوگوں کی صلاحیت، ضرور یات زندگی اور ہر خوف سے آزادی ہے۔”ریاست اور ریاست کا نظام سب ایک اس نکتہ پر ارتکاز ہوکر رہ گئی ہیں“۔ انہوں نے فوڈ سیکورٹی پر کہا کہ بکثرت وسائل ہونے کے باوجود لوگ بھوکے رہنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے اسے ایک مسئلہ قرار دیا۔ خالد ملک نے مزید کہا کہ لوگوں کو ترجیح دینا سب سے اہم ہے۔ انہوں نے سخت سرحد رکھنے کے بجائے نرم سرحدرکھنے پر زور دیا چونکہ اس بدلتی دنیا میں نئی نئی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔ اس کانفرنس سے امیدیں وابستہ ہوئیں، پڑوسی ممالک کے مسائل سے آگاہی حاصل کرنا اور سوجھ بوجھ کی پالیسی ہی اس خطے میں تعلقات کو استوار کر سکتی ہے۔
ایک سیشن کی صدارت بحیثیت EWI کے بورڈ ممبر میں کررہا تھا اور سیشن کے شرکاء سے کچھ سوالات بھی کئے گئے۔ اس میں ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ اس خطے میں پانی، توانائی اور خوراک کی سیکورٹی کے سلسلے میں اگر پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کیا جائے تو کیا بڑی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے؟ اور کون کون سے نازک ایشوز ان پرائیوٹ سیکٹر کی وجہ سے ہو سکتے ہیں؟ یہ ایشوز کس طرح حل کئے جاسکتے ہیں؟اس کا جواب سیشن کے پینل میں شامل ایک رکن Tewadros Ashenafi جو ایتھوپیا کی ساؤتھ ویسٹ انرجی (ایچ کے) لمیٹڈ کے چیئرمین بھی تھے، انہوں نے کہا کہ”حکومت ، پرائیوٹ سیکٹر اور سول سوسائٹی کو ایک ساتھ مل جل کر چیلنجز کا سامنا کرکے حل تلاش کرنا چاہئے۔ایسے چیلنجز جو کسی اختراعی عمل کے حامل ہوں تو اس میں پرائیوٹ سیکٹر پانی، توانائی اور خوراک جیسے مسائل میں زیادہ موثر کردار ادا کرسکتے ہیں چونکہ یہ نجی ادارے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا جانتے ہیں اور اختراعی سوچ کے لئے بہت زیادہ مواقع موجود بھی ہیں۔ پینل کے ایک رکن پروفیسر سی ایس کیانگ چیئرمین ،(Sustainable Development Technology Foundation, Beijing)نے کہا ”سب سے اہم یہ تھا کہ مسائل کو بالکل درست سمجھنا چاہئے نہ کہ محض ترقی کی نمو کے بارے میں گفتگو کی جائے۔ پانی، توانائی اور خوراک کے سلسلے کو پوری توجہ،مکمل ملاپ، علم و آگاہی کے ساتھ کیا جانا چاہئے۔شفافیت اور لیڈرشپ کی تبدیلی سے چین ماضی کی بہ نسبت مزید شفاف ہوتا چلا جائے گا۔ انہوں نے شہری علاقوں میں ترقی کے لئے اعلیٰ معیار کو قائم رکھنے پر بہت زور دیا ۔ کاربن کا کم سے کم اخراج، نئی دوبارہ پیدا ہونی والی توانائی اور چیزوں کے ری سائیکل کے طریق کار اور استعمال پر بھی زور دیا ۔ ای ڈبلیوآئی پروفیشنل فیلو ڈاکٹر گریگ اوسٹن نے اس موقع پر کہا کہ ”یہ بتانا بھی بہت اہم تھا کہ جن ایشوز پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اس کا ایک ایکشن ایجنڈا بھی ہونا چاہئے تھا، خاص کر تنازعات کے معاملات حل کرنے میں ، وسائل پیچیدہ ایشوز بن گئے ہیں۔ انہوں نے 1954ء میں پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والے انڈس بیسن معاہدے کی مثال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تاہم یہ تمام ایشوز بھی ایسے نہیں ہیں جن کو حل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی“۔ پاکستان اور افغانستان کے حوالہ دیتے ہوئے ماریہ لیوانوس کیٹاؤ، سابق سیکریٹری جنرل انٹر نیشنل چیمبرآف کامرس نے کہا کہ ”اس سلسلے میں علاقائی تعاون سب سے بڑی کنجی ہے،سیاسی اختیار کی منتقلی کے بغیر کچھ ممکن نہیں، سیاسی قوت ارادی سب سے افضل ہے۔ اس خطے میں عموماً اور افغانستان میں بالخصوص ایک مضبوط انتخابی ڈھانچے کی بہت ضرورت ہے، نیزمزید شفافیت ، انسانی حقوق، انصاف، احتسابی عمل اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لئے ماحول کی بھی ضرورت ہے۔ عالمی پالیسی تبدیل کرنا ہوں گی۔ ایک نئی لیڈرشپ کو سامنے آنا ہوگا، سرمایہ کاری کے لوازمات اپنی جگہ پر ہوں۔ نجی ادارے بہت اہم ہوتے ہیں لیکن انہیں روزگار اور مارکیٹ کے مواقع کومتحرک کرنا اور ذمہ داری بھی قبول کرنا چاہئے، وسائل کی کمی ہے اور نقد فصل کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا اور اس کی رفتار میں اضافہ بھی کرنا ہوگا۔
اس کانفرنس کے شرکاء افغانستان کے اندرونی حقائق پر بات کرنے سے کتراتے رہے۔ Chatham House Rules نے اس موضوع پر زیادہ بات کرنے ہی نہیں دی تاہم مغربی ممالک کا دیگر ممالک کے ساتھ امتیاز بہت واضح نظر آرہا تھا۔راجیو چندرا سیکران کے جون 2012ء کے ایک انٹرویو کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں ” امریکہ نے افغانستان پر دولت کی کارپٹ بمباری کی ہے“ امریکہ نے افغانستان کی معیشت کو سنبھالا دینے کی غرض سے 2001ء سے100( سو) بلین ڈالر خرچ کئے ہیں۔صرف 2010ء میں تعمیر نو کے لئے 4بلین ڈالر کی خطیر ر قم خرچ کی گئی، 600بلین امریکی ڈالرافغانستان کی جنگ میں خرچ ہوئے۔ ایک امریکی فوجی جریدے "Stars and stripes" کے مطابق پوری ملٹری اور سول اخراجات کے اعداد و شمار کے مطابق مئی 2011ء میں کل 10 بلین امریکی ڈالر ماہانہ خرچ کئے گئے۔ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ امریکی صدر نے صرف 2013ء کیلئے افغانستان میں تعمیر نو کی غرض سے10بلین ڈالر کی درخواست دی ہے۔ امریکہ کے خصوصی انسپکٹر جنرل برائے افغانستان نے تعمیرنوکے لئے ایک تخمینہ لگایا ہے کہ 15فیصد اس رقم کا حصہ متاثرین تک پہنچ سکا ہو گا۔100 بلین میں سے 85بلین سول امداد کے لئے مکمل ہی ضائع ہو گئے۔کوئی ان افغانوں سے پوچھے کہ انہیں کیا ملا، ماسوائے مراعات یافتہ طبقہ جس نے 70فی صد پام آئی لینڈ دبئی میں70 فی صد ویلاس خرید لئے۔
کتنی مایوس کن اور قابل نفرت یہ بات ہے کہ بھارت جس کی افغانستان کے ساتھ کوئی سرحد بھی نہیں ملتی اور جو ایک ڈسٹرکٹ کی آمدنی کاایک تہائی حصہ Naxalite Rule کے لئے خرچ کر رہا ہے۔ کیا اس کا 2014ء کے بعد افغانستان میں کوئی اہم کردار ہونا چاہئے۔کچھ لوگ ہیں جو امریکہ کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ افغانستان کے بلیک ہول میں کارپٹ بمباری کے لئے بھاری ر قم خرچ کرے جبکہ اس کے برعکس نوجوان امریکی سپاہی محض دبئی میں عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والے اور ویلاس کا کاروبار کرنے والے افغان امراء کو بچانے کیلئے بے مقصد اپنا خون ضائع کررہے ہیں۔ اگر اس رقم کا چھوٹا سا حصہ بھی پاکستان پر خرچ کیا جاتا تو مغرب اپنے اہداف کے مطابق اس خطے میں زیادہ امن اور استحکام قائم رکھنے میں ایک بہت بڑا اور اہم کردار پاکستان کا دیکھتا۔ افغانستان ایک مسئلہ ہے لیکن پاکستان اس مسئلے کا ایک پائیدار حل ہے۔
تازہ ترین